چوتھا اصول یہ ہے کہ حق کا کام
جھکنا نہیں بلکہ جھکا دینا ہے یعنی حق کبھی جھکتا نہیں اور مغلوب نہیں ہوتا
بلکہ غالب ہی رہتا ہے جبکہ باطل کو ہمیشہ شکست فاش ہوتی ہے اور اسے ذلت کے
ساتھ جھکنا پڑتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کائنات کا حقیقی شہنشاہ اور مطلق
العنان حکمران ہے اسے آنکھوں سے دیکھا تو نہیں جا سکتا مگر مخلوقات کے وجود
اور مظاہر فطرت میں وہی جلوہ افروز ہے اور کائنات میں جا بجا پھیلی آفاقی و
انفسی نشانیوں میں اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے اور تمام مخلوقات چاہے وہ جمادات
ہوں ، حیوانات ہوں یا نباتات سب کے سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح بیان
کرتے ہیں اور اس کے اقتدارکامل اور جلال و جبروت کے آگے جھکے ہوئے حالت
سجدہ میں ہیں چنانچہ فرمایا :۔
ٰ1۔ آسمان اور زمین میں جو ہے سب اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور وہ زبردست
حکمت والا ، آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور
موت بھی اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ ( الحدید پ ۲۷)
2۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور
جو کوئی زمین میں ہے اور سورج چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور
بہت سے آدمی اور بہت ہیں جن پر ٹھہر چکا عذاب، اور جس کو اللہ ذلیل کرے اسے
کوئی عزت دینے والا نہیں (الحج پ ۱۷)
3۔ اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں خوشی سے اور
زور سے اور انکی پرچھائیاں صبح و شام (سجدہ کرتی ہیں )الرعد پ ۱۳)
4۔ اللہ کی تسبیح بیان کر تا ہے جو کچھ ہے کہ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ کہ
ہے زمین میں بادشاہ پاک ذات زبردست حکمتوں والا ‘‘ ۔ ا(لجمعہ پ ۲۸)
5۔ اللہ کی پاکی (تسبیح) بولتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے
زمین میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا (الصّف ۲۸)
6۔ گرج (آسمانی بجلی) اللہ کی تسبیح و تعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے
خوف سے وہی آسمان سے بجلی گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے۔ (الرعد
پ ۱۳)
آنحضرت ﷺنے جب مکہ مکرمہ میں دین کی دعوت کا آغاز کیا تو مکہ کے کفا ر و
مشرکین نے ابتدائی طور پر یہ سمجھاکہ یہ شخص جو ہمارے آباء و اجداد کے مذہب
پر تنقید کرتا ہے اور ایک نئے دین کی دعوت دے رہا ہے تو شاید اسکے پیچھے
اسکے کوئی ذاتی مقاصد ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے ایک وفد نے آپکے دادا
عبدالمطلب کے پاس آکر کہا کہ اگر آپکے بھتیجے کا اس نئے دین کی اشاعت سے
مقصددولت حاصل کرناہے تو ہم انھیں دینے کیلئے تیار ہیں اور اگر یہ چاہتے
ہیں کہ کسی اچھے خاندان کی لڑکی سے انکی شادی ہو جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے
اور اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں اپنا سردار مان لیں تو ہم یہ بھی کر سکتے
ہیں مگر یہ ہمارے خداؤں (بتوں) کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔آنحضرت ﷺ نے انکی
باتوں کا جو جواب دیا وہ قابل غورہے آپ نے فرمایاچچا جان! اگر یہ لوگ میرے
ایک ہاتھ پر سورج اور ایک ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میں دین کی دعوت
دینے سے باز نہیں آؤں گا چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اور پھر
لوگوں نے دیکھا کہ اسلام خطہ عرب میں پھیلنا شروع ہوا جو شخص ایک مرتبہ
اسلام قبول کر لیتا تو ایمان اسکے دل میں ایسا راسخ ہو جاتاکہ وہ شہید ہونا
تو قبول کر لیتا مگر اسلام سے پھرتا نہیں تھا-
اور پھر کفار مکہ سے جنگوں کا آغاز ہوا غزوۂ بدر ، احد اور غزوۂ خندق میں
مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں کو شکست فاش ہوئی اور انھیں ذلت و خواری کے ساتھ
اسلام کی عظمت و شوکت کے آگے جھکنا پڑا اورجب مکہ فتح ہو گیا تو کفار و
مشرکین کو یہ یقین ہو گیا کہ اب اسلام کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی طاقت روک
نہیں سکتی۔اور پھر غیر ممالک سے جنگوں کا آغاز ہوا حتیٰ کہ اس وقت کی دو
سپر پاور زقیصر و کسرٰی کو اسلام کے مقابلے میں شکست فاش ہوئی اورانھیں حقا
نیت اسلام کے آگے سر نگوں ہوناپڑا۔اور آج اسلام دنیا کا سب سے بڑا دین ہے
