ترجمان وفاق المدارس العربیہ
پاکستان
سانحہ لال مسجد پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔2جولائی 2007ءسے
10جولائی تک وفاقی دارالحکومت کے وسط میں آتش وآہن کی جو بارش ہوئی،جس طر ح
مسجد کی بے حرمتی کی گئی ،قرآن کریم کے اوراق جلائے گئے ،بچوں اور بچیوں کو
شہید کیا گیا ،ان پر فاسفورس بم برسائے گئے ۔ان حالات وواقعات کا تذکرہ
کرتے ہوئے بھی انسان لرز اٹھتا ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ساڑھے پانچ برس بیت
جانے کے باوجود بھی اس افسوسناک سانحہ سے متعلق حقائق قوم کے سامنے نہیں
لائے گئے ۔ سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے اپنے دیگر بہت سے مستحسن فیصلوں کی
طرح حالیہ دنوں میںلال مسجد ۔جامعہ حفصہ کمیشن تشکیل دیا اور اس واقعہ کے
اسباب ومحرکات ،حالات وواقعات اور شہداءولاپتہ افراد کی تفصیلات جاننے کی
کوشش کی ۔یہ کہنا تو قبل از وقت ہو گا کہ اس کمیشن کی رپورٹ اورسفارشات
کاحشر کیا ہو گا؟تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس کمیشن میں دئیے گئے
بیانات،کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات تاریخ کا حصہ بن جائیں گی ۔چونکہ وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے سانحہ لال مسجد کے دوران
مذاکرات،مفاہمت ،مصالحت کے حوالے سے کلید ی کردار ادا کیا اور یہ اکابر بہت
سی کہی ان کہی ،سنی ان سنی داستانوں کے امین ہیں اس لیے انہوں نے اس کمیشن
کے رو برو سانحہ لال مسجد کے صرف اس حصے کوجس میں وہ براہِ راست شریک اور
موجود رہے بلاکم وکاست پیش کردیا ۔
سانحہ لال مسجد کے دوران ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا یہ باب اس وقت اس
لیے بھی قوم کے سامنے آنا ضروری ہے کہ عوامی لانگ مارچ اور دھرنے کے
شرکاءسے ہونے والے مذاکرات کے دوران جب پوری قوم کی نظریں ان مذاکرات پر
لگی ہوئی تھیں اور پھر جب چودھری شجاعت حسین نے اپنی مختصر گفتگو میں یہ
کہا کہ” ہم نہیں چاہتے تھے لال مسجد جیسا سانحہ دوبارہ رونما ہو جائے“ تو
اس سانحہ کے دوران ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کی تلخ یادیں تازہ ہوگئیں ۔ایسے
میں لوگو ں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آج جس طرح مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل
کر لیا گیا 2007ءمیں ایسا کیوں نہ ہو سکا ؟اور اپنی ہی قوم کے بچوں اور
بچیوں پر کیوں فاسفورس بم برسا دئیے گئے ؟اسے حسنِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے
کہ وفاق المدارس کے قائدین عین اس موقع پر ان مذاکرات کی ناکامی کی تفصیلات
کمیشن کے روبرو پیش کر رہے ہیں جس سے عوام الناس کو بہت سے سوالات کے
جوابات مل جائیں گے ۔
وفاق المدارس کے قائدین کا لال مسجد کمیشن میں پیش ہونے سے قبل مفتی اعظم
پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی سربراہی میں اجلاس ہواجس میں ملک
کے نامور قانونی ماہرین کی موجودگی میں گھنٹوں بحث مباحثے کے بعد وفاق
المدارس کے قائدین کا جو تحریری بیان تیار کیا گیا راقم الحروف کو اسے
قلمبند کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اسے وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری
مولانا محمد حنیف جالندھری نے وفاق المدارس کے ایک اعلی ٰ سطحی وفد کے
ہمراہ سب اکابر کی نمائندگی کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے زبانی اور تحریری طور
پر پیش کیا وہ ریکارڈ اور قارئین کی معلومات کے لیے پیش خدمت ہے ۔اس بیان
کے ذریعے بہت سے حالات وواقعات کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔
