لاہور میں ایک آدمی کو کیا سوجھی
کہ اُس نے قبروں پر کتاب لکھ ڈالی۔ میانی صاحب کے قبرستان میں ہزاروں قبریں
ہیں ۔ کچھ کتبوں کے ساتھ اور کچھ کتبوں کے بغیر۔ کچھ گمنام لوگوں کی اور
کچھ مشاہیر کی۔ ان صاحب نے مشاہیر کی قبریں ڈھونڈیں اور خاک میں پنہاں ان
صورتوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا ۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ بہت سے لوگ ۔
بہت سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے شہر میں ان کے پیاروں کے درمیاں کیسی
کیسی ہستیاں آرام فرما ہیں۔ اب سنا ہے کہ وہ صاحب اسلام آباد کے قبرستانوں
کے بارے میں بھی ایسی ہی کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔
قبر پرکتبہ موجود ہو یا نہ ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، کسی پر ہجوم قبرستان میں
ہو یا کسی جنگل ،صحرا ،کھیت یا کسی شہر کے کسی کونے میں ، کسی سایہ دار
درخت کے نیچے ہو یا کسی چٹیل میدان میں ، پھولوں سے لدی ہو یا خود رو
جھاڑیوں کا بوجھ اٹھا ئے ہوئے ہو ، عقیدت مندوں سے گھری ہو یا انسانی قدموں
کی چاپ اور فاتحہ کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی منتظر ، کسی شاہ کی ہو یا گدا
کی، وزیر کی ہو یا کسی فقیر کی، قاتل کی ہو یا مقتول کی، ظالم کی ہو یا
مظلوم کی ، ہر قبر کی ایک داستان ہے، ایک کہانی ہے۔ ان کہانیوں میں عبرت
بھی ہے اور اسباق بھی اور زندگی کی تلخ حقیقتیں بھی۔ لیکن ہمیں ان کہانیوں
سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اس لیے نہ ہم عبر ت حاصل کرتے ہیں اور نہ سبق۔ آج آپ
کو ایسی قبر کی کہانی سنانی ہے جو گمنام نہیں تھی مگر حالات کے جبر نے قبر
اورصاحب قبر کو گمنام بنا دیا ۔کہتے ہیں جب وہ صاحب زندہ تھا تو لگتا تھا
کہ زمانہ اس سے ہے وہ زمانے سے نہیں ۔ ایک جوان رعنا او پر سے خاندانی جلال
و وقار۔ سنا ہے انگریزی سوٹ پہن کر نکلتا تو لوگ اسے دیکھنے کے لیے کھڑے ہو
جاتے۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
وہ صاحبِ جلال و جمال آج شہر سے دور ایک ایسی قبر میں لیٹا ہے کہ اپنے اور
پرائے ادھر کا کم ہی رخ کرتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس جگہ وہ دفن ہے
وہاں اس کی کروڑوں کی جائیداد ہے مگر وہ اب اس کی نہیں۔ اس کے رونے والے
پہلے بھی کم تھے اب اور بھی کم ہیں، حالانکہ اس کے قریبی رشتہ دار موجود
ہیں وہ بڑے بڑے عہدوں اور مسندوں پر فائز ہیں مگر اس کی یا اس کی قبر کی
کسی کو پروا نہیں ۔ صاحب قبر کی کہانی بھی عجیب ہے ۔ شکل و صورت کا ذکر
پہلے ہو چکا کہ مردانہ شان و شوکت کا نمونہ ، خاندانی وقار ایسا کہ 1946
ءسے لیکر اب تک خاندان کو کوئی نہ کوئی فرد لوگوں کے ووٹوں سے کامیاب ہو تا
آرہا ہے، اب بھی خاندانی نمائندگی موجود ہے۔ اب اللہ کا فیصلہ دیکھئے کہ اس
نے سب کچھ دیا مگر اولاد کی نعمت سے محروم رکھا ۔ شہرمیں وسیع جائیداد اور
شہر کے ساتھ ہی تقریباً دو سو مربع اراضی پر آموں کا بہترین باغ۔ باغ اس
قدر شوق سے لگوایا کہ جہانیاں شہر سے سینکڑوں میل دور سہارن پور اور امر
تسر سے اعلیٰ قسم کے پودے خود لیکر آتے ۔ ایک روایت کے مطابق پودوں کو بچوں
کی طرح جھولی میں رکھ کر لاتے۔ اپنی نگرانی میں باغ لگوایا اور باغ کے شروع
میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی۔ہو سکتا ہے اولاد سے محرومی کا دکھ باغ لگوا کر