اور روز بروز اسکے پیرو کاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور باطل قوتیں
مسلسل پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ ’’ کائنات میں سب حق ہی حق ہے۔ باطل تو تیرے اندرہے‘
ارشاد باری تعالی ٰ ہے . اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا
وہ اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں.( النحل:۴)مقصد یہ ہے نفس امارہ اور
شیطان انسان کے اندر تصرف کرتے ہیں اور اسے برائی کا حکم دیتے ہیں جیسا کہ
قرآن پاک میں آتا ہے میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بیشک نفس تو
برائی پر بڑا ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے
یقیناًمیرا پروردگاربڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی کرنے والاہے (یوسف
:۵۳)ا ور حدیث شریف میں ہے شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے۔یہ
انسان کے اندر کا باطل ہے اور حق کی روشنی کا محور انسان کا دل ہے لہذا
انسان کے اندر حق و باطل کی جنگ جاری رہتی ہے نفس امارہ اور شیطان انسان کو
برایٌ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ وحی الہیٰ کا نور (اسلامی تعلیمات)انسان کو
نیکی کی طرف بلاتا ہے اب انسان کس کا حکم مانتا ہے؟ یہ اس کے اپنے اختیار
میں ہے کیوں کہ انسان کو نیکی اور بدی کے دونوں راستے دکھا دیے گیےٌ ہیں
فرمان الہیٰ ہے قسم ہے نفس کی اور درست بنانے کی پھر سمجھ دی اسکو بدکاری
اور بچ کر چلنے کی جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں
ملا چھوڑا وہ ناکام ہوا (الشمس:۱۰) شریعت کے مکلف چونکہ انسان اور جنات ہیں
لہذا یہ دونوں حق و باطل کی جنگ کا محور ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ )
’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت
کریں نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں،
اللہ تعالیٰ توخود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے ‘‘ (
الذاریات ۵۸)
قرآن پاک میں اس قسم کی آیات جن میں جنات اورا نسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے
اور عبادت کا حکم ہے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی تخلیق ان دونوں
کیلئے کی گئی ہے اور انکی طبیعت اس قسم کی بنائی گئی ہے کہ ان میں نیکی و
بدی دونوں کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ابلیس کی مثال سامنے ہے کہ اس
نے تخلیق آدم سے قبل زمین کے چپے چپے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے مگر
برائی کی صفت نے عود کیا تواللہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور راندہ
درگاہ کر دیا گیا اور ملعون قرار دیا گیا ۔ اسی طرح انسان اگر عبادت و
ریاضت کرے تو وہ فرشتوں کے مقام کو پاسکتا ہے اور اگر طبیعت کو آزاد چھوڑ
دے تو رفتہ رفتہ برایٌ اور نافرمانی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر شیطان کے
ھم پلہ ہو جاتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ باطل کا محور ثقلان(انسان اور جنات)
ہیں اور خاص طور پر انسان ! کیونکہ یہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہے اور حق اور
باطل کی جنگ کا محور ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ہم نے آسمان و زمین کو اورجو
کچھ انکے درمیان ہے کھیلتے ہوئے نہیں بنایا اگر ہم یونہی کھیل تماشے کا
ارادہ کرتے تواسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہوتے بلکہ ہم
سچ کو جھوٹ پرپھینک مارتے ہیں پس وہ اسکا بھیجہ نکال دیتا ہے اور وہ اسی
وقت نابود ہو جاتا ہے پس جو تم باتیں بناتے ہو وہ تمھارے لئے خرابی کا باعث
ہیں‘‘(الا نبیآء:۱۸)
تفسیر میں لکھا ہے کہ’’عقلمند کو چاہیئے کہ آفرینش عالم کی غرض کو سمجھے
اور دنیا کو محض کھیل تماشہ سمجھ کر انجام سے غافل نہ ہو بلکہ خوب سمجھ لے
کہ دنیا آخرت کیلئے پیدا کی گئی ہے ہر نیک بد کی جزا ملنا اور ذرہ ذرہ کا
حساب ہونا ہے۔ اور ایسے لھو لعب کے کام (یعنی زمین و آ سمان کو بغیر کسی
مقصد کے پیدا کرنا) با الفرض ہماری شان کے لائق ہوتے اور ہم ارادہ بھی کرتے
کہ یونہی کوئی مشغلہ اور کھیل تماشہ بنا کر کھڑا کر دیں تو یہ چیز ہم بذات
خود اپنی قدرت سے کر گزرتے تمھا ری داروگیر اور پکڑ دھکڑ سے اسکو کوئی