لال مسجد۔جامعہ حفصہؓ کمیشن کے روبروسانحہ لال مسجد کے بارے میں وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کا بیان
”ہم حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ
1.... بتاریخ2جولائی2007ءجب لال مسجد اور جامعہ حفصہ ؓ کے خلاف حکومتی
آپریشن کا آغاز ہوا تو اس وقت ملک بھر کے دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں میں
تشویش واضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔وفاق المدارس کی دینی ،تعلیمی اور ملکی وملی
خدمات کے باعث پوری قوم کی نظریں وفاق المدارس کے قائدین پر لگی ہوئی تھیں
۔اور خود وفاق المدارس کی قیادت بھی اس حوالے سے فکر مند تھی کہ ملک وقوم
کو اس نازک صورتحال سے نجات دلانے کے لیے عملی کوششیں کی جائیں چنانچہ وفاق
المدارس کی قیادت نے خونریزی اور خوفناک تصاد م کو رکوانے کے لیے پیش رفت
کا فیصلہ کیا۔
2.... 8جولائی 2007ءکو حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم(صدر وفاق
المدارس العربیہ پاکستان ومہتمم جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی)،
مفتی محمد رفیع عثمانی رکن مجلس عاملہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، صدر
جامعہ دارلعلوم کراچی کورنگی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر(نائب صدر
وفاق المدارس العربیہ پاکستان ومہتمم جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاو ¿ن
کراچی، محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
ومہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان ،مولانا زاہد الراشدی شیخ الحدیث جامعہ
نصرة العلوم گوجرانوالہ ، مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان ناظم ِ اعلیٰ جامعہ
فاروقیہ کراچی، مولانا امداد اللہ ناظم تعلیمات جامعہ العلوم الاسلامیہ
بنوری ٹاؤن کراچی اوردیگرجید علماءکرام آکراسلام آباد میں جمع ہو ئے ۔
3.... اس موقع پر یہ طے ہوا کہ سب سے پہلے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ
کے سربراہ چودھری شجاعت حسین صاحب سے رابطہ کیا جائے اور ان سے بات کر کے
مزید پیش رفت کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ چودھری صاحب سے فون پر بات
ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ ابھی ایک گھنٹہ کے بعد وزیر اعظم سے ملاقات کے
لےے جا رہے ہیں، اس لےے آپ حضرات ابھی آ سکیں تو آ جائیں۔ ہم اس وقت کھانے
کے لےے میز پر بیٹھ چکے تھے، مگر کھانا وہیں چھوڑ کر فوراً بھاگم بھاگ
چودھری شجاعت حسین صاحب کے ہاں پہنچے تو وہ وفاقی وزراءجناب نصیر خان، جناب
انجینئر امیر مقام اور دیگر رفقاءکے ہمراہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
4.... حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کی زیر قیادت اس وفد
میں حضرت مولانا ڈکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب، مفتی محمد رفیع عثمانی،
مولانا ڈاکٹرعادل خان، مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا زاہد الراشدی
کے علاوہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علمائے کرام میں سے مولانا قاضی
عبدالرشید، مولانا محمد نذیر فاروقی،مولانا ظہور احمد علوی، مولانا محمد
شریف ہزاروی اور دیگر علماے کرام بھی شامل تھے۔ اس وفد کی طرف سے متکلم
مفتی محمد رفیع عثمانی تھے۔
5 .... اس موقع پر مفتی محمد رفیع عثمانی نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے
چودھری شجاعت حسین سے کہا ” طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتا
اس لیے ہم یہ مطالبہ لے کر آئے ہیں کہ آپ فوری طور پرحکومتی آپریشن کو بند
