محترم ساتھیوِ۔ السلام علیکم
بدعت حسنہ کا اس دور میں بہت چرچا ہے اور ہر دینی کام جس کی سند قرآن و سنت
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے نہ ہو اس کو بدعت حسنہ فرما کر دین
میں ثواب کی نیت سے جاری کردیا جاتا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ بھائی یہ
بدعت ہے تو فرماتے ہیں بدعت تو ہے مگر اچھی بدعت ہے اور عمر رضی اللہ عنہ
کا قول “نعمت ھذہ البدعہ “ سنا کر یہ فرمادیتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے
تراویح کی جماعت کروا کر یہ قول ادا یہ بدعت حسنہ کی دلیل ہے اور اس کے بعد
ائمہ اصولین جمہور فقہا پر یہ بھتان باندھتے ہیں کہ وہ اس قول کی بنا پر
بدعت حسنہ کے قائل تھے مگر ہم بڑے اطمینان سے اور پوری دینی امانت کے ساتھ
یہ بات آپ کے سامنے رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ائمہ
اربعہ جمہور فقہا ائمہ اصولین کسی بدعت حسنہ کے قائل نہ تھے اور نہ عمر رضی
اللہ عنہ کے اس قول “تعمت ھذہ البدعہ“ سے وہ کسی بدعت حسنہ کی دلیل لیتے
ہیں بلکہ وہ اس کو سنت ہی مانتے ہیں جو خلفاء راشدین نے جاری کی ہے اور
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اس پر اجماع ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہھم
نے اس کو امت میں جاری کیا ہے ذیل میں ہم وہ تمام اقوال نقل کریں گے جو امت
کے کبائر ائمہ فقہا و اصولین نے نقل کیے ہیں۔
سب سے پہلے ہم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتداء کرتے ہیں۔
(١) إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه (جب میں تم سے کوئی بات بیان کروں تو
اس میں ہرگز اضافہ نہ کرنا) (مسند احمد
رقم ٢٠١٣٨
اس حدیث میں واضح موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں اضافہ
کرنا سختی سے منع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ہر بات بیان کر
دی ہے۔ حدیث پیش ہے۔
فَقَالَ: صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ
مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ
لَكُمْ»(طبرانی الکبیر رقم 1647)
نبی اکرم ﷺنے فرمایا ہر وہ بات جو تمہیں جنت سے قریب کر دے اور جو جہنم سے
دور کردے وہ تم سے واضح طور پر بیان کر دی گئی ہے ۔
اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں "وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ
كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ
مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} [المائدة: 67](صحیح بخاری کتاب
التفسیر باب سورہ نجم رقم 4855) جو یہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے دین کی کوئی بات
چھپائی ہے وہ جھوٹا ہے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی "اے رسولﷺ پہنچا دیجئے
جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔
ان آیات اور احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ دین مکمل ہو چکا اوراس
میں کسی ذیادتی(بدعت حسنہ) کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں ایک لفظ کا بھی
زیادتی یا بدل نہیں ہو سکتا ہے اس کی دلیل پیش ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو ایک دعا سکھائی جس
کے اخر میں یہ الفاظ تھے “اللھم امنت بکتابک الذی انزلت ونبیک الذی ارسلت“
جب براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر
دہرائی تو “ونبیک“ کی جگہ “ورسولک“ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا نہیں “ونبیک الذی ارسلت“ کہو،(بخاری کتاب وضو رقم ٢٤٧)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا دین میں ایک لفظ کی تبدیلی بھی جائز نہیں جیسا ہم
