گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو نشان ِامتیاز، خدمات کیا ہیں؟

سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عشرت العباد خان کو 27 دسمبر 2002 کو صوبہ سندھ کے گورنر کے طور پرنامزد کیا۔ سب سے طویل عرصہ تک گورنر شپ کا اعزاز رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد خان کے بحیثیت گورنر سندھ دس سال مکمل ہوگئے ہیں۔ 2مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عشرت العباد خان پاکستان کے سب سے کم عمر گورنر ہیں۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو صدر آصف علی زرداری کی جانب سے نشان ِ امتیاز پیش کیا گیا۔ نشان ِ امتیاز دینے کی وجہ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی وہ پیشہ ورانہ خدمات ہیں جو انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری،تعلیم، امن و امان کے قیام، فن و ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں سر انجام دیں ہیں۔گورنرصاحب نےساڑے پانچ سال سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں اور ساڑے چار سال صدرآصف علی زرداری کے دور حکومت میں گذارے ہیں۔ گورنرصاحب کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، منکسر المزاج اور پرخلوص انسان ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ڈاوُ میڈیکل کالج کراچی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئےسےمتحدہ قومی موومنٹ کے طلبہ ونگ پلیٹ فارم سے کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور 1990میں ہاوسنگ ٹاون پلاننگ کے وزیر مقرر ہوئے۔ 1992 میں جب متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف نواز شریف حکومت نے آپریشن کا آغاز کیا تو وہ برطانیہ چلے گئےاورطویل عرصے تک برطانیہ میں جلا وطن رہے۔گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے انصار برنی کے ساتھ ملکرصومالی قزاقوں سے پاکستانی اوردوسرئے ملکوں کے باشندوں کو رہاکروانے کے لیےجو کامیاب کوششیں کیں، وہ انتہائی قابل تعریف اور انسان دوستی کی بہترین مثال ہے، عالمی سطح پر بھی اُن کو اس پر کافی شہرت ملی۔

محترم گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان صاحب آپکونشان ِ امتیاز ملنے پر آپ ہی کے شہرکراچی سے تعلق ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے مجھے آپکو مبارک باد دینا لازمی ہوتا ہے مگر آپکی جن خدمات پر یعنی غیر ملکی سرمایہ کاری،تعلیم، امن و امان کے قیام، فن و ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات ان میں سے ایک کے بھی بارئے میں بھی میرئے پاس جو معلومات ہیں وہ اچھی نہیں ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاری: محترم گورنر سندھ 16 جولائی 2012 کی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے باعث مالی سال 12-2011 میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حجم میں 65 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مرکزی بینک کے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 12-2011 میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 68 کروڑ ڈالر رہا جو مالی سال 11-2010ء میں 1 ارب 90 کروڑ ڈالر سے بھی زائد تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق خوراک کے شعبے میں 61 فیصد، توانائی کے شعبے میں 154 فیصد اور کمیونی کیشن میں 800 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔2002 میں ایک امریکی ڈالر 62 روپے کا تھا جو آج 98 روپے کا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صوبائی معاملہ نہیں ہے لہذا اسے چھوڑتے ہیں۔

