( ہنسنا الاﺅ ہے ) جوڑ، بے جوڑ شادیاں

شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں بہت سے لطیفے اور باتیں مشہور ہیں۔ انمیں سے ایک لطیفہ کچھ یوں ہے کہ: ایک بادشاہ نے اعلان کرایا کہ جو شادی شدہ مرد حضرات اپنی اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں وہ ایک لائین میں اور جو نہیں ڈرتے وہ دوسری لائن میں کھڑے ہو جائیں۔ تھوڑی دیر بعد بیویوں سے ڈرنے والوں کی ایک لمبی لائن بن گئی اور نہ ڈرنے والوں کی لائن میں صرف ایک آدمی کھڑا تھا: بادشاہ نے اسے قریب جاکر ویری گڈ کہتے ہوئے پوچھا کہ کیا تم واقعی اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے ؟ تو آدمی بیچارہ بولا! کہ سر پتہ نہیں، مجھے تو بیوی کہہ گئی ہے کہ اسی لائن میں کھڑے رہنا ورنہ ٹانگیں توڑ دونگی۔ کیسا۔۔۔۔۔

ملٹن کہتا ہے کہ ایک اچھی بیوی ہمیشہ بھول جاتی ہے اپنے شوہر کو جب وہ غلط ہو۔ یعنی کہ چونکہ بیویاں اکثر ہی غلط ہوتی ہیں تو پھر انڈے ، ٹماٹر اور ڈنڈے کہاں پڑیں، کچھ پتہ نہیں چلے گا۔اسی طرح ایک بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ قربانی کا جانور کب لاﺅ گے؟ شوہر بولا کہ بیگم مجھے ہی ذبح کرلو، جانور کی کیا ضرورت! بیگم صاحبہ نے ہاتھ لہرا کر جواب دیا کہ : گدھے کی صرف کمائی حلال ہے قربانی نہیں!ہی ہی ہی۔۔۔۔ مرد حضرات زیادہ جذباتی نہ ہوں، یہ صرف لطیفہ ہے۔ اس سے پہلے میں اپنے کئی آرٹیکلز میں خواتین کی ریڑھ لگا چکا ہوں، اگر کبھی مردوں کی بھی تھوڑی بہت ریڑھ لگ جائے تو کیا حرج ہے؟

تو جناب! بیوی کیسی بھی ملے (یہ تو قسمت کے کھیل ہیں) شادی بہرحال ہے ایک اہم فریضہ جو کہ ہر مر د و عورت کو ادا کر نا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا کہ شادی صرف عورت کی ہوتی ہے آدمی تو صرف عادی ہو تا ہے برے انجام کا، اور عاری ہو تا ہے دنیا داری سے کہ بیوی آنے کے بعد دیدی، دادی سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھول بھال صرف بیوی اور بچوں کی روٹی پوری اور پوٹی دھونے میں ہی کمر نیوا بیٹھتا ہے ۔ویسے تو شادیاںروز ہی ہوتی ہیںپر کچھ شادیاں بہت ہی عجیب و غریب ہو سکتی ہیں مثلا: ڈاکٹر اور انجینئر کی شادی، وکیل اورپولیس آفیسر کی شادی، پیش امام ، درزی، موچی اور سنیارے کی شادی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آئیں انکی کچھ تفصیل جانتے ہیں۔

انجینئر دولہا اور ڈاکٹر دلہن ہو تو انکے شب و روز کیسے گزریں گے: میاں کہیگا کہ بھئی میرا ہیلمٹ ، سیفٹی شوز اور ڈانگری کدھر ہیں۔ ڈاکٹر بیوی اپنی اشیائِ ضروریہ لبھ رہی ہو گی کہ میری اسٹیتھوسکوپ، تھر ما میٹر اور ٹارچ نہیں مل رہی۔ ناشتے میں ڈاکٹربیگم فرمائیں گی کہ بھئی ٹوسٹ کا ٹمپریچر سو ڈگری سے کم ہو نا چاہیے اور پراٹھا گھی کی بجائے صرف ایک چمچ آئل میں پکا ہو۔ انڈا بغیر زردی کے ہو ، دودھ ملائی اترا ہوا اور چائے پھیکی ہو۔ پاپے، ڈبل روٹی، بسکٹ شوگر فری ہوں، کھانے میں ابلے ہوئے چاول دال کے ساتھ اور سلادبس۔ انجینئر میاں صاحب اپنا راگ الاپیں گے کہ میری روٹی کی پیمائش پوری ہو نی چاہیے اور فیتے سے ناپ کر دی جائے ،ذرا بھی زیادہ ہو تو کاٹ دی جائے۔ بوٹیوں کا وزن برابر ہو نا چاہیے۔ روٹی پرکا ر کی طرح تکون نہیں بلکہ گرائنڈنگ ڈسک کی طرح گول مٹول ہونی چاہیے۔ پلیٹ میں سالن اور کپ میں چائے کا لیول برابر ہو نا چاہیے۔روٹی، سالن اور چائے میں استعمال ہونے والے مٹیریل کا لیب ٹیسٹ ہو وغیرہ وغیرہ۔