نے مسند احمد کی حدیث سے واضح کیا ہے اور اس میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں ایک
لفظ نبیک کی جگہ رسولک کی تبدیلی بھی جائز نہیں جو دین کی تھوڑی بہت بھی
معلومات رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے مگر دین میں یہ
معمولی تبدلی بھی جائز نہیں ہے تو بدعت حسنہ جیسی چیز دین میں کیسی قابل
قبول ہو گی اب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ائمہ دین و فقہا و
اصولین کے اقوال نقل کر تے ہیں کہ وہ دین میں کسی بدعت حسنہ کے قائل نہیں
تھے اور وہ کیسے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں ان واضح ارشادات کے بعد بھی وہ
دین میں بدعت حسنہ کا قائل ہوں ایسا وہی ہو سکتا ہے جو ان ارشادات سے واقف
نہ ہو اور ہمارے ائمہ اور فقہا ان ارشادات سے لا علم نہیں تھے اس لئے وہ
دین میں کسی بدعت حسنہ کے قائل نہیں تھے
(١)
ان عمر بن الخطاب قال : يا أيها الناس لا عذر لأحد بعد السنّة في ضلالة
ركبها حسبها هدى ، ولا في هدى تركه حسبه ضلالة ، قد بينت الأمور ، وثبتت
الحجة ، وانقطع العذر (الفقیہ لخطیب البغدادی جلد ١ ص ١٥٥ السنہ ص ٩٥)
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی گمراہی کو ہدایت سمجھ کر عمل کرنے والے کے
لئے کوئی عذر نہیں ہے اور کسی ہدایت کو گمراہی سمجھ کر چھوڑنے والے کے لئے
کوئی عذر ہے تمام امور واضح کردیئے اور حجت تمام ہو چکی ہے
٢) ابن عمر فرماتے ہیں “ کل بدعہ ضلالہ و ان راھا الناس حسنہ(فتح الباری
ابن رجب حنبلی جلد ٥ ص٧٢٤)
ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے کتنا ہی اچھا سمجھیں۔
(٣) ابن عباس سے کسی نے پوچھا “عن اعتکاف المراہ فی مسجد بیتھا فقال
بدعہ(حوالہ ایضا جلد ٣ ص ٦٣١)
عورت اعتکاف کے لئے گھر میں بیٹھ سکتی ہے اپ نے فرمایا بدعت ہے۔
نیکی کا عمل ہے اور اعتکاف کی اصل بھی موجود ہے مگر اپ نے اس کو بدعت حسنہ
کہہ کر اجازت نہیں دی بلکہ رد کر دیا۔
(٤ ) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں “ من ابتدع فی الاسلام بدعہ یراھا
حسنہ فقد زعم محمدا خان الرسالہ(الاعتصام امام شاطبی ص ٥٧) جس نے دین میں
بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے دین میں خیانت کی ہے(نعوذ باللہ)
اگر سمجھو تو بہت بڑا قول ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔
(٥) وَالْبِدْعَةُ عَلَى قِسْمَيْنِ: تَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً
شَرْعِيَّةً، كَقَوْلِهِ: «فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ
بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» ، وَتَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً لُغَوِيَّةً، كَقَوْلِ
أَمِيرِ
المؤمنين عمر بن الخطاب عَنْ جَمْعِهِ إِيَّاهُمْ عَلَى صَلَاةِ
التَّرَاوِيحِ وَاسْتِمْرَارِهِمْ: نعمت البدعة هذه.(تفسیر ابن کثیر جلد 1
تحت آیت 117 ص277)بدعت دو قسم کی ہے جیسا کے حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت
ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ شرعی بدعت ہے اور کبھی یہ لغوی طور پر استعمال
ہوتی ہے جیسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ اچھی
بدعت ہے ۔
یہاں بدعت کا لفظ لغوی طور پر استعمال کیا ہے یعنی عرب میں بول چال کے لئے
یہ لفظ بولا جاتا ہے اس موقع پر انہوں نے یہ لفظ بولا تھا کیوں کہ تراویح
بدعت نہیں سنت ہے اور اس پر ائمہ کی تصریحات موجود ہیں جو ذیل میں اپ کو
ملے گی
(٦) امام حسن بن علی البربہاری(متوفی ٣٢٢) فرماتے ہیں “کسی آدمی کو اپنے
