شمسی سالِ نو 2013ءکی آمد کے
ساتھ ہی اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا کارواں اپنی منزلِ مقصود کی جانب
رواں دواں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تغیر فطری عمل ہے اور روز و شب کا سلسلہ
یونہی چلتا رہتا ہے اور انسان کی زندگی بھی اسی نشیب و فراز سے ہمکنار ہوتی
رہتی ہے۔ ہر نئے صبح کے ساتھ ہی سورج کی نئی کرن منظرِ عام پر آتی ہے اور
اس نئی کرن میں انسان ایک نئی امید لے کر نیند سے بیدار ہوتا ہے فرق صرف
اتنا ہے کہ یہ کرن سب کے لئے یکساں نہیں ہوتی۔ لیکن انسان جو اس سر زمین پر
اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے وہ بھی فطرت کے ان تقاضوں کو خوب سمجھتا
ہے اور جو کچھ حاصل کرتا ہے اسے وہ اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔
لیکن اس سر زمین پر کامیاب و کامران وہی انسان ہوتا ہے جو اپنے کردار و
اعمال سے منزل حاصل کرنے کا مصمم اور مستحکم ارادہ رکھتا ہے اور یقینِ محکم
کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔قرآنِ مجید نے صاف طور پر کہہ
دیا ہے کہ (مفہوم) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو
خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔اس لئے ہم سب کو چاہیئے کہ تاریخ کے اوراق
کو اُلٹ پَلٹ کر دیکھا جائے۔ اس کے بعد ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی
کہ دنیا میں آج جو قوم کوئی بھی میدان میں کامیاب ہے تو وہ اپنے عمل و
کردار کی وجہ سے ہی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی تاریخ کا سوال ہے تو ہماری
تاریخ تو پوری انسانیت کے لئے مشعلِ راہ رہی ہے۔ جب ہم تین سو تیرہ کی
تعداد میں تھے تب بھی کامرانی و شادمانی ہمارے سر رہی ۔ لیکن آخر کیا وجہ
ہے کہ آج ہم کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنی منزل سے کوسوں دور ہیں۔
اس کا صاف مطلب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم سب میں ایمان کی کمزوری آ گئی ہے۔ آج
پھر ہم سب کو بالخصوص پاکستانیوں کو اپنے اندر روحِ بلالی پیدا کرنے کی
ضرورت آن پڑی ہے۔
آئندہ ملکی انتخابات سَر پر ہے اور تمام سیاسی جماعتوں میں ہلچل سی ہے اور
تمام ہی سیاسی جماعتیں اس فکر میں شب و روز منہمک ہیں کہ اایا الیکشن کس
ایشو پر لڑا جائے کیونکہ اب تو ان سب کے وعدوں کا بھی عوام کو اعتبار نہیں
رہا ہے۔ چند گِنے چُنے چہرے ہی ہیں جو اپنی اپنی باری لینے کے لئے پَر
تولتے رہتے ہیں مگر نہ جانے کیوں ہماری عوام کی آنکھیں کیوں نہیں کھلتیں۔
کب جاگے گی یہ سوئی ہوئی قوم! کب سدھرے کا اس ملک کا حال، خیر یہ تو ہمارے
ملک اور ہمارے عوام کا روزآنہ کا ہی رونا ہے۔ ہم بات کر رہے تھے سیاسی
جماعتوں کا! جہاں قومی پارٹیاں اپنی اپنی فکر کر رہی ہیں وہیں صوبائی سطح
کی مضبوط پارٹیاں بھی اپنے منشور کے لئے سرگرم نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ کئی
صوبوں میں ایسی پارٹیاں ضرور ہیں کہ صوبائی سطح پر ان کی کارکردگی بہتر اور
عوام مفاد میں رہی ہیں۔ اور یہی پارٹیاں مرکزی حکومت کی تشکیل میں نمایاں
کردار ادا کرتی ہیں۔ پھر بھی عوام کو چاہیئے کہ انہیں پانچ سالوں میں ایک
بار موقع ملتا ہے کہ جمہوری طور پر اپنا لیڈر منتخب کریں اس کے بعد دوبارہ
پانچ سال کا انتظار ! لیکن جو پانچ سال کے لئے اقتدار میں آجاتے ہیں انہیں
یہ توفیق نہیں ہوتی کہ عوامی خدمات سر انجام دیں، وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں
کہ انہیں دوبارہ بھی عوام کے پاس ہی جانا ہے۔ بھول وہ اس لئے جاتے ہیں کہ
ہمارے ملک کا دستور ہی کچھ ایسا ہے۔ جو بھی حکومت کرتا ہے اور وقت پورا
ہوتے ہی اپنا اپنا بوریا بستر لپیٹ کر بیرونِ ملک پرواز کو ہی ترجیح دیتا
ہے۔ہمارے ملک کے اکثر لیڈران کا بھی یہی شوق رہا ہے کہ پانچ سال حکومت کرو
اور پھر بوریا بستر لپیٹ کر عیش کرو۔ پھر جو اقتدار میں آئے گا ان کے رحم و
کرم پر عوام ہوگی۔ اب چاہے وہ مہنگائی کریں، لوٹ مار کریں، کرپشن کریں، ان
باتوں میں کہیں جھوٹ نہیں لکھا کیونکہ اصغر خان کیس کا فیصلہ جو سپریم کورٹ
نے دیا اس فیصلے سے سب کا کچہ چٹھا کھل چکا ہے۔ اور اس سے پہلے بھی سرکاری
خزانہ پر شب خون مارا جاتا رہا ہے اور آج تک یہی دستور چل رہا ہے۔ کوئی
تبدیلی کی نہ بات کرتا ہے اور نہ کوئی تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر کسی طرف سے
انقلاب یا تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے کیونکہ اگر تبدیلی
