ملک کے شمال میں واقع قبائلی
علاقے ان دنوں سنگین صورتحال سے دوچار ہیں-روزانہ ہونے والے حملوں، دھماکوں،
دہشت گردی کی کاروائیوں میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں-ہسپتال
زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں- قبائلی علاقوں میں جہاں سازش اور اندورنی ملی بھگت
سے ایک گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے وہی یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ اسلام اور
پاکستان کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں-بیت اللہ محسود ۔ مسلم خان، منگل
باغ، ملا عمر سمیت تمام سرکردہ طالبان امریکی ایجنٹ بنے ہوئے ہیں جنہیں
فوری طور پر گرفتار کرنےکی ضرورت ہے-نجانے وہ کون سے حکومت کے معاہدے ہیں
جو امریکہ کے ساتھ کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان نام نہاد اسلام پسندوں کو
گرفتار نہیں کیا جاتا جو مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی مذموم کوشش میں مصروف
ہیں-حالات و واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ہماری فوج اور خفیہ ایجنسیاں خود دہشت
گردی میں ملوث ہیں بلکہ اس کو پروان چڑھا رہی ہیں۔امریکہ کے ساتھ ایجنسیوں
کی ساز باز ہوچکی ہے اور وہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے خود مسلمانوں کا
خون بہا رہی ہیں -لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ، مناواں پولیس ٹریننگ
سینٹر پر حملہ سمیت سوات کے واقعات، شمالی وزیرستان میں خود کش حملے اس بات
کا عکس ہیں کہ یہ مکمل طور پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہورہے ہیں - اس کی
روک تھام کے لیے کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جارہی- ماضی میں جہادیوں
کی تیار کرنے والی ہماری ایجنسیاں اس گھناؤنے کھیل میں اس قدر مصروف ہیں کہ
اب انہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے-امریکہ کی جانب سے پاکستان توڑنے کے مذموم
مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہمارے حکمران سمیت سیاسی رہنما بھی بھرپور طریقے
سے شامل ہیں اور وہ ان کی کاسہ لیسی کر رہے ہیں۔سچ یقیناً کڑوا لگتا ہے
لیکن آج اس حقیقت کو کوئی بھی سامنے لانے کو تیار نہیں ہے-اچانک سوات میں
ایک لڑکی کو کوڑے مارنےکی ویڈیو کیوں سامنے آتی ہے۔ طالبان کے مسلم خان
سمیت دیگر معروف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن سے گفتگو میں مگن نظر آتے ہیں
لیکن افسوس اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملوں میں ان کے
گھروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، امریکی ڈرون حملوں میں کبھی بیت اللہ
محسود کے گھر کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کبھی مسلم خان کی طرف توجہ نہیں دی
گئی اور اگر میزائل داغے جاتے ہیں تو یہ ان بے گناہ اور بے قصور لوگوں کے
گھروں پر جو دو وقت کی روٹی کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے تک بھی تیار
نظر آتے ہیں-حکومت سمیت فوج کاروائی بھی ان کے خلاف کرتی ہے جو عام غنڈے یا
بدمعاش ہیں،ان کے اصل سرغنہ اور ان کو چلانے والے ہمیشہ سے محفوظ چلے آرہے
ہیں-یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ امریکہ سمیت خود ملکی ادارے بھی کسی صورت ان
ایجنٹوں کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ اگر انکو ختم کرتے ہیں تو
پاکستان کو توڑنے کے ان کے مذموم مقاصد ہیں وہ کسی صورت بھی پورے نہیں
ہوسکتے اور اسی بناء پر ان علاقوں میں روز ایک شورش برپا ہے
اس سے مزید افسوس ناک امر یہ کہ ہمارا میڈیا مکمل طور پر جانبدار ہے اور
جانبدار بھی ایسا کہ غیر ملکی میڈیا کے تحت چلتا ہے-اگر کوئی غیرملکی
ایجنسی خبر چلا دیتی ہے کہ وانا میں دہشت گرد مارے گئے ہیں تو ہمارا میڈیا
بھی فوراً کہہ دیتا ہے کہ ہاں دہشت گرد مارے گئے ہیں جبکہ ان علاقوں میں
میڈیا کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں لیکن ان سے تصدیق کرنے کی زحمت نہیں
کی جاتی کہ آیا وہ معصوم پانچ سالہ بچہ یا بچی جو ان واقعات میں ہلاک ہوگئے
کیا وہ بھی دہشت گرد تھے یا خود دہشت گردی کی بھینٹ چھڑھ گئے -کسی بھی
علاقے میں کوئی بم دھماکہ ہوجاتا ہے تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ خود کش
حملہ ہوگیا ہے حالانکہ قوی امکان یہی ہوتا ہے کہ یہ نصب شدہ بم ہو اور
حکومت اپنی نااہلی چھپانے کےلیے ارادی طور پر کہہ دیتی ہے کہ یہ خود کش
حملہ تھا تاکہ اسے مزید تحقیقات کی زحمت پیش نہیں آتی اور کسی بھی مرنے
والے کا سر اٹھا کر سامنے رکھ دیتی ہے کہ یہ خود کش حملہ آور ہے۔یہ بات آج
تک میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ کیسے ایک ٹی وی اسٹیشن میں بیٹھا اینکر پرسن
دھماکے کے دو منٹ کے اندر کہہ دیتا ہے کہ دھماکہ خود کش تھا جبکہ ابھی تو
تحقیقات کی جانی باقی ہے۔یہاں یہ بات بھی اکشف ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے میڈیا
کو بیرون ملک سے امداد تو نہہں مل رہی یا ہمارے نام نہاد صحافی بھی اس سازش
میں برابر کے شریک تو نہیں ہیں-کراچی میں قتل عام ہو تو سارا میڈیا خاموش
تماشائی بنا رہتا ہے، لیکن نو کروڑ آبادی کے پنجاب کے کسی کونے میں کوئی
واقعہ ہو تو واویلا مچایا جاتا ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا بھی
بااثر لوگوں کے زیر اثر ہے اور وہ سچ بات کو سامنے لانے سے قاصر ہے گو کہ
ماضی میں میڈیا کا مثبت کردار بھی سب کے سامنے ہے جس سے انکار نہیں کیا
جاسکتا لیکن مجموعی طور پر صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے - حکومت کو چاہیے
کہ وہ اب بھی صورتحال کا ادراک کرے بالخصوص حکومت میں شامل پی پی ،اور ن
لیگ کھل کر ایجنسیوں کو خبر دار کریں کہ ملزمان کو گرفتار کریں ورنہ ان کے
خلاف کاروائی کی جائے گی۔ایجنسیوں سے پوچھا جائے کہ کیوں ایک بھی ملزم
گرفتار نہیں ہوتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں پنجاب محفوظ تھا آج پنجاب میں
دہشت گردی کی نئی لہر کی کیا وجہ ہے ان واقعات میں جو ہاتھ ایجنسیوں کے ہیں
ان کو بےنقاب کیا جائے-اگر جمہوری رہنماء یہ اقدامات نہیں اٹھاتے تو پھر
ہاتھ ملتے رہیں گے اور ایک بار پھر کوئی آمر آکر اقتدار سنبھال لے گا جسے
وہ وقت کی ضرورت قرار دیدے گا۔ |