ایجاد کئے ہوئے کسی طریقے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کا عمل نہ ہو (عقائد اہل سنت و الجماعت ص ٣٨)
(٧) امام شاطبی کل بدعہ ضلالہ کے تحت فرماتے ہیں
فهذا الحديث يدلُّ بمنطوقه على أنَّ كلَّ عملٍ ليس عليه أمر الشارع ، فهو
مردود ، ويدلُّ بمفهومه على أنَّ كلَّ عمل عليه أمره ، فهو غير مردود ،
والمراد بأمره هاهنا : دينُه وشرعُه ،
" كالمراد بقوله في الرواية الأخرى : (( مَن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه
فهو ردّ
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہر عمل جس کا حکم شارح صلی الله علیہ وسلم نہیں
دیا وہ مردود ہے اس کا مفہوم یہ ہے کے ہر وہ عمل جس پر ہمارا حکم ہے وہ
مردود نہیں ہے اور یہاں امر سے مراد دین اور شریعت ہے جیسے دوسری جگہ
فرمایا جس بات پر ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے ۔
(٨) ابن عبدالبر فرماتے ہیں “قول عمر رضی اللہ عنہ نعمت البدعہ فی لسان
العرب: اختراع مالم یکن وابتداؤہ فما کان من ذلک فی الدین خلافا للسنہ التی
مضی علیھا العمل فتلک بدعہ لا خیر فیھا و واجب ذمھا و النھی عنھا والامر
باجتنابھا وھجران مبتدعھا اذا تبین لہ سوء مذھبہ وما کان من بدعہ لاتخالف
اصل الشریعہ والسنہ فتلک نعمت البدعہ کما قال عمر رضی اللہ عنہ ان اصل ما
فعلہ سنہ( الستذکار تحت رقم ٦٢٦١ )
نعمت البدعہ کے معنی لسان العرب میں موجود ہیں کہ ایسی ایجاد جس کی اصل
موجود نہ ہو ، اور دین میں ایسی ایجاد جس کا سنت میں میں کوئی عمل نہ ہو
اور اس بدعہ میں کوئی خیر نہیں ہے واجب ہے اسکی مذمت کرنا اور اس سے روکنا
اور اس بدعہ سے اجتناب کرنا اور جب بدعت کرنے والے کو اس برائی کے بارے میں
معلوم ہوجائے تو اس کو لوٹ آنا چاہئے اور وہ بدعت نہیں ہے جو شریعت اور سنت
کے مخالف نہ ہو جیسا نعمت البدعہ جو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ فعل
اپنی اصل میں سنت ہے۔
(٩) امام الزرکشی فرماتے ہیں
ای اول فما فی الشرع فموضوعہ للحداث المذموم و اذا ارید الممدوح قیدت ویکون
ذلک مجازا شرعیا حقیقہ لغویہ و فی الحدیث کہ بدعہ ضلاہ(المثور فی القواعد
الفقھیہ جلدا ص٨١ لفظ بدعہ)
سب سے پہلے شریعت میں احداث جو مذموم بھی ہوتا ہے اور ممدوح سے بھی مقید
کیا جاتا ہے اس کو مجازا شرعی کہہ دیا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ لغوی ہی
ہوتا ہے جیسا حدیث میں ہے کل بدعہ ضلالہ آیا ہے۔
(١٠) امام ابن ھمام حنفی “فصل فی قیام رمضان“ کے تحت فرماتے ہیں
تراویحہ(قولہ الاصح انھا سنہ لمواظبہ الخلفاء الرشدین)(فتح القدر ٢ -٤٤٧)
ذیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے۔
(١١) امام بغوی فرماتے ہیں
وقیام شھر رمضان جماعہ سنہ غیر بدعہ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم (علیکم بسنتی
وسنہ الخلفاء راشدین) (شرح السنہ جلد ٣ ص ٩٧ )
قیام رمضان کی جماعت سنت ہے بدعت نہیں ہے جیسا کہ نبی صلی الله علیه وسلم
کا فرمان ہے تم لازم تھام لو میری اور میرے خلفا راشدین کی سنت کو
(١٢) امام ابن قدامہ فرماتے ہیں
الجماعہ فی التراویح افضل وان کان رجل یقتدی بہ فصلاھا فی بیتہ خٍفت ان
یقتدی الناس بہ قد جاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اقتدوا بالخلفاء) (المغنی
جلد ٣ ص٤٧)
تراویح کی جماعت افضل ہے اس سے کہ ایک ادمی اپنے گھر میں اکیلا پڑھے تو
افضل ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ پڑھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے (میرے خلفاء کی اقتدا کرو۔)۔
(١٣) ابن حجر فرماتے ہیں
والمراد بها ما أحدث، وليس له أصل في الشرع ويسمى في عرف الشرع " بدعة "
وما كان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة
بخلاف اللغة فإن كل شيء أحدث على غير مثال يسمى بدعة سواء كان محمودا أو
مذموما(فتح الباری تحت رقم ٧٢٨٨)
جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہو اس کو بدعت کہتے ہیں اور جس کی اصل شریعت
میں ہو وہ بدعت نہیں ہوتی ہے اور شریعت میں صرف بدعت سیئہ ہوتی ہے اور اس
کے مخالف لغت میں ہر وہ چیز جس کی مثال سبقہ موجود نہ ہو وہ بدعت کہلاتی ہے
اور اس میں حسنہ بھی ہے اور سئیہ بھی ہوتی ہے۔
(١٤) امام نووی حدیث “من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو رد“ کے تحت بیان
کرتے ہیں۔
وهذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام وهو من جوامع كلمه صلى الله عليه
و سلم فإنه صريح في رد كل البدع والمخترعات وفي الرواية الثانية زيادة وهي
أنه قد يعاند بعض الفاعلين في بدعة(شرح مسلم نووی تحت رقم ١٧١٨)
یہ حدیث اسلام میں مکمل قاعدہ کلیہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ
مبارک جامع کلمات ہے ہر قسم کی بدعت کے رد میں اور دوسری حدیث میں بدعت
کرنے والوں کی مخالفت کے الفاظ زیادہ سخت ہیں۔
اب اس کی بعد بھی کوئی کہتا ہے کے دین میں بدعت حسنہ ہے اور عمر رضی الله
عنہ نے کوئی بدعت حسنہ کی ہے تو پھر میں یہی کہتا ہوں جیسے الله گمراہ کردے
اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا
امام نووی نے باب الترغیب فی قیام رمضان کے اگے لکھا ہے “وھو التراویح“
یعنی قیام رمضان اور تراویح ایک ہے قیام رمضان سنت ہے جس کی ترغیب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے دی مسلم رقم ١٧٣ اسی حدیث کے تحت رقمطراز ہیں “ المراد
بقیام رمضان صلاہ التراویح واتفق العلماء علی استحبابھا واختلفوا فی ان
الافضل صلاتھا منفردا فی بیتہ ام فی جماعہ فی المسجد؟ فقال الشافعی و جمھور
اصحابہ ابو حنیفہ و احمد رحمھم اللہ وبعض المالکیہ افضل صلاتھا جماعہ کما
فعلہ عمر رضی اللہ عنہ و الصحابہ رضی اللہ عنہم واستمر عمل(مسلم شرح النووی
رقم ١٧٣
قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ
ایک مستحب عمل ہے ہاں اس بات میں اختلاف ضرور ہے کہ یہ نماز اکیلے گھر میں
پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے امام شافعی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں کہ تمام جمہور ائمہ ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی امام
احمداور بعض مالکی علماء کا ماننا ہے کہ یہ نماز جماعت کے ساتھ افضل ہے
جیسا کے یہ عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
کا اس پر عمل ہے۔
یہ تمام اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ٨٠٠ ھجری تک کے ائمہ
محدثین اصولین کے ہیں ان میں سے کوئی بھی نعمت ھذہ البدعہ کے قول سے بدعت
حسنہ کا قائل ہے نہ عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح میں جمع کرنے کو بدعت حسنہ
کہتا ہے بلکہ وہ اسے سنت خلفاء راشدین مانتے ہیںاور دین میں کسی بدعت حسنہ
کے قائل نہیں ہیں جو اس کا قائل ہے وہ امام مالک رحمہ الله کے اس قول پر
ضرور غور کرے
“ من ابتدع فی الاسلام بدعہ یراھا حسنہ فقد زعم محمدا خان الرسالہ(الاعتصام
امام شاطبی ص ٥٧) جس نے دین میں بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا تو اس نے یہ
گمان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں خیانت کی ہے(نعوذ
باللہ) اب میری پڑھنے والے ہر قاری سے درخواست ہے کیا اپ واقعی ایسا سمجھتے
ہیں(نعوذباللہ) اللہ بدعت حسنہ اور اس کے ماننے والوں سے امت مسلمہ کو
بچائے جو رحمت للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت دار سمجھتے ہیں (نعوذ
باللہ
وما علینا الا البلاغ