دو ر کرنے کی کوشش کی ہو۔مال، اولاد، دولت ، عزت، ذلت، بادشاہی ، فقیری ،
کسی چیز پر انسان کا اختیار نہیں ۔ یہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ نے اپنے
پاس رکھے ہیں۔ہر انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے مگر پھر بھی اولاد نہ ہونے کی
صورت نہ جانے کیوں عورت کو قصور وارقرار دے کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا
ہے۔ اس کہانی میں بھی یہی ہوا۔ اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے بیوی کو طلاق دے
دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ چاہو تو اپنا سامان بھی ساتھ لے جاﺅ۔اس وفا شعار
عورت سے یہ دکھ برداشت نہیں ہوا ۔ اس نے اپنا تمام سامان صحن میں رکھا اور
اس کو آگ لگا دی۔ شکر ہے وہ دکھ میں ستی نہ ہوئی۔ ورنہ ہوسکتا تھا کہ اپنے
بابل کے دیئے ہوئے سامان کے ساتھ خود بھی جل کر راکھ ہو جاتی ۔ وہ عورت جو
کل تک زندگی کا حصہ تھی، شریک حیات تھی۔ اس کی طر ف کوئی انگلی بھی کرتا تو
انگلی کاٹ دی جاتی ،اٹھنے والی آنکھ پھوڑ دی جاتی اولاد نہ پیدا کرنے کے
”جرم“ میں آج زندگی سے خارج کر دی گئی اور اپنے نوکر کے ساتھ میکے بھیج دی
گئی جو اسے اس کے گاﺅں کے ریلوے سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آگیا ۔ وہ بڑی وفا
شعار عورت تھی ۔ جس شخص نے یوں بے عزت کر کے گھر سے نکالا اسے وہ دل سے نہ
نکال سکی ۔ اسے اکثر یاد کرتی ۔ ایک دن ایک سہیلی نے پوچھ لیا کہ آخر اس
شخص میں کیا تھا جو تم اسے بھول نہیں پائی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے
اور کہا کہ تم کیا جانو کہ وہ میر ے لیے کیا تھا اور پھر اسے اس کی تصویر
دکھائی۔ حیرت ہے کہ وہ اپنا سامان اس کے گھر کے صحن میں خود اپنے ہاتھوں سے
راکھ کر آئی مگر اس کی تصویر بچا کر اپنے ساتھ لے آئی ۔ چند سالوں بعد اس
وفا شعار عورت کی شادی فیصل آباد (اس وقت لائل پور ) کے ایک بڑے زمیندار کے
ساتھ ہو گئی جس کی 22 مربع اراضی تھی۔ کہتے ہیں وہاں اس نے ہنسی خوشی زندگی
گزاری اور اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
صاحب قبر کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ انہوں نے بعد میں ایک اور شادی کی
مگر اولاد سے پھر بھی محروم رہے ۔ لوگوں نے ایک اور شادی کا مشورہ دیا لیکن
ٹال گئے اور ایک دن اچانک صرف چوالیس برس کی عمر میں وفات پاگئے ۔ سب ٹھاٹھ
پڑا رہ گیا ۔ اب پتا نہیں کس کی خواہش پر انہیں ان ہی کے باغ میں دفن کر
دیا گیا ۔ وہ باغ برسوں موجود رہا ۔ ان کی اپنی اولاد تو تھی نہیں ، ان کے
دوسرے ورثا میں جائیداد تقسیم ہوئی اور آج ان کے باغ کا ایک بھی درخت باقی
نہیں ۔ وہ درخت جن کی پنیری وہ سینکڑوں میل دور سے لائے تھے ان کا نام و
نشان بھی باقی نہیں رہا ۔ باغ والی زمین پر اب رہائشی کالونی بنانے کی
تیاری ہے اسی زمین کے ایک کونے میں اس زمین کا مالک ابدی نیند سو رہا
ہے۔ایک ایسی قبر جس پر اب تک کتبہ موجود ہے ۔ قبر ایک مسجد کے اندر ہے ۔
قبر اور مسجد دونوں شکست وریخت کا شکار ہیں ۔ قبر کیا ہے بس بے کسی کا ایک
مزار ہے جہاں پئے فاتحہ کوئی نہیں آتا ۔کل کو شاید یہ کتبہ بھی ٹوٹ جائے
۔قبر کا نام و نشان مٹ جائے اور اس کی کروڑوں کی زمین پر بننے والی رہائشی
کالونی کے مکینوں کو اس کے مالک کا نا م بھی معلوم نہیں ہوگا ۔
سب کہاں ، کچھ لالہ وگل میں نما یاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی جو پنہاں ہو گئیں |