میں مسلمانوں کا حق ووٹ چھین لوں
گا۔۔۔توگڑیا
الطمش لشکری پوری
وشوہندوپریشد( VHP)کےمتعصب قومی صدراشوک سنگھل اوربین الاقوامی جنرل
سکریٹری پروین توگڑیا کی اشتعال انگیزبیان و تقریر کے بعدبہ بانگ دہل یہ
کہنے کو جی چاہتا ہے کہ:
تیری زبان کترنا بہت ضروری ہے ----- تجھے ہے مرض کہ تو باربار بولتا ہے
|
|
ہندوستان میں آزادی بیان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ملک میں قائم اخوت
ویکجہتی کی فضا کو مسموم کی جا ئے۔اور لوگوں میں افتراق و انتشار ،اور قتل
و غارت گری کا بازار گرم کیا جا ئے ۔ اسے حکومت کی نا اہلی کہا جا ئے یا
پھر سیکولر ملک پر کلنگ کا ٹیکا کہ اگر کو ئی مسلمان اسکالر اپنے جذبات کا
اظہار کرتا ہے تو اسے فورا ً گرفتار کر لیا جا تا ہے اوراشوک سنگھل
اورتوگڑیہ جیسے نا لائق ،متعصب ،جاہل،خرمنِ امن کو جہنم بنانے کی درینہ
خواہش رکھنے والے انسان دشمن افراد کو ملک میں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی
حکومت کی طرف سےکھلی چھوٹ دےدی جاتی ہے!جو کھلے عام پاگل کتوں کی طرح
بھونکتے پھررہے ہیں۔دہلی سے کشمیراور کشمیر سے ریاست ِحیدر آباد تک اپنی
تفرقہ آرا ئی گفتگو میں کبھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر زہر افشانی تو
کبھی ملک کے سیدھے سادھے ہندوبھائیوں کو سارے دیش کو گجرات بنا دینےکاخواب
دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تو کبھی خود کی غنڈہ گردی اور داداگیری کا یہ اعلان
کرتےہیں کہ میں حیدر آباد کوایودھیا بنا دوں گا۔۔۔یا پھر۔۔۔۔ میں مسلمانوں
کا حق ووٹ چھین لوں گا۔۔۔اگر اس پرغور کیا جائےتو یہ معلوم ہو جا ئے گا کہ
در واقع ان سامراجی ہتکنڈوں کی اشتعال انگیز باتیں جو سراسرعدلیہ کے
احکامات کی خلاف ورزی اور ملکی سالمیت و ہندو مسلم اتحاد کو بھی
چکناچورکرنے کے مرادف ہے۔لیکن اس کے باوجود حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی
دیکھ رہی ہے!
یہ انتہاپسندی در اصل ایک آتش فشاں ہے جس پر ہمارا نام نہادی سیکولر ملک
بیٹھا ہے اگراس قسم کے متعصب الذہن افرادکی گردنوں میں جلد از جلد پٹہ نہ
ڈالا گیا توایسی فرقہ وارانہ گفتگو اورزہرآلودہ تقریریں ملکی نظام کو درہم
برہم کر سکتی ہیں ۔کیونکہ عوام بھڑک گئی تو نہ ہی" سکولر" رہے گا اور نہ ہی
"ازم" رہے گا اس لیے کہ :
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار ---- اور کچھ لوگ بھی دیوانہ
بنادیتے ہیں
ماضی سے اب تک ہندوستان میں ہندواور مسلمان ۔۔۔۔ امن و محبت کا ایک مثالی
استعارہ رہے ہیں لیکن ان کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے ایسے ہی خبط الحواس
افراد ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے درپے ہیں جو عالمی سامراج کے نمک خوار
ہیں جنھیں ملک کی ترقی اورملک میں انسان دوستی کی فضا ناگوار گزر رہی ہے
لہذا ان کی دیرینہ آرزو ہے کہ وہ ملک میں ہنگامہ آرا ئی کریں جس سے ملکی
سالمیت کا نظام تار تار ہو جا ئے اور جو ترقی ہندوستان حاصل کر رہا ہے وہ
تنزلی کے دلدل میں پھنس جائے اور اس کا تیزی سے چلتا ہوا ترقی کا پہیہ رک
جائے۔آزادیٔ ہند کے بعد سےاب تک یہی وہ انتہاپسندتنظیمیں ہیں
جوبرطانیہ،امریکہ اور اسرا ئیل سے منسلک و مربوط تھیں اور ہیں جنھیں عالمی
سامراج نے اپنا آلۂ کار بنا رکھا ہے ۔جیسا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی ہندو
دہشت گردی کے حوالے سے ہندوستانی وزیر داخلہ شیل کمار شندے کا یہ بیان کہ
ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہندوستانیہ جنتا پارٹی اور انتہا
پسندہندو تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ
دی جاتی ہے۔کیونکہ سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ ہندوستان میں سنگھ پریوار پر
مثتمل ہندو انتہا پسندتنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور دہشت گردی میں ملوث
ہونے کی تصدیق کی گئی ہے ۔نیزہندوستان کے سیکریٹری داخلہ، آر کے سنگھ نے