محترم ساتھیوِ۔ السلام علیکم
بدعت حسنہ کا اس دور میں بہت چرچا ہے اور ہر دینی کام جس کی سند قرآن و سنت
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے نہ ہو اس کو بدعت حسنہ فرما کر دین
میں ثواب کی نیت سے جاری کردیا جاتا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ بھائی یہ
بدعت ہے تو فرماتے ہیں بدعت تو ہے مگر اچھی بدعت ہے اور عمر رضی اللہ عنہ
کا قول “نعمت ھذہ البدعہ “ سنا کر یہ فرمادیتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے
تراویح کی جماعت کروا کر یہ قول ادا یہ بدعت حسنہ کی دلیل ہے اور اس کے بعد
ائمہ اصولین جمہور فقہا پر یہ بھتان باندھتے ہیں کہ وہ اس قول کی بنا پر
بدعت حسنہ کے قائل تھے مگر ہم بڑے اطمینان سے اور پوری دینی امانت کے ساتھ
یہ بات آپ کے سامنے رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ائمہ
اربعہ جمہور فقہا ائمہ اصولین کسی بدعت حسنہ کے قائل نہ تھے اور نہ عمر رضی
اللہ عنہ کے اس قول “تعمت ھذہ البدعہ“ سے وہ کسی بدعت حسنہ کی دلیل لیتے
ہیں بلکہ وہ اس کو سنت ہی مانتے ہیں جو خلفاء راشدین نے جاری کی ہے اور
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اس پر اجماع ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہھم
نے اس کو امت میں جاری کیا ہے ذیل میں ہم وہ تمام اقوال نقل کریں گے جو امت
کے کبائر ائمہ فقہا و اصولین نے نقل کیے ہیں۔
سب سے پہلے ہم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتداء کرتے ہیں۔
(١) إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه (جب میں تم سے کوئی بات بیان کروں تو
اس میں ہرگز اضافہ نہ کرنا) (مسند احمد
رقم ٢٠١٣٨
اس حدیث میں واضح موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں اضافہ
کرنا سختی سے منع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ہر بات بیان کر
دی ہے۔ حدیث پیش ہے۔
فَقَالَ: صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ
مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ
لَكُمْ»(طبرانی الکبیر رقم 1647)
نبی اکرم ﷺنے فرمایا ہر وہ بات جو تمہیں جنت سے قریب کر دے اور جو جہنم سے
دور کردے وہ تم سے واضح طور پر بیان کر دی گئی ہے ۔
اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں "وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ
كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ
مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} [المائدة: 67](صحیح بخاری کتاب
التفسیر باب سورہ نجم رقم 4855) جو یہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے دین کی کوئی بات
چھپائی ہے وہ جھوٹا ہے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی "اے رسولﷺ پہنچا دیجئے
جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔
ان آیات اور احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ دین مکمل ہو چکا اوراس
میں کسی ذیادتی(بدعت حسنہ) کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں ایک لفظ کا بھی
زیادتی یا بدل نہیں ہو سکتا ہے اس کی دلیل پیش ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو ایک دعا سکھائی جس
کے اخر میں یہ الفاظ تھے “اللھم امنت بکتابک الذی انزلت ونبیک الذی ارسلت“
جب براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر
دہرائی تو “ونبیک“ کی جگہ “ورسولک“ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا نہیں “ونبیک الذی ارسلت“ کہو،(بخاری کتاب وضو رقم ٢٤٧)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا دین میں ایک لفظ کی تبدیلی بھی جائز نہیں جیسا ہم
