نیدر لینڈ کی شہزادی کا مثالی کردار، سب کیلئے لمحہ فکریہ
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے بااختیار افراد اختیارات کے ساتھ منسلک مراعات کو اپنا حق سمجھتے ہیں، شہزادی امالیا کا انکار یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اصل عظمت تو ذمہ داری، شعور اور قربانی میں ہے۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) جب دنیا میں اقتدار، دولت اور رتبے کو کامیابی کا معیار مانا جاتا ہے، ایسے میں اگر کسی بااثر اور شاہی خاندان کی ولی عہد شہزادی خود اپنے اختیار کردہ حقوق سے دستبردار ہو جائے تو یہ ایک ایسا کردار ہوتا ہے جو صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ واقعہ یورپی ملک نیدرلینڈز (ہالینڈ) کی ولی عہد شہزادی کاتارینا-امالیا سے متعلق ہے، جو موجودہ بادشاہ ویلم الیگزینڈر کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ شہزادی امالیا کی عمر جب 18 برس کو پہنچی تو یہ قانونی طور پر وہ عمر تھی جس میں انہیں ریاست کی جانب سے ولی عہد تسلیم کیا گیا اور باقاعدہ طور پر شاہی فرائض انجام دینے کی اجازت ملی۔ ریاست کی روایت کے مطابق، شہزادی کو سالانہ تقریباً 1.9 ملین یورو (یعنی 6 ارب سے زائد پاکستانی روپے) بطور شاہی الاونس دیے جانے تھے۔ یہ رقم انہیں ان کی حیثیت اور ممکنہ فرائض کی انجام دہی کے لیے مختص کی گئی تھی، جو ایک شاہی حق سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس موقع پر شہزادی امالیا نے جو قدم اٹھایا، اس نے صرف ہالینڈ ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ایک اعلیٰ اخلاقی مثال قائم کر دی۔ شہزادی نے وزارتِ اعظمٰی اور متعلقہ حکام کو خط لکھا جس میں انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا! "جب تک میں کوئی باقاعدہ شاہی یا ریاستی خدمات انجام نہیں دیتی، میں یہ خطیر رقم لینے کو اپنے ضمیر کے خلاف سمجھتی ہوں۔ میں ابھی ایک عام طالبہ ہوں، اور میرے جیسے کئی نوجوان محدود وسائل میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ الاونس قبول کرنا میرے لیے باعثِ شرمندگی ہوگا۔" شہزادی کا یہ بیان، ایک بادشاہ کی بیٹی کا کردار نہیں بلکہ ایک حساس دل رکھنے والی باشعور طالبہ کا ضمیر بول رہا تھا۔ یہ ایک انوکھا اور منفرد قدم تھا ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے بااختیار افراد اختیارات کے ساتھ منسلک مالی مراعات کو اپنا حقِ اولین سمجھتے ہیں، شہزادی امالیا کا یہ انکار ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اصل عظمت تو ذمہ داری، شعور اور قربانی میں ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں بھی کوئی نوجوان، کوئی بااختیار فرد یا کوئی نمائندہ ایسا کردار دکھانے کا حوصلہ رکھتا ہے؟ یہاں تو عہدے سے پہلے بھی مراعات مانگی جاتی ہیں، اور خدمات کے بغیر بھی تنخواہیں اور سہولیات وصول کی جاتی ہیں۔ نوجوان نسل کے لیے اس میں ایک پیغام پوشیدہ ہے، شہزادی امالیا کا یہ کردار ایک خاموش پیغام ہے کہ عزت رتبے سے نہیں بلکہ عمل اور احساس سے حاصل ہوتی ہے۔ دولت کا وزن کردار کے بغیر کھوکھلا ہوتا ہے۔ قیادت وہی ہے جو خود کو عوام کے برابر سمجھے، نہ کہ ان سے برتر۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ نوجوان قیادت کے لیے ایک معیار ہے۔ شہزادی امالیا نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر آپ کے پاس اختیار ہو تو اسے فرض اور خدمت کی بنیاد پر قبول کریں، نہ کہ صرف مراعات کے لالچ میں۔ ہمارے ہاں اکثر اختیارات کی دوڑ ہوتی ہے، لیکن کردار کی پرورش کہیں کھو چکی ہے۔ اگر حکومتی اداروں میں، سیاست میں، تعلیمی میدان میں اور میڈیا میں ایسے کردار جنم لیں جو امالیا کی طرح سوچیں، تو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اصل عظمت سوچ، احساس اور کردار میں ہے، تخت و تاج میں نہیں، جو اس کے برعکس سوچتا ہے وہ غلطیوں کی انتہا پر ہے۔
|
|