مبینہ طور پر راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS کے دس انتہا پسند ہندوﺅں کی دہشت
گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کی تائید بھی کی ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی برٹش انڈیا کے زمانے سے ہی جاری
ہیں لیکن تقسیم ہند کے بعد مقتدر ہندوستانی حلقوں کی جانب سے ایسا پہلی
مرتبہ ہی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندر بیشتر دہشت گردی کی
کاروائیاں سنگھ پریوار سے منسلک سیاسی اور دہشت گرد تنظیمیں ہی کراتی ہیں
اور الزام مسلمانوں اور پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے ۔ اِس سے قبل سمجھوتہ
ایکسپریس ، مالے گاﺅں ، مکہ مسجد اور دہلی بم دھماکوں میں ہندوستانی انسداد
دہشت گردی کی ٹیم کے دو باضمیر افسروں ہیمنت کرکرے اور سالسکر کی
غیرجانبدارانہ تفتیش کے دوران اصل حقائق سامنے آنے پر یہ بات عیاں ہو گئی
تھی کہ دہشت گردی کی اِن واقعات میں پاکستانی شدت پسند تنظیمیں یا ISI نہیں
بلکہ ہندوستانیہ جنتا پارٹی کی حمایت یافتہ انتہا پسند ہندو توا تنظیمیں جن
میں ،آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد اور شیو سینا کے تربیت یافتہ کیڈر ملوث
ہیں جنہیں ہندوستانی فوج ، پولیس اور ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی RAW سے
منسلک انتہا پسند متعصب افسران کی حمایت حاصل ہے ۔ اِن میں سے چند انتہا
پسند ہندو عناصر بشمول کرنل پروہت کی نشان دہی باضمیر ہندوستانی تفتیشی
آفیسر ہیمنت کرکرے نے کی تھی جس کی پاداش میں اُنہیں دہشت گردی کی ایک منظم
واردات میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔۔۔۔۔۔
|
|
حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے طول و ارض میں، آر ایس ایس، کی قیادت میں ہندو
دہشت گردی کے تربیتی کیمپ عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں جس کی تصدیق 1972
میں آنجہانی جے پرکاش نرائن نے پٹنہ میں آر ایس ایس کے تربیتی کمپ کے
اختتامی اجلاس سے خطاب میں یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ ہندوستان میں اگر کوئی
طاقت پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہندوستان کے ساتھ ملا کر اکھنڈ ہندوستان بنا
سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف، آر ایس ایس، ہی ہے جس کی شدت پسندی کا اندازہ
اِس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ، آر ایس ایس، کے انتہا پسند ہندوﺅں نے
تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے طول و ارض میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور
جب اِس انسانی قتل عام کو روکنے کےلئے مہاتما گاندہی نے برت رکھنے کااعلان
کیا توہندو مہا سبھا اور ، آر ایس ایس ،کے انتہا پسند لیڈر نتھو رام گوڈژی
نے مہاتما گاندہی کو دن دیہاڑے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا، یہی عمل
ہیمنت کرکرے کے ساتھ دھرایا گیا جب اُنہوں نے ہندوستان میں بیشتر دہشت گردی
کے واقعات کا ذمہ دار ہندوستانی انتہا پسند ہندو تنظیموں کو ٹھہرایا اور اب
ہندوستانی وزیر داخلہ کمارشندے اور سیکریٹری داخلہ کے انکشافات کے بعد
اُنہیں بھی ،آر ایس ایس ، کے متعصب اور منظم پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا
رہا ہے ۔لہذاحکومت ہندکے سمجھدار دانشوروں اور سنجیدہ حکمرانوں سے
ہماری مختصر سی یہی گزارش ہے کہ اگر یہ اپنے سیکولر،آزاد اور جمہوری دیش
کی "سیکولرازم حکومت" کو سالمیت اور دوام بخشنا چاہتے ہیں تو ایسے افراد کو
فوراً اپنی حراست میں لے کر انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں اورملک میں اقلیت
کو تحفظ فراہم کرتے ہو ئے بغیر کسی تعصب کے ہر مشتعل مزاج متعصب افراداور
انتہا پسند گروہ کی بے سُر کی راگنی بند کرے،تا کہ ملک میں امن و محبت کا
ماحول پیدا ہو سکے۔
|
|
نوٹ:یاد رہے اس مضمون کو تیار کرنے کے لیے نیٹ سے بھی سہارا لیا گیا ہے |