تعلیم : محترم گورنر سندھ تعلیم کے شعبے کا حال کیا ہے وہ بھی سن لیں ۔ آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سندھ کے ستر فیصد پرائمری اسکولوں میں طلبہ کو سارے دن میں صرف پندرہ منٹ پڑھایا جاتا ہے۔تحقیق کے نتائج کے مطابق بیس فیصد اساتذہ بیس منٹ سے زائد اور دس فیصد پانچ منٹ سے بھی کم وقت تک پڑھاتے ہیں۔ یہ تحقیق چوتھی اور پانچویں کلاس کے طالب علموں پر کی گئی ہے۔تحقیق کے مطابق ایک ہی معاشی اور سماجی پس منظر کے باوجود ان اضلاع کے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں، مٹیاری، خیرپور اور سکھر کی کارکردگی ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈہ الہٰ یار سے مختلف رہی۔اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چھپّن فیصد طالب علم روزانہ اسکول جاتے ہیں جبکہ چوالیس فیصد مسلسل غیر حاضر رہتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اسکول میں صنفی امتیاز بھی نظر آیا جس کے تحت بچیوں کے اسکول جانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اساتذہ کی بھرتی میرٹ پر نہیں بلکہ اقراپروری پر کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اسکول سے غیر حاضر رہتا ہے اگر کوئی استاداسکول جاتا بھی ہے تو اس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا سکے۔سندھ میں تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے لیے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی کمیشن اور دیگر عالمی ترقیاتی ادارے صوبائی حکومت کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ مگرتعلیم کے شعبے میں حکومت کے ساتھ ساتھ ڈونرز کی بھی مکمل ناکامی سامنے آرہی ہے کیونکہ 2002 سےدعوے کیے جارہے ہیں کہ تعلیم تک رسائی اور معیاری میں بہتری لائی جائےگی مگر صورتحال دن بدن بہتری کے بجائے ابتری کی طرف جا رہی ہے۔آپکویاد ہوگا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے آپکے نام ایک خط لکھا تھا جس میں سی ایس ایس کے امتحانات میں سندھ سے پاس ہونے والے امیدواروں کی روز بروزکم ہوتی تعداد پرگہری تشویش کااظہارکیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نہ صرف پاس ہونے والے امیدواروں کی تعدادکم ہوئی ہے بلکہ سندھ کے لیے دستیاب کوٹہ کے حوالے سے بھی امیدوارکم ہوئے ہیں، جس کا اندازہ 2000 سے 2010کے اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوگا کہ سندھ کا کوٹہ 19 فیصد ہے لیکن پاس ہونے والے امیدواروں کی تعداد بتدریج کم ہوکر7 فیصد پرآگئی ہے۔جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کے مطابق صوبے میں تعلیم کا معیار زوال پذیر ہورہا ہے جس کی وجہ سے سندھ سے مقابلے کے اس امتحان میں حصہ لینے والے امیدوار دوسرے صوبوں کے امیدواروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