ویسے تو ہماری ریما صاحبہ ماشاءاللہ سے اپنے ڈاکٹر شوہر کے ساتھ خوش و خرم ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں ، اللہ انہیں سدا خوش رکھے آمین، پر اندر کی بات کا پتہ نہیں کہ بیچاری کو صبح شام جوس گلاس کی بجائے ٹیکے کی سرنج میں ملتا ہو، وٹامن فروٹ کی بجائے گولیوں کی شکل میں، آئرن پالک، سیب اور سبزیوں کی بجائے کیپسولوں کی شکل میں ، روٹی فائبر اور ویٹیبل بسکٹ کی شکل میں، چائے میں چینی کی بجائے کینڈرل کی گولی ملتی ہو۔ اسکے علاوہ ذرا کہیں پیٹ میں درد ہوا تو شوہر ڈاکٹر فورا الٹرا ساﺅنڈ کرنے بیٹھ جاتا ہو گا یا پھر منہ کے ذریعے نلکی ڈالکر پیٹ کی انڈواسکوپی کرنے لگ جاتا ہوگا یا پھر بلڈ اور یورین ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ۔ ارے ہاں یورین ٹیسٹ پر یاد آیا کہ انکے ہاں سے ابھی تک کوئی ایسی ویسی۔؟؟۔ خبر نہیں آئی؟؟آپ سمجھ گئے نہ کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں؟

وکیل دولہا اور عام دلہن : وکیل کی بیوی بیچاری تو سدا عذاب میں رہیگی کہ ہر وقت ہر غلط کام پر کسی نہ کسی دفعہ لگنے کا ڈر ہوگا ۔ مثلا: روٹی لیٹ ہوگئی، دفعہ چار سو پانچ۔ کپڑے لیٹ ملے تو دفعہ چار سو چھ، چائے لیٹ ہوگئی تو دفعہ سات سو دو۔ پیسے مانگ لیے تو دفعہ چار سو سات۔ بیگم نے ہاتھ اٹھا لیا تو دفعہ تین سو دو کا پرچہ۔ بچوں کو مار دیا تو پھر کسی نہ کسی دفعہ لگنے کا ڈر۔ انکے تو بچوں کا کسی سے پھڈا بھی مہنگا پڑیگا کہ پتہ نہیں کب اقدام قتل یا قابل دست درازی کا الزام لگ جائے۔

تھانیدار دولہا اور عام دلہن: اسکی بی وی بھی بیچاری ہر وقت ڈری سہمی ہی رہیگی کہ پتہ نہں کب دفعہ تین سو دو کا پر چہ کاٹ دے۔ اسکے علاوہ گھر میں چھترول ، لترول تو عام سی بات ہوگی کہ اسکے بغیر پولیس والا رہ نہیں سکتا۔مزید کہ کچھ ممنوعہ قسم کی گالیاں جنکے دینے سے زبان کے ساتھ ساتھ جسم بھی گندا ہو جاتا ہے وہ بھی پولیس والے کی بیوی کو بر داشت کر نی پڑ سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ اگر تھانیدار کی کبھی مار کٹائی کی ٹھرک تھانے میں پوری نہ ہوئی تو یہی کمی بیشی گھر میں بیوی کے جسم پر بھی پوری ہو سکتی ہے۔لہذا اسکی بیوی کو چھتر کی چھترول، مولا بخش کی بخشش، گھسن ، مکے ، لات، تھپڑ، سریے سے ٹھکائی، رولر پھیرنا، چیرا لگانا، رات بھر جگانا، آنکھوں میں مرچیں وغیرہ جیسے ظلم و ستم کے لیے تیار رہنا پڑیگا۔