کروائیںاور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کروائیں ،گولیاں چلانا بند کر
دیں ، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود طالبات
،طلبہ اوردیگر افراد کو خوراک اوربنیادی ضروریات فراہم کی جائیں، عبد
الرشید غازی صاحب نے جو شرائط باہر نکلنے کے لیے پیش کی ہیں، انہیں یکسر
مسترد کرنے کے بجائے ان پر دوبارہ غور کر لیا جائے تاکہ کوئی قابل عمل
درمیانی راستہ نکالا جا سکے اور ممکنہ خونریزی کو روکا جا سکے۔
6.... اس موقع پر مولانا محمد حنیف جالندھری نے اس بات کا حوالہ دیا کہ
ایسے مواقع پر انسانی جانوں کو بچانے کے لیے عبدالرشید غازی صاحب کی شرائط
سے زیادہ سخت شرائط دنیا میں تسلیم کی جاتی رہی ہیں بلکہ خود پاکستان
میںسابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم کے دور میں کابل ایئرپورٹ پر کھڑے پی
آئی اے کے اغوا شدہ طیارے میں موجود ایک سو پچیس مسافروں کی جانیں بچانے کے
لیے پاکستان کی مختلف جیلوں سے تین سو کے لگ بھگ افراد کو رہا کر دیا گیا
تھا، اس لیے اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ میں موجود افراد بالخصوص بچوں
اور عورتوں کی جانیں بچانے کے لیے عبدالرشید غازی صاحب کے مطالبات
پرسنجیدگی سے غور کر لیاجائے تو خونریزی کو روکا جا سکتا ہے۔
7.... ہم نے اپنا موقف اورجذبات چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقا ءتک
اس خیال سے پہنچا دیے کہ وہ صدر اور وزیر اعظم صاحب کو لال مسجد اور جامعہ
حفصہ کے خلاف مسلح آپریشن کے بارے میں دینی حلقوں کے جذبات اور تشویش سے
آگاہ کریں گے۔ چودھری شجاعت حسین صاحب نے وعدہ کیاکہ وہ ہمارا یہ موقف اور
جذبات وزیر اعظم اور صدر مملکت تک پہنچا دیں گے اور ان کی پوری کوشش ہوگی
کہ معاملات کو افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے اور تصادم کے امکانات کو روکنے
کے لیے کوئی قابل عمل راستہ نکالا جائے۔
8.... 8جولائی 2007ءکو نماز ِ مغرب کے بعد مولانا محمد حنیف جالندھری کا
وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق سے را بطہ ہو اتو انہوں نے بتایا کہ وہ
خود ہمارے پاس آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ہماری قیام گاہ پر آگئے اور
ان کے ساتھ کم وبیش ایک گھنٹہ تک انہی امور پر گفتگو ہوئی۔
9.... انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم کے ساتھ آپ حضرات کی ملاقات کا پروگرام طے
کیا جا رہا ہے۔
10.... اعجاز الحق صاحب کی اس ملاقات کے بعد ہم نے صدر جنرل پرویز مشرف سے
براہِ راست ملاقات کے لیے وفاق المدارس کی طرف سے ایک مکتوب بذریعہ فیکس
بھجوا یا اور اس بارے میں ایوان صدر کے ایک متعلقہ سینئر آفیسر جنرل شفقات
صاحب کے ساتھ مولانا محمد حنیف جالندھری کی فون پر گفتگو بھی ہو ئی۔
11.... اگلے روز 9جولائی 2007ءکو سہ پہر اڑھائی بجے وزیر اعظم شوکت عزیز
صاحب کے ساتھ وفاق المدارس کے وفد کی ملاقات ہوئی۔ جس میں مولانا سلیم اللہ
خان صاحب، مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرصاحب،
مولانا حکیم محمد مظہرصاحب، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر عادل
خان ،مولانا زاہد الراشدی ، مفتی محمد اور مولانا قاضی عبدالرشید بھی شامل
تھے جبکہ وزیر اعظم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین
صاحب، اعجاز الحق صاحب، محمد علی درانی صاحب، طارق عظیم صاحب اور دیگر
حضرات تھے۔
12.... وزیر اعظم نے علمائے کرام کی اسلام آباد آمد کا خیر مقدم کیا، ان کے
مصالحتی جذبہ کو سراہا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اللہ کرے یہ کوشش
کامیاب ہو اور انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ انہیں وفاق المدارس کے موقف