امن و امان کے قیام: محترم گورنر سندھ امن و امان کے قیام کے حوالے سے سندھ کے لوگ اور خاصکر کراچی کے لوگ روزانہ کی ہڑتالوں، لوٹ مار، بھتہ خوری، لاقانونیت، قتل وغارت گری اور دہشت گردی سے نہ صرف معاشی طور پربلکہ ذہنی طور پربھی دیوالیہ ہوچکے ہں ۔ کراچی کا شاید ہی کوئی خوش نصیب ہوگا کہ وہ یا اسکے گھر کا کوئی فردلوٹ ماریا بھتہ خوری کا شکار نہ ہوا ہو۔عام شہری سے اگر راستے میں کوئی پتہ پوچھ لے یا کوئی اجنبی چہرہ اسکے دروازے پر آجاے تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور اسکو اپنی جان ومال کی فکر پڑجاتی ہے۔ 2002 سے ابتک کراچی میں قتل ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے، ان میں ہلاک ہونے والے ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، اغوا، زیادتی، ذاتی جھگڑے، سیاسی جھگڑے اور فرقہ واریت کے شکار ہوئے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے5 جولائی 2011 کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ"2005 سے 2010 تک چھ سالوں میں 8913 افراد قتل ہوئے۔ سب سے زیادہ 798 افراد اغوا کے بعد قتل کئے گئے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر 116 اور براہ راست گولیاں لگنے سے 238 افراد قتل ہوئے۔ لیاری گینگ وار میں مجموعی طور پر 216 مرد، 3بچے اور 7 خواتین کا قتل ہوا۔ لسانی بنیادوں پر 296 افراد قتل ہوئے"۔2012 میں دو ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوچکے ہیں ۔آج کراچی کو جو دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے جس کو ہم روشنیوں کا شہر کہتے تھے اب لاقانونیت اور لاشوں کا شہر کہا جاےَ تو بیجا نہ ہوگا۔ انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ہر روز ایک عام سی بات ہوگی ہے آج دس مرگے اور آج بارہ۔ بے گناہ قتل ہونے والے کی تو شناخت ہو جاتی ہے لیکن قتل کس نے کیا یہ کبھی معلوم نہیں ہوتا۔ حال ہی میں بغیرکسی وجہ کے شہر میں پولیو کی دوا پلانے والی پانچ خواتین کو ہلاک کردیا گیا جسکی وجہ سے پولیو مہم بند کردی گی۔ یہ خواتین جو ایک مقدس فریضہ انجام دے رہی تھیں، ہماری آنے والی نسل کو محتاج اور اپاہج بننے سے بچارہی تھیں ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے لیے تھوڑا بہت رزق حلال صرف 250 روپے روزانہ بھی کمارہی تھیں بغیر کسی وجہ کے ہلاک کردی گیں۔جان ومال کی حفاظت ایسے ہی ہے جیسے کسی ہوٹل کے مسافر کا سامان، جہاں ہوٹل انتظامہ کی جانب سے ایک نوٹس میں لکھا ہوتا ہے کہ اپنے سامان کی خود حفاظت کریں انتظامیہ کسی بھی نقصان کی ذمیدار نہیں ہوگی۔اسی طرح کسی لکھے ہوئے نوٹس کے بغیرکراچی کا ہر شہری جانتا ہے کہ اُسکے جان ومال کی ذمیداری خود اُس پر ہے، حکومت کسی بھی شہری کے جان ومال کی ذمیدار نہیں ہے۔ قانون کسی بھی مجرم کو پکڑنے کا ذمیدار نہیں، اسکے علاوہ پورئے سندھ میں وڈیروں کے ظلم عام ہیں، قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصرکھلے عام جرائم کرتے ہیں ۔ کاروکاری عام ہے، ڈاکو آزادانہ گھومتے ہیں۔

محترم گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان صاحب جس صوبہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری،تعلیم، امن و امان کے قیام کے حالات اس قدر بھیانک ہوں وہاں، فن و ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کہاں باقی رہتے ہیں ۔ فن و ثقافت کبھی کراچی کی پہچان ہوا کرتے تھے اب نہ فن ہے اور نہ ہی ثقافت ۔ بس فن آپ اسلہک چلانے اور ثقافت انسانی قتل کو کہہ لیں۔ ان حالات میں زندگی کے دیگر شعبہ جات زوال پزیر ہی ہونگے۔ آپکونشان ِ امتیاز غیر ملکی سرمایہ کاری،تعلیم، امن و امان کے قیام، فن و ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کی اچھی خدمات پر ملا ہے، مگر مھجے یاد ہے کہ خود آپکی پارٹی کے ممبران اسمبلی کافی مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے سندھ اور خاصکر کراچی کی بدترین امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے نہ صرف واک آوٹ کرچکے ہیں بلکہ بھرپور احتجاج بھی کرچکے ہیں۔ بدترین امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے ہی آپکی پارٹی حکومت سے علیدگی بھی اختیار کرچکی ہے مگر نہ معلوم وجوہات کی وجہ سے پھر حکومت کا حصہ بن گی۔ آپکی پارٹی کے سربراہ کافی مرتبہ صدر، وزیراعظم، وزیراعلی سندھ اور آپکو گورنر مخاطب کرکے بدترین امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے بھرپور احتجاج بھی کرچکے ہیں۔ صوبہ سندھ میں انتہائی مخدوش، پریشان کن اور پر انتشار صورتحال کے باوجودآپکونشان ِ امتیازپیش کیا گیا جو سندھ اور خاصکر کراچی میں رہنے والوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس لیے میں آپکو مبارکباد دینے سے قاصر ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: یہ مضمون دسمبر 2012 میں لکھا گیا تھا
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 486900 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More