موچی ، درزی دولہا اور عام بیوی: موچی سے شادی کا عورت کو ایک یہ فائدہ ہے کہ گھر کی تمام فالتو چپلیں کام میں آ جائی گی۔جہاں جوتی ٹوٹی وہیں نویں تیار۔ تاہم نقصان یہ کہ میاں صاحب کو کبھی غصہ آیا تو یہ تمام جوتیاں خود انہی پر ٹرائی ہو سکتی ہیں۔اور یہ کہ موچی میاں جوتے بنا سنوار کر ہر فنکشن پر بیگم اور بچوں کو عیش بھی کرا سکتاہے۔جبکہ درزی سے شادی میں یہ فائدہ ہے کہ روز روزنئے نئے ڈیزائن کے سلے سلائے سوٹ ملا کریں گے پہننے کو۔ تاہم محتاط رہیں کہ اگر درزی ان ٹرینڈ ہوا تو کہیں نئے نکور کپڑوں کا ستیا ناس ہی نہ کر دیے!

دودھ والا دولہا اور عام بیوی : دودھ والے کے تو سارے بچے ہی دودھ میں نہا ئیں دھوئیں گے اور پھول کر کپا اور موٹے سانڈ ہو جایا کریں گے کہ گھر میں دودھ کی فراوانی ہوگی۔ روزانہ تازہ دودھ، دہی، کسٹرڈ، کھیر، کھویا، دیسی گھی، مکھن تیار ملا کریگا، پر کچھ ہی دنوں میں تمام گھر والوں کا فیٹ لیول اور کولیسٹرول بڑھا ہو پایا جائیگا او ریوں پھر بیماریوں کی وجہ سے دوائیں شروع۔کہتے ہیں کہ دودھ والوں کے ہاں ہر ماہ ایک چارپائی ٹوٹتی ہے وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے۔لہذا بی کیئر فل بی فور میرج ود اے ملک مین۔

سنیارا دولہا اور عام دلہن: اس میں دلہن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیگم کو آئے روز نت نئے ڈیزائن کے سیٹ پہن کر شو شا مارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم کمی بیشی ہونے پر بیگم کا زیور توڑ کر واپس بھی ملانا پڑ سکتا ہے۔سنیارے کرتے یہ ہیں کہ جوں ہی کوئی نیا ڈیزائن کا سیٹ بننے آتا ہے تو پہلے اپنی بیگمات پر پہنا کر ٹرائی کر لیتے ہیں ۔ لہذا موجاں ای موجاں۔مگر چور بھایئیوں سے گذارش ہے کہ ہاتھ صاف کرنے سے پہلے اصلی نقلی کی پہچان ضرور سیکھ لیں کہ سنیارا سونے میں کھوٹ ملانے سے کبھی باز نہیں آتا!۔

بنک والا دولہا اور عام دلہن:: بنک والے سے شادی میں فائدے اور نقصان دونوں ہی ہیں۔ فائدہ یہ کہ گروی رکھے زیور اکثر تقریبات میں گھر میں بیگم کے کام آجاتے ہیں۔ جبکہ کمی بیشی ہونے یا ٹارگٹ اچیو کر نے کے لیے بنک منیجر میاں ، بیوی کے زیور بھی گروی رکھوا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ عید بقر عید پر بیوی بیچاری کونئے نوٹوں کی سفارش کے لیے بار بار اپنے میاں کی منت کرنا پڑا کریگی۔پھر جس طرح بینک والے قرضہ دیتے وقت قرض لینے والے کا پورا شجرہ نسب چھانتے ہیں اسی طرح وہ بیوی کے بھی گڑھے مردے اکھاڑ سکتا ہے۔کیونکہ جوانی میں تو ہر مرد عورت سے کچھ غلطیاں ہوتی ہیں ،تانک جھانک کی، لہذا ماحول خراب بھی ہو سکتا ہے!۔

امام صاحب دولہا اور عام دلہن: انتہائی معذرت کے ساتھ کہ ان بیچارے نے تو ہر آن یہی پوچھنا ہے کہ بیگم نماز پڑھی کہ نہیں؟؟۔ بیگم روٹی کا پوچھے گی وہ نماز کا پوچھیں گے۔ بیگم کپڑوں کا پوچھے گی وہ سنتوں کے بارے میں دریافت کریںگے۔ بیگم شادی میں جانے کی بات کرے گی وہ نماز پر جانے کی بات کریں گے۔ عموما بیگمات نماز پڑھتی نہیں ہیں پر کہہ دیتی ہیں کہ پڑھ لی تھی۔ تو اس صورت میںثواب کے ساتھ ساتھ عذاب بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا امام صاحب سے شادی سے پہلے کئی بار سوچ لینا چاہیے۔ویسے تو شادی کہیں بھی کریں سوچ سمجھ کر یںکہیں بعد میں : اعصام الحق اور فاہا کا سا حال نہ ہو۔ اللہ ان دونوں کے حال پر رحم فرمائے۔ہاں البتہ ایک فائدہ یہ ہے کہ مولویوں کے گھر حلوے مانڈے اور کھانے پینے کا سامان بہت آتا ہے ، جس کی وجہ سے اکثر مولوی کی بیگم کی کچن سے جان چھوٹی رہتی ہے۔

