کون ہے جو ترقی نہیں کرنا چاہتا؟
معاملہ افراد تک محدود نہیں۔ قومیں بھی ترقی کرنا چاہتی ہیں، اِسی لیے تو
ترقیاتی منصوبے بجٹ کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ترقیاتی منصوبوں
کے لیے بجٹ کا ایک معقول حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ اور اِن منصوبوں کے مطلوبہ
نتائج بہت حد تک سامنے بھی آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ یہ سوچیں کہ ترقیاتی
منصوبوں سے قوم کو کیا ملتا ہے؟ قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ افراد کی ترقی
ہی تو مجموعی طور پر قومی ترقی کہلاتی ہے۔ ہماری حکومت نے یہ بات سمجھ لی،
مگر آپ اب تک سمجھ نہیں پارہے! ترقیاتی منصوبے اگر چند افراد کے لیے
”دَھنصوبے“ ہیں یعنی اُن پر دَھن کو دَھنادَھن برسا رہے ہیں تو اِسے بھی
قومی ترقی ہی سے تعبیر کرنا چاہیے کہ وہ افراد بھی تو قوم ہی کا حصہ ہیں!
کچھ لوگ سرکاری وسائل سے اپنی ترقی یقینی بنانے میںکامیاب ہو جاتے ہیں تو
سراہنے کے بجائے قوم اُن پر تنقید کرنے لگتی ہے! یہی ہوتا رہا تو ”ترقی“ کا
جذبہ ماند پڑتا جائے گا! اِس موقع پر ہمیں گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوا ایک
جملہ یاد آ رہا ہے کہ ”محنت کر، حسد نہ کر!“ اور کون نہیں جانتا کہ کرپشن
کے لیے بھی محنت تو کرنی ہی پڑتی ہے!
جب کسی شہر کو ترقی دی جاتی ہے تو چند مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ آپ سوچیں
گے ترقی سے کیسی مشکلات؟ پہلی تو آپ نے اوپر ملاحظہ فرمائی۔ یہی کہ چند لوگ
تیزی سے ترقی کر جاتے ہیں اور ہم اُنہیں کوستے رہ جاتے ہیں! اور پھر یہ
دیکھیے کہ ترقیاتی عمل سے شہر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہماری
آنکھیں عشروں سے دیکھنے کی عادی رہی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں۔ ایک عشرے کے دوران
کراچی میں ترقیاتی منصوبے اِتنی تیزی سے مکمل کئے گئے ہیں کہ شہر کا حُلیہ
بدل گیا ہے اور لوگ اپنے ہی شہر میں اجنبی سے ہوکر رہ گئے ہیں۔ کراچی جیسے
شہر میں کہیں نہ کہیں ترقیاتی کام چل ہی رہا ہوتا ہے۔ اور اِس ترقی میں
شہری بھی بھرپور حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں یعنی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں!
دُکھ صرف اِس بات کا ہیے کہ متعلقہ محکموں نے تکلیف دینے کے معاملے میں
سادہ و عالمگیر اخلاقی اُصول بھی نظر انداز کردیئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے
لیے سڑک کھودنے میں کوئی قباحت نہیں۔ سڑک کُھدے گی نہیں تو دوبارہ بنانے کے
نام پر کھانے کمانے کا موقع کیسے ملے گا؟ مگر صاحب! جی بھر کے پیٹ بھرنے کے
بعد گڑھوں کو بَھرنے پر بھی تو توجہ دی جانی چاہیے! بعض مقامات پر گڑھوں کو
اِس طرح بَھرا جاتا ہے کہ چھوٹی موٹی پہاڑی سی بن جاتی ہے۔ اِس پر سے موٹر
سائیکل یا کار گزارنے کے لیے لازم ہے کہ آپ نے سرکس میں کام کرکے کرتب باز
کی حیثیت سے شہرت بٹوری ہو! گڑھے کو بَھرنے کے بعد مِٹّی ڈھنگ سے لیول نہ
کی گئی ہو تو کبھی کبھی دُور سے دیکھنے پر تازہ قبر کا گمان ہوتا ہے اور
لوگ خواہ مخواہ عقیدت سے سَر جُھکائے گزرنے لگتے ہیں!
ویسے تو ہر سال جب بجٹ پیش کئے جانے میں کچھ دن رہ جاتے ہیں تو بچے کھچے
فنڈز کو خاصی عُجلت میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے مگر جب حکومت کی میعاد ختم
ہونے لگتی ہے تو اَدھورے منصوبوں کو جلد از جلد ”تکمیل“ کی منزل تک پہنچانے
یعنی ٹھکانے لگانے کی زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے تاکہ اِس تیزا تیزی میں فنڈز
کا ایک (اور یقیناً بڑا) حصہ ڈکار لیا جائے! فنڈز کو ٹھکانے لگانے کے لیے
کہیں کہیں اِتنی بے دردی سے کُھدائی ہو رہی ہوتی ہے کہ لگتا ہے کوئی قدیم
شہر دریافت کرنے کی کوشش جارہی ہے! آثار قدیمہ کا محکمہ چاہے تو کِسی بھی
جاتی ہوئی حکومت کا سہارا لیکر کئی اہم تاریخی سائٹس پر تیزی سے کُھدائی
کراسکتا ہے!