اور جذبات سے آگاہ کیاگیا جس کی اطلاع انہیں پہلے بھی مل چکی تھی اور جو
نکات چودھری شجاعت حسین صاحب کے ساتھ ملاقات میں زیر بحث آئے تھے، وہ وزیر
اعظم کے سامنے پھر دہرائے گئے جن میں عبدالرشید غازی صاحب کو محفوظ راستہ
دینے کے بارے میں بھی بات ہوئی ۔
13.... اس موقع پر طے پایا کہ آج ہی (بتاریخ 9جولائی 2007ئ) وفاق المدارس
کا وفد بطور ثالث حکومتی ٹیم اور عبدالرشید غازی صاحب کے مابین مفاہمت
ومصالحت کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ حکومتی ٹیم بااختیار ہوگی اورمتعلقہ مسائل
ومعاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرے گی ۔
14.... چودھری شجاعت حسین صدر پاکستان مسلم لیگ کی سربراہی میں حکومتی ٹیم
تشکیل پائی جس میں سینیٹر محمد علی درانی، سینیٹرطارق عظیم،اعجازالحق اور
چودھری وجاہت شامل تھے۔جبکہ مفتی محمد رفیع عثمانی کی سربراہی میں وفاق
المدارس کا وفد تشکیل پایا جس میں مولاناڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر،
مولانامحمد حنیف جالندھری، مولانازاہد الراشدی ، مولانامفتی محمد نعیم
،مولاناڈاکٹر عادل خان، مولانا امداد اللہ اورمفتی عبدالحمید ربانی شامل
تھے۔
15.... وزیراعظم صاحب کی میٹنگ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق وفاق المدارس
کا وفد اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین اسی شام تقریباً پانچ بجے لال
مسجد سے تقریباً دو سو قدم کے فاصلے پر پہنچ گئے ۔ لیکن وہاں موجودسیکیورٹی
فورسز نے دونوں وفود کو وہاں سے آگے لال مسجد کی طرف جانے سے بلاجوازسختی
سے روک دیا حالانکہ ہماری کوشش اور خواہش تھی کہ دونوں وفود لال مسجد کے
اندر جا کر عبدالرشیدغازی صاحب سے براہ راست ملاقات اور مذاکرات کریں ۔
16.... اس موقع پر وفاق المدارس کے وفد نے یہ تجویز بھی دی کہ اگر پورے وفد
کو اجازت نہیں دی جاسکتی تو کم ازکم صرف تین حضرات یعنی مولانا امدادا للہ
ناظم تعلیمات جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی ،مولانا ڈاکٹر عادل
خان ناظم ِاعلیٰ جامعہ فاروقیہ کراچی اور مولانا مفتی عبدالحمید ربانی صدر
مفتی جامعہ اشرف المدارس کراچی کو لال مسجد کے اندر جانے کی اجازت دے دی
جائے ۔لیکن اس تجویز کو بھی وہاں موجود سیکیورٹی فورسز نے سختی سے مسترد کر
دیا ۔
17.... مندرجہ بالاصورتحال کے بعد مجبوراًلال مسجد کے قریب واقع ایک خالی
مکان جو سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں تھا اور اس کا پانی بھی منقطع تھا۔
اس میں دونوں وفود کے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا ۔اسی اثناءمیںعبدالرشید
غازی صاحب کے نمائندے کے طور پر مولانا فضل الرحمن خلیل بھی آگئے اور
(بذریعہ ٹیلی فون) باقاعدہ مذاکرات کاسلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم عبدالرشید غازی
صاحب کی بات سن کر حکومتی ٹیم کو اور حکومتی ٹیم کی بات غازی صاحب کو بتاتے
تھے ۔ان رابطوں اور مذاکرات کے مطابق ایک معاہدہ کی تحریر کا عمل شروع کیا
گیا جس میں وفاق المدارس کی طرف سے زاہد الراشدی اور حکومت کی طرف سے وزیر
مملکت سینیٹر طارق عظیم نے حاضرین کے مشوروں اور اتفاق سے تحریر کا عمل
سرانجام دیا۔ جس کی ایک ایک شق پر دونوں طرف سے طویل غور وخوض اور گفتگو
ہوئی ۔(لال مسجد کمیشن طے شدہ معاہد ہ کی تحریر سابق سینیٹر طارق عظیم سے
طلب کرے کیونکہ وہ تحریر انہی کے پاس ہے اور اس کی کوئی کاپی ہمیں نہیں دی
گئی)
18.... اس معاہدے میں حسب ِ ذیل امور متفقہ طور پر طے کیے گئے
(الف).... عبدا لرشید غازی صاحب کو ان کے اہل خانہ اور ذاتی سامان سمیت ان
کے آبائی گاؤں (روجھان، راجن پور) میں ان کے گھر منتقل کر دیا جائے گا۔