لوہار دولہا اور عام دلہن: لوہے کا کام کرتے کرتے اس بیچارے کے ہاتھ بھی ہتھوڑے کی طرح سخت ہو جاتے ہیں۔ انکی بیگم بننے والیوں سے گذارش ہے کہ اپنے گھر سے مار کھانے کی پریکٹس کر کے آئیں کہ اس آدمی کا پیار کا ہاتھ بھی ہتھوڑے کی طرح لگتا ہے اور ہتھ ہولا رکھان تو انہیں آتا ہی نہیں۔اور یہ کہ یہ ہاتھ کے کھلے ہونے کے ناطے ہتھوڑا کہیں بھی چلا سکتے ہیں، چاہے ہو ٹانگ، چاہے ہو آنکھ اور چاہے ہو دماغ۔ مزید یہ کہ : انکے غصے سے بھی بچیں کہ سارا دن ٹک ٹک کرتے سو سونا ر کی ایک لوہار کی کے مصداق ایک ہی جست میں دماغ کے دست نہ نکال دیں۔

شادیوں کی بات پر یاد آیا کہ ہمارے ایک دوست چین گئے تو انہوں نے وہاں ایک عجیب روایت دیکھی کہ ایک درخت کے نیچے بہت سی پرچیاں پڑی اور چپکی ہوئی تھیں۔ گائیڈ سے اس بارے میں پوچھا تو پہلے تو وہ ٹالتا رہا پھر آخر پھوٹا کہ کہ ان میں سے کچھ پرچیوں پر شادی اور کچھ پرچیوں پر مدد کی درخواست ہوتی ہے اگر کسی کو کچھ لینا دینا ہو یا کوئی شادی میں دلچسپی رکھتا ہو تو پرچی پر لکھے گئے نمبر پر رابطہ کر کے بات چیت کو مزید آگے بڑھاسکتا ہے۔ تو کیا پاکستان میں بھی شادی کے سلسلے میں ایسا ہوسکتا ہے؟۔

بہرحال! اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں اداکارہ بیوی اور اداکار شوہر کے لتے لوں : تو بھئی ان سب کے حالات تو سیلف ایکسپلینیٹری ہیں، لکھنے کی کیا ضرورت؟ مثلا: حمیرا ارشد اور احمد بٹ میں لڑائی جھگڑا۔سیف کرینہ ہنی مون پر۔جاوید شیخ، سلمی آغا ، نازاں ساعتچی اور نیلی کی جدائیاں۔ ایشوریا ، ابھیشیک بچی میں مگن ، ریمبو، صاحبہ بھی خیر سے بچوں والے۔ علی زیب کی جوڑی بھی شاندار رہی۔ درپن اور صبیحہ خانم کا پیار سبھی کو معلوم۔ نرگس میاں بچوں کے ساتھ آدھی پاکستان اور آدھی کینیڈا میں۔ انجمن مبین ملک اور بچوں کے ساتھ لندن میں۔شائستہ واحدی بنک منیجر میاں کے ساتھ خوش۔ فضیلہ قیصر ، قیصر خان کے ساتھ راضی باضی۔ سعود جویریہ ھیپی ھیپی۔ بشری انصاری، اقبال انصاری اب نانا نانی۔ راحت کاظمی ساحرہ کاظمی بڑھاپے کی طرف گامزن۔ ارباز خان اور خوشبو کی خوشبو بھی چہار سو۔ہیما مالنی دھرمیندر، امیتابھ اور جیا بچن، نرگس سنیل دت، دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی جوڑیاں کچھ سلامت ، کچھ اوپر۔۔۔ ۔ وغیرہ وغیر ہ

جناب عالی!لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ شادی کریں تو جوڑ دیکھ کر کریںنہ کہ عارفہ صدیقی کی طرح بابا اوربے بی کا ملاپ ہو اور نہ ہی کسی ساٹھ سالہ سعودی شیخ کی طرح سولہ سالہ لڑکی سے ٹاکرا ،کہ ابا بیٹی لگیں!
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247520 views self motivated, self made persons.. View More