2013ءکے انتخابات کے حوالے سے
مقتدر قوتوں کو اب بھی یقین ہے کہ کسی نہ کسی نگراں سیٹ اپ کے ذریعے
انتخابات کا التوا کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔ جس کی پہلی کوشش ڈاکٹر طاہر
القادری کی جانب سے کی جا چکی ہے اور ان کیجانب سے جو مطالبات منظر عام پر
آئے ، اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں تھی کہ اگر ان کے مطالبات مان لئے
جاتے ہیں تو پاکستان میں انتقال اقتدار پُرامن اور فوری نہیں ہوسکے گا ۔
بعدازاں طاہر القادری کی جانب سے "انکشاف" بھی کیا گیا کہ اگر وہ پانچ منٹ
مزید دھرناجاری رکھتے تو ملک میں مارشل لاءلگ جاتا ۔ یعنی طاہر القادری نے
واضح طور پر فوج پر الزام دھر دیا کہ پاک فوج تو مارشل لاءچاہتی ہے لیکن ان
کی "وجہ"سے فوج کی یہ "سازش"ناکام ہوئی۔انھوں نے ملک گیر دھرنوں کا ایک نیا
شیڈول بھی جاری کردیا ہے ۔طاہر القادری پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ بھی
ہیں ، انھوں نے 2002ءکے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا تھا ، تاہم 2008ءکے
الیکشن میں ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے انھوں نے انتخابی سیاست میں حصہ
نہیں لیا اور اب بھی دوہری شہرےت کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا
انفرادی فیصلہ کیا ہے تاہم اپنی جماعت کے حوالے سے ان کا لائحہ عمل جلد
سامنے آئے گا کہ آیا وہ دوبارہ قسمت آزمائی کریں گے یا نہیں ۔تحریک انصاف
نے 2002ءمیں ملکی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا لیکن 2008ءکے الیکشن کا
بائیکاٹ کیا،پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے الیکشن تحلیل کرنے ، صدر سے
استعفی کے مطالبے سامنے آچکے ہیں۔جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی صدر سے
استعفا ، گورنرز سمےت الیکشن کمیشن کی تنظیم نو کے مطالبات سامنے آچکے
ہیں۔چونکہ زیر نظر مضمون کراچی کی سیاست پر مبنی ہے اس لئے سردست تحریک
انصاف ، پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ سنی تحریک کا بھی انتخابی جائزہ پیش
کیا جارہا ہے ۔دل چسپ صورتحال یہ ہے کہ سنی تحریک نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ
آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی میں سنی تحریک کا تنظیمی
ڈھانچہ ایم کیو ایم کی طرح یونٹس اور سیکٹر پر مبنی ہے نیز سنی تحریک کراچی
کے علاقوں میں یونٹ آفس کی شکل میں منظم ہے ،علاوہ ازیں بریلوی مسلک کی بنا
ءپر فقہی بنیادوں پر اُن آبادیوں میں سنی تحریک کا اثر رسوخ نہیں ہے جس طرح
تحریک انصاف ، پاکستان عوامی تحریک اور مسلم لیگ (ن) یا دیگر جماعتوں کا ہے
۔چونکہ سنی تحریک ، مسلم لیگ (ن) کی اتحادی بن چکی ہے اس لئے مسلم لیگ (ن)
کی جانب سے انتخابی مطالبوں کی از خودتائید کنندہ جماعت بھی بن چکی ہے۔
چونکہ اس سے قبل کے مضمون میں مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے تفصیل سے ذکر کیا
جاچکا ہے اس لئے زیر نظر تحریر صرف اجتماعی صورتحال پر مبنی ہے۔کراچی کی
بیالیس نشستوں میں سنی تحریک نے 2002ءمیں32جبکہ2008 ءمیں 12نشستوں میں حصہ
لیا تھا ۔تحریک انصاف نے32اور پی اے ٹی نے19 نشستوں پر 2002ءمیں انتخاب لڑا