(ب).... جامعہ حفصہ میں مقیم طالبات کو حاجی کیمپ اسلام آباد لے جایا جائے
گا جہاں جا کر انہیں ان کے سرپرستوں کے سپرد کر دیا جائے گا ،جبکہ لال مسجد
میں موجود طلباءاور دیگر لوگوں کو ا سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد لے جایا
جائے گا جہاں ان کے بارے میں فرداً فرداً سکروٹنی کا عمل ہو گا ان میں سے
کسی کو بھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع کے حوالہ سے درج کسی مقدمہ
میں گرفتار نہیں کیا جائے گا، البتہ ان میں سے کوئی فرد لال مسجد کے تنازع
سے پہلے کے کسی کیس میں مطلوب ہوا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی
کی جائے گی ۔
(ج).... عبدالرشید غازی صاحب لال مسجد، جامعہ حفصہ ؓ اور جامعہ فریدیہ
اسلام آباد تینوں اداروں سے دست بردار ہوجائیں گے۔
(د)....جامعہ حفصہؓ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کی نگرانی میں دے دیا
جائے
(ر).... لال مسجد کا انتظام وانصرام حسبِ ضابطہ محکمہ اوقاف اسلام آباد کے
سپرد ہو گا اور لال مسجد کے خطیب کا تقرروفاق المدارس کے مشورہ سے کیا جائے
گا۔
19.... جب یہ متفقہ معاہدہ تحریر کیا جا چکا اور اس معاہدے پر دستخط کا
مرحلہ آیا تو حکومتی ٹیم کے اراکین کمرے سے باہر چلے گئے اوکچھ دیر کے بعد
آکر کہنے لگے کہ ہمیں یہ معاہدہ لے کر صدر صاحب کے پاس ایوان صدر جانا پڑے
گاجس پر وفاق المدارس کے وفد نے اس بنیاد پر شدید اعتراض کیا کہ وزیر اعظم
کے ساتھ ملاقات کے موقع پر وزیراعظم اور حکومتی ٹیم نے برملا یقین دلایا
تھا کہ وہ مکمل طورپر بااختیار ہے اس لیے مزید کسی اتھارٹی سے اس معاہدے کی
توثیق نہیں کروانی،جس پرچودھری شجاعت حسین نے کہا کہ یہ محض رسمی کارروائی
ہے اور چودھری صاحب نے کہا کہ آپ حضرات انتظار کریں، ہم تھوڑی ہی دیر میں
واپس آرہے ہیں۔اور مزید کہا کہ معاہدے پر عمل آج رات ہی مکمل کر لیا جائے
گا۔اور یہ بھی کہا کہ وہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود لوگوں کو منتقل
کرنے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کریں گے۔
20.... اس موقع پر دونوں وفود نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا اور اطمینان
کا اظہار کیا کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو
مبارکباد دی ۔اور حکومتی وفد ایوان صدر کی طرف روانہ ہو گیا ۔
21.... حکومتی وفد صرف چند منٹ میں واپسی کا وعدہ کر کے گیا تھا لیکن جب
انتظار طویل ہوتا گیا تو ہمارے ذہنوں میں تشویش پیدا ہوئی اور جب رات
اڑھائی بجے کے لگ بھگ چودھری شجاعت حسین صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ واپس آئے
توان کے چہرے بجھے ہوئے تھے ۔ ان کے پاس طے شدہ متفقہ تحریر کے بجائے ایک
اور مختصر تحریر تھی جو انہوں نے وفاق المدارس کے وفد کے حوالے کی۔ بغور
پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس نئی تحریر میں متفقہ معاہدے کے تمام نکات کو
یکسرتبدیل کردیا گیا۔ اور یہ کہا گیا کہ” اس نئی تحریر کے بارے میں ”ہاں
“یا ”ناں “میں جواب دیں نیزہمارے پاس وقت بہت کم ہے ۔ہمیں صرف آدھ گھنٹہ
دیا گیا ہے جس میں سے پندرہ منٹ گزر چکے اور صرف پندرہ منٹ باقی ہیں“ ۔ جب
اس نئی تحریر کے بارے میں عبدالرشید غازی صاحب کو بذریعہ فون بتایا گیاتو
انہوں نے کہا ” دیکھا! میں نے آپ حضرات سے پہلے ہی کہا تھا کہ حکومت کی طرف
سے وعدہ خلافی ہو گی اور وہی ہوا ۔“
22.... اس کے بعد ہمیں وہاں سے زبردستی واپس بھیج دیا گیا اور اس متفقہ
معاہدے کو مسترد کردینے کے بعد وہ دردناک المیہ برپا کر دیا گیا جس پر آج
بھی دل خون کے آنسوروتا ہے ....اناللہ وانا الیہ راجعون“ |