سروکار نہ ہوتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ کہ دنیا محض کھیل تماشہ نییں بلکہ
میدان کارزار ہے جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے حق حملہ آور ہو کر باطل کا
سر کچل ڈالتا ہے اسی سے تم اپنی سفیھانہ اور مشرکانہ باتوں کو سمجھ لو۔یعنی
حق و باطل کی جنگ شروع سے جاری ہے پھر جو لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے
ہیں اور حق کی روشنی میں چلتے ہیں وہ عبادالرحمن یعنی رحمن کے بندے کہلاتے
ہیں اور جو لوگ نفس و شیطان کے پیرو کار بن جاتے ہیں وہ شیطان کے بندے
کہلاتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور اسی طرح کر دیا ہم نے ہر نبیؑ کیلئے
دشمن شریر آدمیوں کو اور جنوں کوجو کہ سکھلاتے ہیں ایک دوسرے کو ملمع کی
ہوئی باتیں فریب دینے کیلئے اور تیرا رب چاہتا تو وہ لوگ یہ کام نہ کرتے سو
تو چھوڑ دے وہ جانیں اور انکا جھوٹ‘‘(الانعام:۱۱۲)
تفسیر میں لکھا ہے ’’ چونکہ خدا کی حکمت بالغہ اس بات کو مقتضی ہے کہ نظام
عالم کو جب تک قائم رکھنا منظور ہے خیر و شر کی قوتوں میں سے کوئی قوت بھی
بالکل مجبور اور نیست وہ نابود نہ ہو، اسی لئے نیکی بدی ہدایت و ضلالت کی
جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔جس طرح آج یہ مشرکین معاندین آپﷺ کو بیہودہ
فرمائشوں سے دق کرتے ہیں اور مختلف حیلوں سے لوگوں کو جادۂ حق سے ڈگمگانا
چاہتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے مقابل شیطانی قوتیں کام کرتی رہی ہیں کہ
پیغمبروں کو انکے پاک مقصد(ہدایت خلق اللہ) میں کامیاب نہ ہونے دیں ۔اسی
غرض فاسد کیلئے شیاطین ا لا نس اور شیاطین ا لالجن باہم تعاون کرتے ہیں اور
ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھا تے ہیں۔
(تفسیر القرآن از علا مہ شبیر احمد عثمانیؒ )
دنیا کے تمام لوگ انہی دو قسموں ( شیاطین الا نس و شیاطین الجن )سے تعلق
رکھتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنکا کوئی دین وہ مذہب نہیں
ہوتاوہ دھریے کہلاتے ہیں اور جو لوگ اللہ اور اسکے رسولﷺ کے حکموں کو توڑتے
ہیں اور انکے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوتے ہیں انکے خلاف جہاد کا حکم ہے۔ارشاد
باری تعالیٰ ہے ’’جہاد کرو اللہ کے راستے میں جیسا کہ جہاد کرنے کا حق
ہے‘‘(القرآن) اور جہاد مال،جان اور قلم سے ہے۔
لہذا انسان کو باطل کے ساتھ جنگ (جہاد اکبر)کرنے کا حکم ہے پھر جو لوگ اس
جنگ میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اللہ کے بندے بن جاتے ہیں اور کامیاب و
کامران ہو جاتے ہیں۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ حق پر چلنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی اگر حق پر نہ چلا
جائے تو حق انتقام لیتاہے۔اس میں دو چیزیں ہیں پہلی یہ کہ حق تعالیٰ کی
معرفت حاصل کرنا، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا تعالیٰ موجود ہے وہی کائنات
کا خالق مالک معبود حقیقی اور شہنشاہ مطلق ہے، اسی نے تمام مخلوقات کو پیدا
کیا ہے، وہی سب کا پالنہار اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور لوٹ کر اسی کے
پاس جانا ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا کوئی مشکل کام
نہیں بس تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جو لوگ ہمارے لئے
جدوجہد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستے دکھادیتے ہیں‘‘ (الروم:۶۹) اس لئے کہ
دنیا میں آنے والا ہر شخص ’’یوم الست‘‘ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کو پہچان کر
اوراسکی ربوبیت کی گواہی د ے کر آیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے (ترجمہ)
’’ اور جب آپ کے رب نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے انکی اولاد کو نکالا
اور ان سے انہیں کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ سب نے
جواب دیا کیوں نہیں (آپ ہی ہمارے رب ہیں) ہم سب گواہ ہوئے تا کہ تم لوگ
قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔‘‘(الا عراف۱۷۲)
ان آیات کریمہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی شخص روز قیامت یہ عذر پیش
نہیں کرسکتا کہ میرے آبآ ء واجداد کافر ومشرک تھے یا کسی اورمذہب و ملت سے
تعلق رکھنے والے تھے اس لئے میں دین اسلام قبول نہیں کر سکا لہٰذا فرمایا