نے مسند احمد کی حدیث سے واضح کیا ہے اور اس میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں ایک
لفظ نبیک کی جگہ رسولک کی تبدیلی بھی جائز نہیں جو دین کی تھوڑی بہت بھی
معلومات رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے مگر دین میں یہ
معمولی تبدلی بھی جائز نہیں ہے تو بدعت حسنہ جیسی چیز دین میں کیسی قابل
قبول ہو گی اب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ائمہ دین و فقہا و
اصولین کے اقوال نقل کر تے ہیں کہ وہ دین میں کسی بدعت حسنہ کے قائل نہیں
تھے اور وہ کیسے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں ان واضح ارشادات کے بعد بھی وہ
دین میں بدعت حسنہ کا قائل ہوں ایسا وہی ہو سکتا ہے جو ان ارشادات سے واقف
نہ ہو اور ہمارے ائمہ اور فقہا ان ارشادات سے لا علم نہیں تھے اس لئے وہ
دین میں کسی بدعت حسنہ کے قائل نہیں تھے
(١)
ان عمر بن الخطاب قال : يا أيها الناس لا عذر لأحد بعد السنّة في ضلالة
ركبها حسبها هدى ، ولا في هدى تركه حسبه ضلالة ، قد بينت الأمور ، وثبتت
الحجة ، وانقطع العذر (الفقیہ لخطیب البغدادی جلد ١ ص ١٥٥ السنہ ص ٩٥)
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی گمراہی کو ہدایت سمجھ کر عمل کرنے والے کے
لئے کوئی عذر نہیں ہے اور کسی ہدایت کو گمراہی سمجھ کر چھوڑنے والے کے لئے
کوئی عذر ہے تمام امور واضح کردیئے اور حجت تمام ہو چکی ہے
٢) ابن عمر فرماتے ہیں “ کل بدعہ ضلالہ و ان راھا الناس حسنہ(فتح الباری
ابن رجب حنبلی جلد ٥ ص٧٢٤)
ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے کتنا ہی اچھا سمجھیں۔
(٣) ابن عباس سے کسی نے پوچھا “عن اعتکاف المراہ فی مسجد بیتھا فقال
بدعہ(حوالہ ایضا جلد ٣ ص ٦٣١)
عورت اعتکاف کے لئے گھر میں بیٹھ سکتی ہے اپ نے فرمایا بدعت ہے۔
نیکی کا عمل ہے اور اعتکاف کی اصل بھی موجود ہے مگر اپ نے اس کو بدعت حسنہ
کہہ کر اجازت نہیں دی بلکہ رد کر دیا۔
(٤ ) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں “ من ابتدع فی الاسلام بدعہ یراھا
حسنہ فقد زعم محمدا خان الرسالہ(الاعتصام امام شاطبی ص ٥٧) جس نے دین میں
بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے دین میں خیانت کی ہے(نعوذ باللہ)
اگر سمجھو تو بہت بڑا قول ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔
(٥) وَالْبِدْعَةُ عَلَى قِسْمَيْنِ: تَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً
شَرْعِيَّةً، كَقَوْلِهِ: «فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ
بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» ، وَتَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً لُغَوِيَّةً، كَقَوْلِ
أَمِيرِ
المؤمنين عمر بن الخطاب عَنْ جَمْعِهِ إِيَّاهُمْ عَلَى صَلَاةِ
التَّرَاوِيحِ وَاسْتِمْرَارِهِمْ: نعمت البدعة هذه.(تفسیر ابن کثیر جلد 1
تحت آیت 117 ص277)بدعت دو قسم کی ہے جیسا کے حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت
ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ شرعی بدعت ہے اور کبھی یہ لغوی طور پر استعمال
ہوتی ہے جیسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ اچھی
بدعت ہے ۔
یہاں بدعت کا لفظ لغوی طور پر استعمال کیا ہے یعنی عرب میں بول چال کے لئے
یہ لفظ بولا جاتا ہے اس موقع پر انہوں نے یہ لفظ بولا تھا کیوں کہ تراویح
بدعت نہیں سنت ہے اور اس پر ائمہ کی تصریحات موجود ہیں جو ذیل میں اپ کو
ملے گی
(٦) امام حسن بن علی البربہاری(متوفی ٣٢٢) فرماتے ہیں “کسی آدمی کو اپنے
