تحریکِ پاکستان میں علماء کرام
اور مشائخِ عظام کا کردار مصدقہ و مسلمہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اہلسنت
قائدین اور اکابرین نے " جمعیت علماء پاکستان" کی بنیاد رکھی۔ حضرت شاہ ابو
البرکات قادری ، سید احمد سعید کاظمی اور شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین
سیالوی رحمہم اللہ جیسے پاکباز اور بلند مرتبت بزرگوں کی کوششیں اس کی ترقی
اور کامیابی کی بنیاد بنیں۔ خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ کے بعد 1972
میں مولانا شاہ احمد نورانی کو اس کی قیادت سونپی گئی۔ بعد ازاں مولانا
عبدالستار خان نیازی مرحوم نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور جمعیت علماء
پاکستان (نیازی گروپ) کے نام سے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔ یوں اہلسنت کے
دو بڑے یعنی مولانا نورانی اور مولانا نیازی کے اختلافات کی بنا پر یہ
جماعت بٹ گئی۔
مولانا نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اس جمعیت علماء پاکستان کے حصؔے ایسے
ہی بکھرے اور بکے جیسے کسی رئیس کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد۔ جمعی
علماء پاکستان اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ ہر کسی نے حسبِ منشاء اس کو
اپنے ناموں سے منسوب کیا اور خود کو ہی اصل وارث قرار دیا، مرکزی، نیازی،
نورانی، سوادِاعظم، حقیقی اور نا جانے کون کون سے دھڑے بنا دئیے گئے۔
عدمِ اتحاد و اتفاق تمام خرابیوں کی جڑ ہوتی ہے اور اتفاق اسی وقت ہوتا ہے
جب عاجزی و خلوص ہو۔ علماء و مشائخ اور پیرانِ عظام کی ذاتی وجوہات اور
شخصی مفاد نے قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جماعتی دھڑوں کی اس
تقسیم نے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا اور صورتحال یہ ہے کہ
پاکستان کے وارث ہونے کا دعوٰی کرنے والوں کی قومی اسمبلی میں ایک ادھاری
نشست ہے جو کہ آنے والے انتخابات میں چھن جانے کی قوی امید ہے۔
جبہ و دستار، سجادہ نشینی، محراب و منبر اور مسجد و مزار کے جملہ حقوق اپنے
نام محفوظ کرنے کے لالچ نے علماء و مشائخ کی اکثریت کو خلوص، خدمتِ خلق،
دین کی اصل روح، عاجزی و انکساری، ملکی و ملی مفاد اور حق گوئی سے کوسوں
دور کر دیا ہے۔ سجادہ نشینی اور خلافت کے تنازعات نے اکثر مزارات کو
متنازعہ بنا دیا ہے، گدی کے حصول کے لئیے بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نظر
آرہے ہیں، مزار و مساجد سے ملحقہ جگہیں تقسیم ہوتی نظر آتی ہیں اور حد یہ
کہ بزرگان دین کے عرس وغیرہ بھی گدی نشینی اور سیاسی جھگڑوں کی شکل اختیار
کر لیتے ہیں۔ میں خود عینی شاہد ہوں کہ سجادہ نشینی کے تنازعہ پر قتل و
غارت گری ہوئی اور پھر وہ پیر زادے اور سید زادے جیل کی سلاخوں کے پیچھے
چلے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علماء و مشائخ جو قوم کے رہنما
سمجھے جاتے ہیں وہ اخلاقیات میں اس قدر پست ہو جائیں اور اسلاف کی اقدار سے
پھر جائیں گے تو پھر تفرقہ، جہالت اور پستی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایسے
میں وہ لوگ جو اندھی تقلید، ضرورت سے زیادہ احترام جو کہ پیروں کی پرستش تک
چلا جاتا ہے ، وہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور مسائل مزید الجھ جاتے
ہیں۔
گذشتہ چند مہینوں کا جائزہ لیں تو ایک اتحاد وجود میں آیا تھا جس میں
اہلِسنت کی تمام جماعتیں شامل تھیں اور اس کو عوامی سطح پر کچھ پذیرائی بھی
ملی۔ اس اتحاد کا جنازہ اس وقت نکل گیا جب دو آستانوں کے شہزادوں نے ایک
دوسرے کی "عظمت" کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ صاحبزادہ فضل کریم صاحب نے
ماضی کے "گستاخوں" یعنی گجراتی چوہدریوں سے ہاتھ ملا لیا تو آستانہ عالیہ
بکھی شریف کے پیر محفوظ الحق مشہدی صاحب کو بہترین موقع مل گیا، انہوں نے
ہنگامی بنیادوں پر خود کو خود ہی سنی اتحاد کونسل کا چئیرمین منتخب کر کے
