اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانیت کے بنیادی حقوق، عدل،
مساوات اور وقار پر مبنی ہے۔ اس کی سب سے روشن مثال عورت کو دیا گیا مقام
ہے۔ اسلام سے قبل عورت معاشرتی طور پر کمتر، وراثت سے محروم اور ظلم کا
شکار تھی۔ عرب جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا فخر کی علامت سمجھا جاتا
تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے اس ظلم کا خاتمہ کیا اور عورت کو ایک باعزت،
خودمختار اور محترم مقام عطا کیا۔
وَإِذَا ٱلْمَوْءُۥدَةُ سُئِلَتْ
بِأَىِّ ذَنۢبٍۢ قُتِلَتْ(التکویر، 81: 8-9)
ترجمہ:
“اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، وہ کس جرم میں ماری گئی؟”
انسانی اقدار کے بارے میں اسلام کا یہ موقف نہایت قابل توجہ ہے کہ قیامت کے
اہم ترین واقعات میں زمانہ جاہلیت میں زندہ درگور ہونے والی بچیوں کے بارے
میں باز پرسی کو جگہ دی گئی ہے چونکہ ایک انسان کو صرف اس بنیاد پر زندہ
دفن کیا جائے کہ وہ لڑکی ہے، انسانیت کی تذلیل ہے۔ وہ کس گناہ میں ماری
گئی؟ کی تعبیر میں انتہائی غضب الٰہی کا اظہار ہے کہ سوال خود بے گناہ بچی
سے کیا جائے گا کہ تو کس جرم میں ماری گئی؟ مجرم باپ سے نہیں پوچھا جائے گا
مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔
پھر وہ محرکات جن کی بنیاد پر ان بے گناہ بچیوں کو زندہ درگور کیا گیا ہے
سب غیر انسانی ہیں
i۔ ان بچیوں کا پالنا بوجھ سمجھا جاتا تھاچونکہ یہ لڑکوں کی طرح کما نہیں
سکتیں۔
ii۔ بیٹیاں لڑائیوں میں کام نہیں آتیں تھیں۔الٹا ان کی حفاظت کرنا پڑتی۔
iii۔ مختلف قبائلی حملوں میں لڑکیوں کو لونڈیاں بنایا جاتا یا فروخت کر دیا
جاتا تھا۔
اسلام نے بیٹیوں کو نہ صرف انسانی قدروں میں بیٹوں کے مساوی قرار دیا بلکہ
بیٹیوں کو بہتر اولاد قرار دیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
تمہاری اولاد میں بیٹیاں بہتر اولاد ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:
مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثَ اَخَوَاتٍ وَجَبَتْ لَہُ
الْجَنَّۃُ فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللہِ وَ اثْنَتَیْنِ فَقَالَ وَ
اثْنَتَیْنِ فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللہِ وَ وَاحِدَۃً فَقَالَ وَ وَاحِدَۃً۔
(الکافی ۶: ۶ باب فضل البنات)
“جس شخص نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کی اس کے لیے جنت واجب ہے۔
عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! اگر دو ہوں فرمایا اگرچہ دو ہوں عرض کیا گیا یا
رسول اللہ! اگر ایک ہو فرمایا اگرچہ ایک ہو”۔
اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے عظیم مرتبے عطا کیے۔
ماں کے قدموں تلے جنت قرار دی، بیوی کو شوہر کا سکون کہا، بیٹی کو رحمت،
اور بہن کو عزت و احترام
اسلامی تعلیمات کے مطابق، ماں کی خدمت اور اطاعت انسان کی سب سے بڑی نیکیوں
میں سے ہے۔
’’الجنت تحت أقدام الأمهات‘‘
ترجمہ: “جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔”
یہ حدیث صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک عملی تعلیم ہے کہ ماں کی خدمت کو
عبادت کا درجہ حاصل ہے۔
اسلام نے بیٹی کو بوجھ نہیں، بلکہ رحمت کہا۔
’’من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين‘‘
(صحیح مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن
وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو
ملایا۔ یا
“جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، قیامت کے دن وہ
میرے ساتھ ایسے ہوگا (جیسے دو انگلیاں)۔”
یہ تصور آج کی دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی پوری طرح موجود نہیں کہ
بیٹی کو باعثِ فخر سمجھا جائے۔
اسلام میں عورت کو علم حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔
’’طلب العلم فريضة على كل مسلم ومسلمة‘‘
ترجمہ: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔”
یہ تعلیم اس بات کا اعلان ہے کہ عورت کسی بھی طور تعلیمی میدان میں مرد سے
کم تر نہیں۔
اسلام نے عورت کو پہلی بار وراثت میں حصہ دیا۔
’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‘‘
(النساء، 4:11)
اس آیت کا اکثر غلط مفہوم پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں مرد کو کفالت
کی ذمہ داری دی گئی ہے، اس لیے عورت کا وراثتی حصہ اس کی مکمل ملکیت ہوتا
ہے، جبکہ مرد کا مال خرچ کے تقاضوں سے مشروط ہے۔
قرآن کہتا ہے:
’’وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً‘‘
(الروم، 30:21)
ترجمہ: “اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے
جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت اور
رحمت پیدا کی۔”
اسلام نے شوہر کو عورت پر ظلم کا اختیار نہیں دیا بلکہ اُس پر محبت، حسنِ
سلوک اور برابری کی تاکید کی۔
افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے عورت پھر سے
معاشرتی ظلم کا شکار ہے۔ کہیں اسے تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، کہیں وراثت
سے، اور کہیں زبردستی شادی یا غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ سب اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف و رزی ہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا، وہ دنیا
کے کسی اور نظام نے نہیں دیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے دین کو ثقافتی رسم و
رواج کے تابع کر دیا۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں
تو نہ صرف عورت کو اس کا حقیقی مقام ملے گا بلکہ ایک متوازن، مہذب، اور
پرامن معاشرہ جنم لے گا۔
|