ایجاد کئے ہوئے کسی طریقے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کا عمل نہ ہو (عقائد اہل سنت و الجماعت ص ٣٨)
(٧) امام شاطبی کل بدعہ ضلالہ کے تحت فرماتے ہیں
فهذا الحديث يدلُّ بمنطوقه على أنَّ كلَّ عملٍ ليس عليه أمر الشارع ، فهو
مردود ، ويدلُّ بمفهومه على أنَّ كلَّ عمل عليه أمره ، فهو غير مردود ،
والمراد بأمره هاهنا : دينُه وشرعُه ،
" كالمراد بقوله في الرواية الأخرى : (( مَن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه
فهو ردّ
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہر عمل جس کا حکم شارح صلی الله علیہ وسلم نہیں
دیا وہ مردود ہے اس کا مفہوم یہ ہے کے ہر وہ عمل جس پر ہمارا حکم ہے وہ
مردود نہیں ہے اور یہاں امر سے مراد دین اور شریعت ہے جیسے دوسری جگہ
فرمایا جس بات پر ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے ۔
(٨) ابن عبدالبر فرماتے ہیں “قول عمر رضی اللہ عنہ نعمت البدعہ فی لسان
العرب: اختراع مالم یکن وابتداؤہ فما کان من ذلک فی الدین خلافا للسنہ التی
مضی علیھا العمل فتلک بدعہ لا خیر فیھا و واجب ذمھا و النھی عنھا والامر
باجتنابھا وھجران مبتدعھا اذا تبین لہ سوء مذھبہ وما کان من بدعہ لاتخالف
اصل الشریعہ والسنہ فتلک نعمت البدعہ کما قال عمر رضی اللہ عنہ ان اصل ما
فعلہ سنہ( الستذکار تحت رقم ٦٢٦١ )
نعمت البدعہ کے معنی لسان العرب میں موجود ہیں کہ ایسی ایجاد جس کی اصل
موجود نہ ہو ، اور دین میں ایسی ایجاد جس کا سنت میں میں کوئی عمل نہ ہو
اور اس بدعہ میں کوئی خیر نہیں ہے واجب ہے اسکی مذمت کرنا اور اس سے روکنا
اور اس بدعہ سے اجتناب کرنا اور جب بدعت کرنے والے کو اس برائی کے بارے میں
معلوم ہوجائے تو اس کو لوٹ آنا چاہئے اور وہ بدعت نہیں ہے جو شریعت اور سنت
کے مخالف نہ ہو جیسا نعمت البدعہ جو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ فعل
اپنی اصل میں سنت ہے۔
(٩) امام الزرکشی فرماتے ہیں
ای اول فما فی الشرع فموضوعہ للحداث المذموم و اذا ارید الممدوح قیدت ویکون
ذلک مجازا شرعیا حقیقہ لغویہ و فی الحدیث کہ بدعہ ضلاہ(المثور فی القواعد
الفقھیہ جلدا ص٨١ لفظ بدعہ)
سب سے پہلے شریعت میں احداث جو مذموم بھی ہوتا ہے اور ممدوح سے بھی مقید
کیا جاتا ہے اس کو مجازا شرعی کہہ دیا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ لغوی ہی
ہوتا ہے جیسا حدیث میں ہے کل بدعہ ضلالہ آیا ہے۔
(١٠) امام ابن ھمام حنفی “فصل فی قیام رمضان“ کے تحت فرماتے ہیں
تراویحہ(قولہ الاصح انھا سنہ لمواظبہ الخلفاء الرشدین)(فتح القدر ٢ -٤٤٧)
ذیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے۔
(١١) امام بغوی فرماتے ہیں
وقیام شھر رمضان جماعہ سنہ غیر بدعہ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم (علیکم بسنتی
وسنہ الخلفاء راشدین) (شرح السنہ جلد ٣ ص ٩٧ )
قیام رمضان کی جماعت سنت ہے بدعت نہیں ہے جیسا کہ نبی صلی الله علیه وسلم
کا فرمان ہے تم لازم تھام لو میری اور میرے خلفا راشدین کی سنت کو
(١٢) امام ابن قدامہ فرماتے ہیں
الجماعہ فی التراویح افضل وان کان رجل یقتدی بہ فصلاھا فی بیتہ خٍفت ان
یقتدی الناس بہ قد جاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اقتدوا بالخلفاء) (المغنی
جلد ٣ ص٤٧)
تراویح کی جماعت افضل ہے اس سے کہ ایک ادمی اپنے گھر میں اکیلا پڑھے تو
افضل ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ پڑھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے (میرے خلفاء کی اقتدا کرو۔)۔
(١٣) ابن حجر فرماتے ہیں
والمراد بها ما أحدث، وليس له أصل في الشرع ويسمى في عرف الشرع " بدعة "
وما كان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة
