مسلمانوں کی کانگریس سے دوری

اگر مسلمانوں پر ان ریاستوں میں مظالم ہوتے جہاں بی جے پی کی حکمرانی ہے تو کوئی بات بھی تھی لیکن (گجرات کے علاوہ) مسلمانوں پر قہر وہیں ٹوٹ رہے ہیں جہاں کانگریسی ایوان اقتدار میں براجمان ہیں۔ مہاراشٹرا ، آسام، آندھراپردیش اور راجستھان میں جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے کیا اس کے بعد بھی اگر کانگریس یہ امید رکھے کہ اب بھی مسلمان اسی کو ووٹ دیں گے؟ تو یہ خام خیال ہوگی جو بھی ایسا سوچے وہ احمقوں کی جنت میں رہے تو بہتر ہوگا 1929ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر پنڈت موتی لال نہرو کی سرگردگی میں بنی کمیٹی نے اپنی پیش کردہ دستوری اصلاحات کی تجاویز میں مسلمانوں کے حقوق و مراعات کو نظر انداز کرکے مسلمانوں کو ا ن تمام حقوق سے محروم کردیا اور اپنے ان وعدوں کو بھلادیا جو 1916ء کے میشاقِ لکھنؤ کہے جانے والے معاہدے (مابین کانگریس و مسلم لیگ) میں کئے تھے اور انتہائی ہٹ دھرمی سے’’لو اور دو‘‘ یاسمجھوتے کی ہر کوشش کو ناکام بنادیا تو مولانا محمد علی جوہر اور محمد علی جناح نے بہ یک آواز کہا تھا ’’اب ہمارے لیے راستے بدلنے کا وقت آگیاہے‘‘ مسلمانوں نے یہ بات بار بار کہی لیکن اس پر عمل کم کیا۔ آزادی کے بعد زائد از 65سال مسلمان کانگریس کے وعدوں سے خود کو بہلاتے رہے لیکن اب واقعی راستے بدلنے کا وقت آگیا ہے ۔82سال قبل جو بات دو محمد علی صاحبان نے کہی تھی اب وہ حقیقت بن سکتی ہے اور جب بھی مسلمان کانگریس سے دور ہوا کانگریس کو انتخابات میں شکست اور اقتدار سے محرومی ہوئی چاہے وہ ایمرجنسی کے بعد ہوئے یا بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے انتخابات ہوں۔ آج مسلمان اسی منزل پر کھڑا ہے جہاں کانگریس کا ساتھ صرف عزتِ نفس کو مجروح یا ضمیر کو بیچ کرکیا جاسکتا ہے۔

اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ’’ہنگامی حالت‘‘ (ایمرجنسی) کے بعد ہوئے عام انتخابات میں کانگریس کی شرم ناک شکست میں مسلمانوں نے بڑا اہم رول ادا کیا تھا یہی نہیں بلکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1996ء میں ہوئے عام انتخابات میں بھی مسلمانوں نے کانگریس کو عبرت ناک سبق دیا تھا اس کے بعد 2004ء میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں مسلمانوں کے ووٹس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

ہندوستان کے مسلمان مستقل طور پر ’’بادشاہ گری‘‘ نہ کی ہے اور نہ کرسکتے ہیں اس کی وجہ مسلمانوں کی صفوں میں عدم اتحاد ہے۔ مسلمانوں میں یہ کمزوری عام ہے کہ کوئی شخص ذرا سا بھی اثر و رسوخ پیدا کرلیتا ہے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب مسلمانوں میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کبھی مولانا محمد علی جوہر یا محمد علی جناح کی تھی۔ خود کو قدآور سمجھنے والے یہ پستہ قد نام نہاد قائدین خود بھی ڈوبتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈبودیتے ہیں۔ ایسی ہی گمراہ اور خود فریبی کی شکار بیکار قیادت نے مسلم جماعتوں کو نقصان پہنچایا ہے اب تو شائد خود بمبئی (مہاراشٹرا) ، مدراس (ٹاملناڈو) اور مغربی بنگال میں بھی شائد ہی کسی کو یاد ہو کہ یہاں مسلم لیگ کا نہ صرف وجود تھا بلکہ اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی بھی تھی یو پی میں ڈاکٹر جلیل فریدی کی مسلم مجلس کو بھی اپنے ہی لوگوں نے شدید نقصان پہنچا یا تھا۔ مسلم جماعتوں اور مسلم قائدین کے خلاف اشتعال انگیز اور دیگر الزام تراشیاں بلکہ بہتان طرازی حکومت سے ان کے خلاف نمائندگی، اور مخبری (وہ بھی جھوٹی) مسلمانوں کے خلاف مسلمان ہی کرتے ہیں ’’تفرقہ بین المسلمین‘‘ ان کا پہلا اور آخری مقصد ہوتا ہے یہی سب کچھ بمبئی، یو پی، مغربی بنگال، مدراس اور کیرالا میں ہوا۔ کیرالا میں مسلم لیگ پر اثر نہ پڑسکا وہاں مسلم لیگ مضبوط تھی اور ہے یہی سب کچھ ہم حیدرآباد میں ایم آئی ایم کے خلاف دیکھ رہے ہیں لیکن یہاں بھی کیرالا کی طرح تفرقہ ڈالنے والے نہ صرف ناکام بلکہ ذلیل ہورہے ہیں۔ کیرالا اور حیدرآباد کے مسلمانوں نے سیاسی طاقت کا فائدہ محسوس کرلیا ہے اور شعور کی یہ بیداری ہر جگہ ہونی چاہئے۔