۔2008ءمیں پی ٹی آئی شریک نہیں تھی ۔انکے انتخابی معرکہ کی کوشش کچھ اس طرح
سے ہے ۔
تینوں جماعتوں کے امیدواران کی تفصیل دیکھنے کے بعد سمجھنے میں الجھن نہیں
رہ جاتی ۔ کراچی میں پاکستان عوامی تحریک کا تو سیاسی سےٹ اپ ہی نہیں ہے
،2002ءمیںاس جماعت کا جو حال ہوا اور تمام امیدواران کی ضمانتیں ضبط ہوئیں
اس کے بعد کم از کم کراچی میں ان کا صور انقلاب کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ۔
اس لئے با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کراچی میں قادری صاحب نے
کوئی کوشش کی تو یقینی طور ان کے امیدواران کو اپنی ضمانتیں بچانا مشکل
ہوسکتی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف اپنے حلقہ احباب میں نوجوانوں کی شرکت پر
نازاں ہے اور انھیں یہ خوش فہمی ہے کہ نوجوان انھیں اسمبلیوں میں پہنچائیں
گے ، تاہم کراچی کی حد تک یہ مشاہدے میں آچکا ہے کہ ان کا تنظیمی سےٹ اپ
صرف اُن مخصوص علاقوں تک محدود ہے ، جہاںمتعددجماعتیںجن میں اے این پی ،
جمعےت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی موجود ہیں ، اسلئے سابقہ نتائج
کے حوالے سے اگر جماعت اسلامی ، تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ
کرتی ہے تو وہ اپنی سابقا نشستوں پر مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے گی ، لیکن
جماعت اسلامی اپنی نشستوں پر تحریک انصاف کو کلین چٹ نہیں دے سکتی ، کیونکہ
مجلس عمل کے پلیٹ فارم میں جماعت اسلامی ،جے یو آئی اور دےگر مذہبی جماعتوں
کے اتحاد نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے قریب ترین مقابلے کئے ، متحدہ
مجلس عمل کے حوالے سے تجزیہ اگلے مضمون میں پیش کیا جائے گا، چونکہ تحریک
انصاف کراچی کی عملی سیاست سے کوسوں دور ہے اور اُس کےلئے ممکن نظر نہیں
آتا کہ کراچی میں عضو معطل رہنے کے باوجود کوئی قابل ذکر کردار اداکرسکے ۔
تاہم تحریک انصاف کی جانب سے 2008ءکی طرح ویسے ہی بیان بازی جاری ہے جس طرح
اب کی جا رہی ہے ۔تحریک انصاف نے2008ءمیں صدر اور الیکشن کمیشن پر عدم
اعتماد کرتے ہوئے بائیکاٹ کیا تھا اور اب دوبارہ وہی مطالبے پیش کر رہی ہے
۔ اب اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ اگر 2008ءکی طرح ان کے یہ مطالبات
بھی پورے نہیں ہوئے تو کیا وہ الیکشن میں حصہ لےگی یا ماضی کی طرح بائیکاٹ
کرے گی؟۔
|
سنی تحریک 2002
|
سنی تحریک 2002ءمیں اپنے کچھ امیدوارن کی ضمانتیں ضبط ہونے سے بچا سکی تھی
، لیکن 2008ءمیں جہاں ان کی نشستوں کی تعداد 32سے کم ہو کر12رہ گئی تو ان
کے ووٹوں کی تعداد بھی ناقابل ضمانت بنی ۔سنی تحریک کا ایک حلقہ یہ بھی
کہتا ہے کہ انتخابات سے بائیکاٹ کیا گیا تھا تاہم الیکشن سے ایک دن قبل
اعلان کو بتیس نشستوں سے بارہ نشستوں پر باقاعدہ حصہ لینا ہی ظاہر کردےتا
ہے کہ سنی تحریک کو اپنی کامیابی کا یقین نہیں تھا اس لئے انھیں ملنے والے
ووٹ قابل ذکر بھی نہیں ہیں۔اس بار انھوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پورے ملک
میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔لہذا دیکھنا ہوگا کہ کراچی کی سیاست میں دو
ناکام جماعتوں کا اتحاد کتنا کامیاب ہوسکتا ہے ۔ تاہم سیاسی حلقے ایسے
ناکام کوشش قرار دیتے ہیں ۔ |