بخلاف اللغة فإن كل شيء أحدث على غير مثال يسمى بدعة سواء كان محمودا أو
مذموما(فتح الباری تحت رقم ٧٢٨٨)
جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہو اس کو بدعت کہتے ہیں اور جس کی اصل شریعت
میں ہو وہ بدعت نہیں ہوتی ہے اور شریعت میں صرف بدعت سیئہ ہوتی ہے اور اس
کے مخالف لغت میں ہر وہ چیز جس کی مثال سبقہ موجود نہ ہو وہ بدعت کہلاتی ہے
اور اس میں حسنہ بھی ہے اور سئیہ بھی ہوتی ہے۔
(١٤) امام نووی حدیث “من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو رد“ کے تحت بیان
کرتے ہیں۔
وهذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام وهو من جوامع كلمه صلى الله عليه
و سلم فإنه صريح في رد كل البدع والمخترعات وفي الرواية الثانية زيادة وهي
أنه قد يعاند بعض الفاعلين في بدعة(شرح مسلم نووی تحت رقم ١٧١٨)
یہ حدیث اسلام میں مکمل قاعدہ کلیہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ
مبارک جامع کلمات ہے ہر قسم کی بدعت کے رد میں اور دوسری حدیث میں بدعت
کرنے والوں کی مخالفت کے الفاظ زیادہ سخت ہیں۔
اب اس کی بعد بھی کوئی کہتا ہے کے دین میں بدعت حسنہ ہے اور عمر رضی الله
عنہ نے کوئی بدعت حسنہ کی ہے تو پھر میں یہی کہتا ہوں جیسے الله گمراہ کردے
اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا
امام نووی نے باب الترغیب فی قیام رمضان کے اگے لکھا ہے “وھو التراویح“
یعنی قیام رمضان اور تراویح ایک ہے قیام رمضان سنت ہے جس کی ترغیب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے دی مسلم رقم ١٧٣ اسی حدیث کے تحت رقمطراز ہیں “ المراد
بقیام رمضان صلاہ التراویح واتفق العلماء علی استحبابھا واختلفوا فی ان
الافضل صلاتھا منفردا فی بیتہ ام فی جماعہ فی المسجد؟ فقال الشافعی و جمھور
اصحابہ ابو حنیفہ و احمد رحمھم اللہ وبعض المالکیہ افضل صلاتھا جماعہ کما
فعلہ عمر رضی اللہ عنہ و الصحابہ رضی اللہ عنہم واستمر عمل(مسلم شرح النووی
رقم ١٧٣
قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ
ایک مستحب عمل ہے ہاں اس بات میں اختلاف ضرور ہے کہ یہ نماز اکیلے گھر میں
پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے امام شافعی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں کہ تمام جمہور ائمہ ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی امام
احمداور بعض مالکی علماء کا ماننا ہے کہ یہ نماز جماعت کے ساتھ افضل ہے
جیسا کے یہ عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
کا اس پر عمل ہے۔
یہ تمام اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ٨٠٠ ھجری تک کے ائمہ
محدثین اصولین کے ہیں ان میں سے کوئی بھی نعمت ھذہ البدعہ کے قول سے بدعت
حسنہ کا قائل ہے نہ عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح میں جمع کرنے کو بدعت حسنہ
کہتا ہے بلکہ وہ اسے سنت خلفاء راشدین مانتے ہیںاور دین میں کسی بدعت حسنہ
کے قائل نہیں ہیں جو اس کا قائل ہے وہ امام مالک رحمہ الله کے اس قول پر
ضرور غور کرے
“ من ابتدع فی الاسلام بدعہ یراھا حسنہ فقد زعم محمدا خان الرسالہ(الاعتصام
امام شاطبی ص ٥٧) جس نے دین میں بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا تو اس نے یہ
گمان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں خیانت کی ہے(نعوذ
باللہ) اب میری پڑھنے والے ہر قاری سے درخواست ہے کیا اپ واقعی ایسا سمجھتے
ہیں(نعوذباللہ) اللہ بدعت حسنہ اور اس کے ماننے والوں سے امت مسلمہ کو
بچائے جو رحمت للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت دار سمجھتے ہیں (نعوذ
باللہ
وما علینا الا البلاغ |