اس ملک کا مقدر بن گئی تو ان حواریوں کا کیا بنے گا جو ملکی دولت پر ناگ کی
طرح پھن پھیلائے بیٹھ جاتے ہیں۔
اس وقت سیاسی پارٹیاں بے حد تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں کہ کس طرح عوام کو
سنہرے خواب دکھا کر پھر سے ان کے ووٹ کے ذریعے ایوانِ بالا تک دسترس حاصل
کی جائے۔ مگر بقول شیخ رشید احمد صاحب کے اور کچھ میڈیا کے لوگوں کی رائے
میں اس بار بھی کسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ اور پارلیمنٹ
میں کوئی ایک پارٹی بھی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ ایسے
میں چھوٹی پارٹیاں ہی ان کے لئے تَر نوالہ ثابت ہونگی۔ بڑی جماعتیں چھوٹی
پارٹیوں کو ملا کر اقتدار حاصل کر لیتی ہیں اور بعد میں لوٹوں کی مدد سے یا
لوٹے بنا کر انہیں بھی آزاد کر دیتی ہیں اور ان کے خلاف بھی کاروائی عمل
میں لائی جاتی ہے۔ یہاں بھی یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس صورت میں بھی بڑی
پارٹیوں کا بال بیکا نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو اس غریب، لاچار، بے بس عوام پر
حکمرانی کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔آج ہماری عوام جس کسمپرسی ، غریبی،
مہنگائی، لوٹ مار، کرپشن ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ کے مسائل سے دو چار ہے کیا
اس کا حل کسی کے پاس ہے۔ کوئی بھی اس سلسلے میں بات نہیں کرتا۔ سب کو فکر
ہے تو صرف اتنا کہ کس طرح اقتدار حاصل کیا جائے۔
متذکرہ بالا پس منظر میں یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں، اور
جمہوریت میں اسی قوم پر توجہ دی جاتی ہے جس کی بدولت حکومت بنتی یا بگڑتی
ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس مسئلے پر غور کیا؟ اگر سنجیدگی سے غور کیا ہوتا تو
ہمیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ محض سیاسی شطرنج کی طرح عوام
کو استعمال کرکے ایک طرف ڈھکیل دینا جمہوریت نہیں بلکہ شطرنج کی ایک چال کے
برابر ہے۔ سیاست کی بساط پر آزادی کے کچھ عرصے بعد سے ہی اس طرح کی چالیں
چلی جاتی رہی ہیں اور عوام ان چالوں سے ناواقف بھی نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی
وجہ ہماری ناخواندگی ہو سکتی ہے۔ یہ بات جس دن سمجھ میں آجائے گی اسی دن سے
ہمارے حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
کاش! کہ ہمارے ملک کے تمام ہی فرد بشمول سیاست کے مکینوں کے قائد اعظم کے
اقوال پر عمل پیرا ہو جاتے، سر سید کی آواز کو صدا بہ صحرا ثابت کرتے، حکیم
الامت علامہ محمد اقبال کی فکر سے آشنا ہوتے، اور ان کی دور اندیشی کو اپنے
جینے کا طریقہ بناتے تو شاید آج ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے۔ بیسویں صدی
یونہی ہمیں بے بسی، محرومی اور مایوسیاں دے کر رخصت ہوگئی۔ ہم اپنی جفا کشی
کی بدولت روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولتوں کو کچھ حد تک حاصل کرنے
میں کامیاب تو ہوگئے لیکن آج بھی ہمارے قوم کے افراد مہنگائی کی چکی تلے
روندے جا رہے ہیں۔ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ الزامات
در الزامات کی سیاست نے ہمیں پھر سے احساسِ محرومی دے کر زندگی کی راہوں کو
دشوار کر دیا ہے۔ جہاں کہیں بھی عوام نے سر اٹھا یا ان پر سنگ باری شروع کی
گئی۔ نہ سر سلامت رہا، نہ گھر سلامت، جمہوریت کے تمام اصول کاغذی ثابت ہوئے
اور ہم جگہ بہ جگہ ذلیک و خوار ہرتے رہے۔ ایسی صورت میں معاشی اور اقتصادی
طور پر ہمارا پچھڑنا فطری بات ہی ہے۔ اپنی پسماندگی کے ان تمام وجوہات کے
باوجود اگر ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں یہ عہد کر لیں کہ یہ
دہائی ہمارے لئے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی دہائی ہوگی، بیروزگاری دور
کرنے کی دہائی ہوگی، کرپشن، لوٹ مار، دنگا فساد دور کرنے کی دہائی ہوگی،
فرقہ وارانہ ، لسانی فسادات دور کرنے کی دہائی ہوگی ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ
کلنگ ختم کرنے کی دہائی ہوگی تو ممکن ہے کہ جب تیسری دہائی کی شروعات ہوگی
تو ہم اس قابل ضرور ہو جائیں گے کہ ملک کے اعلیٰ درجے کے شہری کی اونچائیوں
کو پانے کے قابل ہو جائیں۔ کیا ہم اپنے تشنگی کو بجھانے کی خاطر ایک قطرے
کے لئے سمندر کو آواز دیتے رہیں گے۔ ائے کاش ! دوسری دہائی کے شروعات میں
ہی ہم قرض مانگنے والے کشکول کو توڑ سکیں۔ اور ہمارے لیڈران اوپر درج کئے
گئے تمام باتوں پر عمل کرکے عوامی تائید کے ساتھ سرخرو ہو سکیں۔ آمین |