گیا کہ اب خوب غور کر کے دیکھ لو کہ میں ہی تمھارا معبود حقیقی ہوں اور
میرے ہی پاس تمہیں لوٹ کر آنا ہے، دنیا میں جانے کے بعد اگر عبادت کا کو ئی
اور اختیار کرو گے تو پھر دوبارہ جب میرے پاس آؤ گے تو کوئی عذر قابل قبول
نہ ہو گا فرمان الٰہی ہے(ترجمہ)’’جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے
تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص روز آخرت خسارہ پانے
والوں میں ہوگا‘‘ (القرآن)۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا
ہوتا ہے پھر اسکے والدین اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی بنا لیتے ہیں (متفق
علیہ)
ان آیات کریمہ اور حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کے دل میں ایمان کی
چنگاری موجود ہے جو بھڑک کر اگر شعلہ نہ بن سکی تو اس میں انسان کا اپنا
قصور ہے علاوہ ازیں کائنات میں جا بجاپھیلی آفاقی نشانیاں اور خود اسکی ذات
میں موجود انفسی نشانیاں زبان حال سے پکار پکار کر اپنے خالق حقیقی کے وجود
کی گواہی دے رہی ہیں جن میں ادنیٰ تفکر و تدبر کے ساتھ انسان معرفت الٰہی
حاصل کر سکتا ہے۔
اور دوسری چیز یہ ہے کہ جب معرفت الٰہی حاصل ہو جائے تو پھر اللہ تبارک و
تعالیٰ کے جمیع احکامات کو آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق پورا کرنا ضروری
ہے۔اور اگر ایسا نہ ہو اور اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات سے بغاوت کی
جائے اور انکا مذاق اڑایا جائے تو پھر حق تعالیٰ کے انتقام سے ڈرنا
چاہیے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ اللہ تبارک و تعا لی ٰ کی آیات سے کفر
کرتے ہیں انکے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب ہے ، انتقا م لینے والا ہے ‘‘
(آل عمران ) اور فرمایا’’ اور جس کو گمراہ کرے اللہ تو کوئی نہیں ہے اسکو
ہدایت دینے والا اور جس کو ہدایت دے اللہ تو کوئی نہیں ہے اسکو گمراہ کرنے
والا کیا اللہ نہیں ہے زبردست، انتقام لینے والا‘‘ (الزمر:۳۷) سوال یہ ہے
کہ حق تعالیٰ کے انتقام کی کیا صورت ہے؟ تو اس بارہ میں قرآن پاک میں مذکور
ہے ۔۔فرمان الٰہی ہے’’ اور جو میری یاد سے رو گردانی کرے گا اسکی زندگی
تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھایءں گے وہ کہے گا
الٰہی ! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا
بھالتا تھا (جواب ملے گا) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں
کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو
دیا کرتے ہیں جو حد سے گذر جائے اور اپنے رب کی باتوں پر ایمان نہ لائے
بیشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے‘‘(طہٰ:۱۲۷) اور
فرمایا ’’ گناہگار صرف حلیہ سے ہی پہچان لئے جائیں گے ان کی پیشانیوں کے
بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے،
یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے اسکے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے
درمیان چکر لگائیں گے‘‘ (الرحمٰن:۴۴) اور فرمایا ’’ جسے اس (کے اعمال کی)
کتاب اسکے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی تو وہ کہے گا کہ کاش مجھے میری کتاب
دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہ کہ میرا حساب کیا ہے کاش! کہ موت (میرا
) کام تمام کر دیتی میرے مال نے بھی کچھ نفع نہ دیا میرا غلبہ بھی مجھ سے
جاتا رہا (حکم ہو گا) پکڑ لو اسکو پھر اسے طوق پہنا دو اور پھر اسے دوزخ
میں ڈال دو پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو
بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ لا تا تھا اور مسکین کے کھلانے پر رغبت
نہ دلاتا تھا آج اسکا نہ کوئی دوست ہے اور نہ سوائے پیپ کے اسکی غذا جسے
گناہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا‘‘ (الحاقہ:۳۷) بہر حال مندرجہ بالا
سطور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان حق و باطل کو پہچان کر اپنے لئے ایک
واضح راستہ(دین اسلام) کا انتخاب کرے اور آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی
میں زندگی بسر کرے تاکہ اسے دونوں جہانوں کی کامیابی نصیب ہو اور آخرت میں
سکون و اطمینان اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی لا زوال نعمتوں سے مالا مال ہو
سکے ۔ وما توفیقی الا بااللہ علیہ توکلت والیہ انیب o |