ترقیاتی منصوبوں کا سب سے بڑا کمال صرف یہ نہیں ہے کہ اِنہوں نے چند افراد
کو ملک کے مالدار ترین لوگوں میں شمار کئے جانے کے قابل بنادیا ہے بلکہ شہر
کو بھی کچھ سے کچھ بنا ڈالا ہے۔ مختلف علاقوں کا نقشہ کچھ ایسا بدلا ہے کہ
.... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
کراچی کِسی زمانے میں چورنگیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ لوگ چورنگیاں گھوم کر
آگے بڑھنے کے عادی تھے۔ یہ چورنگیاں ڈیٹنگ اسپاٹ کا کردار بھی ادا کیا کرتی
تھیں! اب ڈیٹنگ کے لیے جدید طور طریقے رائج ہوچکے ہیں۔ اور سگنل فری کلچر
میں ٹریفک سگنلز کی طرح چورنگیوں کی بھی گنجائش نہیں رہی! دِل کشادہ ہوں نہ
ہوں، سڑکوں کو زیادہ سے زیادہ کشادگی بخشنے کی تیاریاں جاری رہتی ہیں۔ اِس
مقصد کے تحت چورنگیاں توڑی جارہی ہیں۔ کہیں تو حالت یہ ہے کہ چورنگی توڑ
دیئے جانے کے باعث لوگوں کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کس طرف سے آئے ہیں
اور کس طرف کو جانا ہے! اب اگر کوئی صاحب موٹر سائیکل پر بیگم کو بٹھائے
کہیں شادی میں شرکت کے لئے جارہے ہیں تو چار چھ کلومیٹر آگے جاکر اُنھیں
خیال آتا ہے کہ غلط سڑک پر نکل آئے ہیں۔ یعنی
نکلے تھے کہاں جانے کیلئے، پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں!
واپس جاکر جب مطلوبہ شادی ہال تک پہنچتے ہیں تو مین گیٹ پر میزبان شکوہ
کرتا ہے۔ ”اب آئے ہیں آپ؟ نکاح کب کا ہوچکا ہے، اب تو کھانا بھی اسٹارٹ
ہونے والا ہے! یہاں تک آنے میں تو دیر لگادی مگر اب کھانے کی میز تک پہنچنے
میں دیر مت لگائیے گا۔“
کہیں کہیں تو چورنگی ختم کئے جانے پر لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جس پر
اُنھیں آگے بڑھنا ہے وہ راستہ کس طرف سے نکلتا ہے اور پھر وہ چورنگی کے چکر
کاٹنے لگتے ہیں۔ تیسرے چکر پر پولیس روک کر ارادے معلوم کرنے لگتی ہے!
عوام کو شہر کی ترقی دیکھ کر بھی خوش ہونا چاہیے کہ وہ خود بھلے ہی ترقی
نہیں کرسکے، شہر تو ترقیاتی عمل سے گزر رہا ہے اور اِس بہانے چند افراد پست
معیار کی زندگی کے کنویں سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر کبھی زمانہ
واقعی ترقی کرگیا تو عوام بھی تھوڑی بہت ترقی کر ہی لیں گے! اِس کے لیے سوچ
بدلنے کی ضرورت ہے۔ لوگ ترقی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ ہمیں یاد ہے جب
ہم اسکول کے زمانے میں کسی نہ کسی طرح ترقی کے قابل ہو جاتے تھے یعنی ”ترقی
پاس“ قرار پاتے تھے تو لوگ حسد کے مارے مذاق اُڑاتے تھے! بہت چھوٹی عمر ہی
سے ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ لفظ ترقی لوگوں کو پسند نہیں تب ہی تو قوم کو
ترقی سے کچھ خاص غرض نہیں! یوں ہم نے بھی قوم کی روش اپنالی اور تعلیم سمیت
کسی بھی معاملے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے! مگر اب یہ دیکھ کر دل کو خوشی
ہوتی ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں ہمارے شہر کو ”ترقی پاس“ قرار
دیکر لوگوں کو ترقی کی طرف لانا چاہتی ہے۔ جب ہم بار بار منصوبوں کے ساتھ
ساتھ لفظ ترقی سُنیں گے تو ترقی کو قبول بھی کرنے لگیں گے۔ |