جیسے عوام ویسے حکمران - بشکریہ اسرار احمد راجہ صاحب

اردو ادب کا ایک عظیم نام اشفاق احمد اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں کہ “ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے“ میں ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا۔ مجھے کہیں سے اس کا جواب نہیں مل رہا تھا بہت علماء مفکرین سے پوچھا مگر تسلی نہیں ہوئی۔آخر ایک گاؤں سے گزر ہوا کہ ایک بزرگ جو درخت کی چھاؤں میں بیٹھے آرام فرما رے تھے نہ جانے کیوں میرے دل میں ان سے وہی سوال پوچھنے کا خیال آیا۔ بزرگ نے نہایت آرام اور دھیمے لہجے میں فرمایا، ’ مسلمان وہ ہے جو اﷲ کو مانتا ہے جبکہ مومن وہ جو اﷲ کی مانتا ہے‘ یہ سنتے ہی میری تسلی ہو گئی۔دور حاضر پر اگر نظر ڈالی جائے تو واقعی ہی ہم مسلمان کہلوانے کے حقدار بھی نہیں چونکہ ہم خدا کو بھی دل سے نہیں مانتے ۔ اگر خدا کو دل سے مان لیں تو ہمیں امید اسی سے ہو کسی سپر پاور کے سامنے سر جھکانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

کیا بات کی ہے اسرار احمد راجہ صاحب نے مزید فرماتے ہیں کہ

کہتے ہیں کہ جیسی قوم ہو اس پر حکمران بھی ویسے ہی ہوتے ہیں کوئی اچھا حکمران عوام کے اچھا ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام روشن خیال ہوئی تو خدا کی طرف سے مشرف کو مسلط کر دیا گیا۔ اسی طرح دن بدن ہمارے خیال، ہماری ترجیحات بدلتی ہیں تو اسی حساب سے ہم پر حاکم بھی آ جاتے ہیں۔ ہمیں مغرب کا معاشرہ بڑا اچھا لگتا ہے ہر کوئی اسی کی مثال دیتا ہے لہٰذا ہم پر مستقل حاکم بھی انہیں ہی بنا دیا گیا۔ پاکستان کے اندر پرویز مشرف ہو یا شوکت عزیز، زرداری ہو یا یوسف رضا گیلانی فرق نہیں پڑتا، اصل حکمران کون ہے ؟ پالیسیاں کس کی ہیں؟ اشارے کس کے چلتے ہیں؟ سب کو معلوم ہے۔ مگر عوام جو ان تمام کو جھیلتی ہے کو پاگل بنانے کے مختلف اور اپنے اپنے انداز اپنائے جاتے ہیں۔

پرویز مشرف دور کو اور پرویز مشرف کو بہت برا، ڈکٹیٹر اور بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ اس دور کو کہا گیا کہ یہ پالیسیاں کہیں اور سے آتی ہیں حکم کوئی اور کرتا ہے۔ اپنے عوام کو قیدی بنا کر کسی اور کے سپرد کر کے ڈالرز لئے گئے، ججز کو اس نکالا، پی سی او اس نے لایا، زرِمبادلہ اس نے گنوایا، پرائیوٹائیزیشن میں اس نے کھایا۔الغرض ہر ایک عیب اور برائی تھی مشرف دورِ حکومت میں۔ مگر ایک سے بڑھ کے ایک آتا ہے یہاں، پرائیوٹائیزیشن سے اس نے کھایا تو آپ پہلے ہی سے کھائے ہوئے کو حلال کرانے کے لئے این آر او لے آئے۔ ججز اس نے نکالے تو آپ نے ان کو مزید زلیل کر دیا، پی سی او اس نے لایا تو آپ نے اسکو قانونی بنانے کا بندوبست کر دیا۔ بڑے آقا کی آمد پر وہ بھی اپنے شہریوں کے لاشے تحفہ میں دیتے تھے آپ نے بھی یہ ریت پشاورشہر میں آپریشن کر کے جاری رکھی۔ مگر ہماری اطلاعات کی وزیر بڑے مطمئین ہو کر بتا رہی ہوتی ہیں کہ اس دور میں بم ہوا سے گرائے جاتے تھے اور معلوم نہیں ہوتا تھا کہ نشانہ کون بن رہا ہے اور ہم زمین سے اور چن چن کے دیکھ بھال کے مار رہے ہیں، ارے بابا ! تمہیں معلوم ہے کہ یہ تمہارے اپنے پاکستانی ہی ہیں جن کو قتل کئے جا رہے ہو۔

دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ دوسرے ممالک کے دورے اپنے ملک کی سالمیت اور بقا کے لئے کرتے ہیں۔ مگر ہمارے وزیر صاحب جاتے ہیں تو اپنے ملک کی سرحدوں پر میزائل داغ دئیے جاتے ہیں اور پھر ِان کی جوانمردی دیکھئے خود سے ہی ان کی طرف سے معذرت کا پیغام بھی سنا دیتے ہیں، پر اگلے روز دو میزائل اور آ کر آپ کے فوجیوں کو شہید کر کے ان کی معذرت کو حقیقی رنگ دے دیتے ہیں۔

وفاق کی طرف سے فاٹا، سوات بلوچستان میں آپریشن بند کر دینے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ صوبوں کی حکومتیں ان کے ساتھ معائدے کر رہی ہوتی ہیں۔ اور امن کی فضا قائم کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہوتی ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا آپ کو فوراً ہی تین سو چیک پوسٹیں بنانی پڑ گئی، آپریشن بھی شروع کرنا پڑا اور پھر اس کی بھاگ ڈور بھی آرمی کے حوالے کر دی۔معلوم نہیں نہ تو صوبوں کو نہ ہی اتحادیوں کو کہ آپ کو کیا مشکل آن پڑی۔

اتحادی بنا کے بڑے بھائی اور پھر اپنا وزیراعظم تک کہہ دیتے ہو مگر کون سی مجبوری آن پڑی کہ اس کے کاغزاتِ نامزدگی تک مسترد کرانے پڑے، جب دیکھا کہ عوام میں نفرت زیادہ بڑھ گئی ہے تو سیاسی ورکر کی طرح صدر کو ہٹانے کے بڑے بڑے نعرے لگا دیے مگر پھر چپ لگ گئی کیوں؟ f/16 اور امداد کا حصول کیسے ممکن ہوا؟ تمام اہم عہدوں پر آج بھی وہی پرانے ملک قیوم بیٹھے ہیں کیوں؟ حکومت بھی کر رہے ہو اور احتجاج بھی، دہرنا بھی ہڑتال بھی یہ کیا کر رہے ہو اور کس کو دھوکہ دے رہے ہو۔؟

مسائل کا اگر واقعی ہی حل چاہتے ہو تو کسی پڑے لکھے، مہذب ، ڈیموکریٹک ،ایڈوانس اور سپر پاور سے پوچھنے کی بجائے اشفاق احمد کے اس محب الوطن بزرگ جو کسی درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا اپنے اس بیٹے کا انتظار کر رہا ہے جو بوڑھے باپ اور معصوم بچوں کو کھانا دینے کے لئے آٹا لینے لمبی قطار میں کھڑا تھا مگر واپس نہ آ سکا معلوم نہیں کسی خود کش حملے کا شکار ہو گیا، کسی کا ہم شکل ہونے کی وجہ سے اٹھا لیا گیا، کسی اتحادی کے اندھے میزائل کا نشانہ بنایا اپنوں کے کسی خوش آمدی آپریشن کی نظر ہو گیا۔ وہ بزرگ تمہیں درست مشورہ دے گا اور بتائے گا کہ دہشت گردی، بیرونی امداد، بیرونی دباؤ، خطرات، آٹا، بجلی سمیت مشرف کی بیماری یا ججز کی بحالی تمام کا حل صرف چند الفاظ میں ۔ کسی اسّی یا سو نکات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یوں دھوکہ کھانے اور دھوکہ دینے والے نشانِ عظمت نہیں بلکہ نشانِ عبرت بن جایا کرتے ہیں۔ فیصلہ کر لو کہ کیا بننا چاہتے ہو؟

ربِ زوالجلال سے دعا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو بھی اپنے اعمال اور اپنا قبلہ درست کرنے کی توفیق دے تاکہ ہمارے حکمران ہم پر عذاب نہیں بلکہ کرم اور عنایت بن کر آئیں۔ امین

جی ہی راجہ صاحب ہم سب آپ کی دعا کے جواب میں صدق دل سے آمین کی صدائیں بلند کرتے ہیں اس ایمان اور یقین کے ساتھ کہ واقعی سب کچھ حکمرانوں کا ہی کیا دھرا نہیں ہوتا بلکہ اس کی زمہ داری ہم سب پر بھی لازم ہوتی ہے۔

اللہ عزوجل ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں مزید زلت و رسوائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495322 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.