حاجی فضل کریم صاحب کو برخاست کر دیا۔ اب یہ کھچڑی کچھ اس طرح سے پک چکی ہے
کہ حاجی فضل کریم صاحب کی "جمعیت" ق لیگ کے ساتھ، اویس نورانی صاحب کی
جمعیت ابھی تک کی خبروں کے مطابق کراچی اور لاہور کے درمیان اٹکی ہوئی ہے،
پیر محفوظ الحقؔ مشہدی کی جمعیت منڈی بہاءالدین سے لاہور براستہ اسلام
آباد، صاحبزادہ ابو الخیر ڈاکٹر زبیر کی جمعیت منصورہ سے القادسیہ مسجد
براستہ آستانہ حافظ طاہر اشرفی، نیازی صاحب کی جمعیت کے وارث حالتِ مراقبہ
میں اور ثروت اعجاز قادری صاحب کی سنی تحریک بھی رائیونڈ کے آستانے پر بیعت
کر چکی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان تما م جماعتوں کا نا تو
کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نا ہی جماعتی انتخابات ہوتے ہیں یعنی ان جماعتوں
کی قیادت بالکل ویسی ہی ہے جیسی ن لیگ، ق لیگ، پیپلز پارٹی وغیرہ۔ خاندانی
جمع "آستانی" پارٹیاں۔
اب آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ کتنی ساری "جمعیتیں" دریافت ہو چکی ہیں
اور بہت ساری ایسی ہیں جن کے نام مجھے بھی یاد نہیں۔ مذکورہ تمام جماعتیں
نظامِ مصطفٰیﷺ کے نفاذ سے لے کر پاکستان کی تعمیرِ نو تک کے تمام وعدے کرتی
ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سنی تحریک کے علاوہ ان میں سے کسی ایک جماعت کے
پاس بھی ملک بھر اپنی نمائندگی کے لئیے دفاتر ہیں نا نمائندے ۔ میڈیا پر
بات کرنے کے لئیے ان کے پاس کوئی مناسب نمائندہ نہیں۔ ان کا سیاسی منشور
جلسوں میں نعرے، سڑکوں پر ریلیاں، بینرز اور وال چاکنگ تک محدود ہے۔ سوشل
میڈیا ہر جماعت اور پارٹی کے لئیے ایک لازمی ہتھیار بن چکا ہے مگر یہ تمام
جماعتیں آپ کو سوشل میڈیا پر تو درکنار اپنی ویب سائٹ پر بھی نظر نہیں
آتیں۔ کارکنان کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں، ان رہنماؤں کی اکثریت کارکنان کے
پاس خود چل کر جانے کو اپنی ہتک تصور کرتی ہے کیونکہ وہ انسان نہیں بلکہ ان
کے مرید ہوتے ہیں اور اس معاشرے میں پیر اگر خود چل کر مرید کے کام کے لئیے
اس کے پاس جائے تو اسے گستاخی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ پیر کا کام تو
مرید سے پیسے کھانا ہے بے شک اس کے بچے بھوکے مر جائیں۔ اب تو دعا بھی
پیسوں کے عوض ہوتی ہے۔ (الا ماشاء اللہ)
خلوص، ذاتی مفاد سے بالاتری، وسیع تر ملی و ملکی مفاد کی ضرورت ہے اور یہ
اسی وقت ہو گا جب ان لوگوں کے اندر تبدیلی آئے گی۔ محدثِ اعظم مولانا محمد
سردار احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی،
شاہ ابو البرکات قادری رحمہم اللہ اجمعین جیسے بزرگان متحرک اور پر عزم
تھے۔ وہ قوم کے لئیے سوچتے تھے نا ں کہ اپنے آستانے کے لئیے۔ آج دنیا سے
جانے کے بعد اگر ان کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور ان کا نام تاریخ
میں موجود ہے تو اس کی وجہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی رضا میں راضی
رہنا تھا۔ آپ سب لوگ اپنے بڑوں کا صدقہ کھا رہے ہیں۔ یہ مت بھولئیے کہ آپ
کو جلد یا بدیر جواب بھی دینا ہے۔
ان کی اولادوں اور ان کے نام پر سیاست کرنے والوں سے گذارش ہے کہ قوم کے
ساتھ یہ کھیل بند کر دیں، اپنے آباء کی قبروں کے ساتھ بے وفائی نا کریں کہ
آپ لوگوں کی نالائقیاں اور دانستہ غلطیاں اسلام اور اسلاف کا نام خراب کر
رہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ ان کا نام لینا چھوڑ دیں تو شائد آپ کو
دو وقت کی روٹی بھی میسر نا آئے۔ آپ نسبتوں اور سلسلوں کا غلط استعمال کر
کے اس قدر عیاشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اگر آپ حقیقت میں ان کے غلام
اور مرید بن کر ان کے مسلک و طریق کے مطابق اس قوم کی خدمت کریں گے تو پھر
واقعی اللہ کے فضل سے آپ کی عزتوں کو چار چاند بھی لگ جائیں گے اور الجھے
ہوئے مسئلے بھی سلجھ جائیں گے۔ کرسی اور گدی کی جنگ چھوڑ کر خدمتِ خلق کو
اپنا شعار بنائیے اور ایسا بننے کے لئیے پہلے آپ کو عاجز ہونا پڑے گا۔ |