کانگریس اور بی جے پی کو سبق دینے کے لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ووٹس تقسیم نہ ہونے دیں۔ یاد رہے کہ رام پور، کشن گنج اور چند حلقوں میں کئی مسلم ووٹس کی تقسیم سے بی جے پی یا کسی فرقہ پرست یا کسی غیر مسلم کو فائدہ ہوا ہے ورنہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین جیسے ضمیر فروش عہد حاضر کے میر جعفر، میر صادق اور حبیب العدروس (آزاد حیدرآباد کی افواج کا کمانڈر انچیف) بن کر نہ ابھرتے حیدرآباد میں پارلیمانی نشست پر ایم آئی ایم کی کامیابی کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ووٹ تقسیم نہیں ہوئے حالانکہ یہاں مسلم ووٹرس کی تعداد یا فیصد کشن گنج اور دیگر حلقوں سے کم ہے۔ یہ سب کچھ ہم اس واسطے لکھ رہے ہیں کہ یہ بات ہم یاددلادیں کہ کانگریس کی کامیابی میں کانگریس کو مسلمانوں سے ملنے والی مدد شامل رہی ہے اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان تفرقہ ڈالنے والی غیر اہم طاقتوں کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ووٹس کی تقسیم کے سبب ہوا ہے۔ مسلمان آج بھی طاقتور ہے اسے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالات بے شک ناساز گار ہیں لیکن
’’ہمت کے چراغوں سے روشن ہر راہگذر ہوجاتی ہے‘‘

راجستھان، آسام کے مسلم دشمن فسادات کی سنگینی اور دیگر فسادات کی یادیں ابھی فراموش نہیں ہوئی تھیں کہ مہاراشٹرا (دھولیہ)میں جان بچانے کے لیے اپنے گھر چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں بھاگنے والے مسلمانوں پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ کی ذمہ دار صرف پولیس فورس نہیں ہے۔ مہاراشٹرا پولیس کے عہدیداروں کی ذہنیت، سنگھ پریوار اور شیوسینا کے نظریا پر ان کا ایقان اور ان سے ہمدردی سے ایک عالم واقف ہے تو مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کو ان باتوں کا علم نہیں ہوگا؟ممبئی پولیس کے بارے میں کیا سری کرشنا رپورٹ اور مہاراشٹرا پولیس کے بارے میں مہاراشٹرا کے ہی ایک اعلیٰ پولیس آفیسر (آئی جی IG) ایس ایم مشرف کی کتاب کرکرے کو کس نے قتل کیا؟ کے مشمولات کا علم نہ ہوگا؟ اس کے باوجود پاٹل صاحب نے پولیس کی اصلاح کے سلسلے میں کیا کیا؟ ہاں آزاد میدان میں مسلمانوں کے اجتماع پر زیادہ سختی نہ کرنے والے پولیس آفیسر کا بے شک تبادلہ کردیا گیا! مہاراشٹرا پولیس کے سرکاری رسالے میں انسپکٹر سجاتا پاٹل کی زہر میں بجھی ہوئی شاعری سے بھرپور نفرت انگیز نظم پورے طمطراق سے شائع کیا۔ لیکن کچھ نہیں ہوتا ہے کیونکہ شیوسینا چیف ادھے ٹھاکرے کے نزدیک وہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ مہاراشٹرا کی پولیس پر (کرکرے آنجہانی اور ان کے چند ساتھیوں کے علاوہ) گزشتہ دو ڈھائی دہوں سے عام طور پر ہندتوا اور مسلم دشمنی طاری ہے۔ مہاراشٹرا کی کسی بھی حکومت نے اپنی پولیس کی اصلاح کی کوئی موثر کوشش نہیں کی مہاراشٹرا پر زیادہ تر کانگریس نے راج کیا ہے۔ اب بھی اگر مہاراشٹرا کا مسلمان کانگریس کوووٹ دے تو یہ ہندوستان میں مسلم تاریخ کا ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔

سب جانتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے مجرم کون ہیں اس سازش کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی رول ادا کرنے والے یا بابری مسجد کے مجرم نمبر ایک نرسمہا راؤ تو خیر اس دنیا سے (بغیر کسی سزا تودور کی بات ہے ) گذرگئے کانگریس میں ان کے جرم کی فوراً کسی نے مذمت بھی نہیں کی تھی بلکہ ان کے خاص لوگ آج بھی مزے میں کوئی مرکزی وزیر ہے تو کوئی نائب صدر تو کوئی وزیر اعلیٰ ہے ۔ آندھراپردیش کے وزیر اعلیٰ نے ان کو حال ہی میں یہ کہہ کر عجیب و غریب خراج عقیدت پیش کیا کہ جو کچھ انہوں نے نرسمہا راؤ سے (صرف) دس منٹ میں سیکھا وہ دس سال میں نہیں سیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کے مجرموں کو سزانہ دی (بلکہ آج تک نہ ہوسکی) تو صرف دس منٹ کے لیے ان کے شاگرد رہے۔ وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی ایک مسجد واقع قومی شاہراہ نمبر9(متنگی ضلع میدک) کو 8سال قبل بچانے والے قائدین کو آج سزادے رہے ہیں جس میں مجلسی قائدین اسدالدین اویسی او ر اکبر الدین اویسی ماخوذ ہیں اور جیل جاچکے ہیں۔ چارمینار سے متصل ایک ایسے مندر (جس کا 1969ء تک وجود نہ تھا جس میں ایک ایسی دیوی کی مورت ہے جس سے ہندوپنڈت بھی ناواقف ہیں) اور جس کی تعمیر 1969ء کے بعد ہوئی اور غیرقانونی ہے کی توسیع کو ممکن بنایا اور جب ایم آئی ایم نے حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کی تو انتقام کا قہر ایم آئی ایم پر ٹوٹ پڑا اپنا علاج غیر مکمل رکھ کرلندن سے واپس آئے اکبر الدین اویسی پر حالت بیماری میں وہ مظالم ہوئے جو شائد سنگھ پریوار کی حکومت بھی کسی مسلم قائد پر نہ کرتی! نچلی عدالتوں سے اویسی برادران کے خلاف ظالمانہ اور ناروا فیصلے کروانے والی کانگریسی حکومت کو بھلا کون مسلمان ووٹ دے گا؟ ایم آئی ایم کے خلاف منافق اور پانچویں کالم سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے حکومت کی بڑی مدد کی ہے ایم آئی ایم سے مجلس کا انتقام کانگریس سے مسلمانوں کو دور ایم آئی ایم سے اور قریب کردیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کے بہانے ملک بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم صیہونی و اسرائیلی منصوبے کے مطابق ہوئے ہیں کانگریس یا یو پی اے کے دور میں ہندوستان کے اسرائیل سے تعلقا ت سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے سے عین قبل انڈین مجاہدین جس کا وجود صرف پولیس انٹلیجنس اداروں کی فائلوں میں ہے کا ایک مفروضہ کارکن پکڑاجاچکا ہے ایک طرف کرناٹک، مہاراشٹرا، دہلی اور بہار کی پولیس دہشت گردی کے مفروضہ الزامات عائد کرکے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور کی زندگی تباہ کرنے میں مصروف ہے تو مرکزی مرکزی وزیر داخلہ نے یہ بیان دے کر کہ دہشت گردی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے ملوث ہونے کا الزام لگاکر نہ جانے ایک تیر سے کتنے شکار کرنے چاہتے ہیں۔ اس بیان کی کوئی ضرورت نہ تھی نہ ہی اہمیت ہے۔ مشتبہ دہشت گرد قرار دے کر سینکڑوں مسلمانوں کو قید و بند اور انسانیت کو شرمادینے والے مظالم کا نشانہ بنانے والے انتظامیہ سنگھ پریوار کے خلاف بیان بازی کی جگہ عملی اقدامات کیوں نہیں کرتا ہے؟ سیمی تو سیمی ہے تو حیدرآباد دکن کی ایک غیر معروف تنظیم (انجمن صدیق دیندار) پرپابندی لگانے والے مستند ہندودہشت گرد تنظیموں پر پابندی کیوں نہیں لگاتے ہیں؟(واضح ہو کہ صدیق دیندار نام ضرور مسلمانوں کا ہے مگر ان کومسلمان تسلیم نہ کرنے پر اجماع اور اتفاق ہے) اگر وزیر داخلہ مخلص ہوتے تو کچھ کرکے دکھاتے یہ بیان بازی سیکولر عناصر اور مسلمانوں کے ووٹ لینے، بی جے پی اور آر ایس ایس کو دھمکانے بدنام کرنے اور مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے ہیں۔

مختصر یہ کہ مسلمانوں کو کانگریس کا ووٹ ملنا تو دور کی بات ہے کانگریس کے نئے مسیحا راہول گاندھی بھی کانگریس کو ووٹ دلانا تو دور کی بات ہے خود اپنے لیے بھی مسلمانوں کے ووٹ حاصل نہ کرسکیں گے یہ امسئلہ طوالت طلب ہے بہت کچھ کہنے سے رہ گیا باقی پھر کبھی
یارزندہ صحبت باقی (انشاء اﷲ تعالیٰ)
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184837 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.