محمد عبدالرشید جنید……جوائنٹ
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد
کسی بھی ملک میں اقلیتوں کو ان کے حقوق برابر دیئے جائیں تو ملک میں ترقی و
خوشحالی ہوسکتی ہے ورنہ اگر اقلیت تعلیمی، معاشی اور سماجی سطح پر پسماندہ
رہی تو ملک ترقی کے بجائے ہمیشہ انتشاری کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ ہندوستان
سب سے بڑا جمہوری ملک ہے یہاں پر مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں لیکن
ان تمام کے صرف مسلمانوں کو ہی ہر سطح پر امتیازی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
آزادی ہند کے بعد سے مسلمانوں پر کئی طرح سے زیادتیاں ہوتی رہی ہیں کبھی
فرقہ پرست سیاسی، سماجی وسرکاری عناصر نے ہندومسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش
کی تو کبھی مذہب کے نام پر مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا گیا اور ان کی
املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو
بھی شہید کیا گیا۔ آزادی ہند کے بعد سے فرقہ پرستی کا کھیل ملک کے مختلف
حصوں میں خاموشی سے کھیلا جاتا رہا لیکن آج یہ کھیل جس مضبوطی اور گھناؤنی
سازش کے تحت کھیلا جارہا ہے اس کی مثال بعض الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا
سے ظاہر ہے۔ آج ملک بھر میں کہیں پر بھی کوئی فساد ہوجائے یا کہیں پر بم
دھماکہ ہو تو سب سے پہلے بعض نیوز چینلس انڈین مجاہدین، لشکر طیبہ وغیرہ
ناموں کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں بعض اوقات ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ انڈین مجاہدین اور لشکر طیبہ وغیرہ جیسی تنظیموں کا گھٹ
جوڑ ان الکٹرانک میڈیا سے ہے اور یہ سب کارروائی ان ہی ٹیلی ویژن چینلس کی
سرگرمیوں اور ان کی جانب سے سب سے پہلے عوام میں اپنی خبر کی تشہیر کے لئے
ہے۔ حکومت اگر ان چینلس کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے تو یہ ان تعصب پرست
اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرسکتی ہے۔ سب سے پہلے حکومت ان چینلس کے
خلاف قانونی کارروائی کریں کیونکہ انہیں کس طرح پتہ چلا کہ دھماکہ کے فوری
بعد اپنی خبروں میں ان تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر ان چینلس کو
کوئی ای میل یا فون یا فیکس دستیاب ہوتا ہے تو اس کے لئے بھی ان کے خلاف
تحقیقات ہونی چاہیے۔
ہندوستان میں بم دھماکے کے کئی واقعات ہوئے ہیں جس میں مسلمانوں کو ہی
نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ٹی وی چینلس کو جتنا زہر اگلنا ہے نکالنے کی
کوشش کرتے ہیں اور اس کے بعد ہماری پولیس ان چیانلس سے دو ہاتھ آگے جانے کی
کوشش میں مسلمانوں کی فوراً گرفتاری عمل میں لاتی ہے اور ان معصوم مسلم
نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہوئے اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہونے کی کوشش
کرتی ہے۔
ہمارے اس عظیم جمہوری ملک میں فرض شناس،ایماندار، رشوت خوری سے پاک، تعصب
پرستی سے دور ایسے عہدیدار بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے آج ماضی میں ہوئے بم
دھماکوں کی جھوٹی گرفتاریاں بے نقاب ہوئی ہیں۔ کئی معصوم مسلم نوجوان جیل
کی صعوبتوں سے آزاد ہوئے ہیں اور کئی آج بھی ملک بھر کی مختلف جیلوں میں
سزائیں کاٹ رہے ہیں جو فرضی الزامات کے تحت گرفتار ہیں۔ہندو دہشت گردی ہو
کہ مسلم دہشت گردی کسی بھی مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام تو سلامتی
والا مذہب ہے اس کے ماننے والے بھی سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں اگر کبھی کوئی
سیاسی قائد یا مسلمان اپنے بیان بازی کے ذریعہ یا عملی طور پر کچھ کہہ دیتا
ہے تو اس کے پیچھے ان ہی تعصب پرست قائدین کے بیانات کا جواب ہوتا ہے۔
کیونکہ زیادہ تر مسلمان اس ملک میں خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں لیکن
متعصب ہندوتوا قائدین انہیں ایسا دیکھنا پسند نہیں کرتے اور آئے دن اپنے
شرانگیز اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو قائم رہنے
نہیں دیتے۔
اکبر الدین اویسی کی مبینہ تقریر کے خلاف جس طرح کا ماحول الکٹرانک میڈیا
نے پیدا کیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اکبر الدین اویسی کے خلاف ہی
نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اکبر الدین اویسی نے اپنی
تقریر میں جو بھی کہا اس کا عدلیہ فیصلہ کرے گی۔ اور پولیس نے بھی جس طرح
کے دفعات لگاکر انہیں حراست میں لی ہے اس کا بھی فیصلہ ہوگا جس کا ہم
مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سیکولرعوام کا ایقان ہے۔ اگر واقعی الکٹرانک
میڈیا ہو کہ پرنٹ میڈیا وہ جب اکبر الدین اویسی کے بیانات کو ملک سے غداری
قرار دیتا ہے تو پھر پروین توگڑیہ جیسے متعصب شر پسند قائدین کے بیانات پر
کوئی اعتراض کیوں نہیں؟مسلمانوں کو بھی دستور ہند میں مکمل حقوق فراہم کئے
گئے ہیں لہذا مسلمان بھی ان ہندوتوا قائدین کے خلاف مقدمات دائر کریں تاکہ
ملک میں ہندو مسلم اتحاد بحال رہے۔ یہی نہیں بلکہ تعصب پرست میڈیا کے خلاف
بھی مسلم ادارے و تنظمیں عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے ورنہ مستقبل میں ایک
اکبر الدین اویسی ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو ملک کا غدار کہا جائے گا۔
ہم مسلمانوں نے آزادی ہند کے بعد اپنے ملک سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے یہیں
رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس ملک کو سونے کی چڑیا بنانے میں ہمارے آبا و
اجداد نے اہم رول ادا کیا ہے۔ آزادی سے پہلے ہندوستان ایک خوشحال ملک کی
حیثیت سے جانا جاتا تھا اور آج بھی اس ملک کے عوام امن پسند ہیں اور امن و
امان کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوتوا قائدین کے شر انگیز بیانات کو سیکولر عوام
نظر انداز کرتے ہوئے اتحاد برقرار رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان
اپنے ملک کی عدلیہ پر بھروسہ کرتے ہیں، عدلیہ کے فیصلہ کو اہمیت دیتے ہوئے
اسے مانتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات بعض رشوت خور اور متعصب ججس کی
وجہ سے عدلیہ کے وقار پر آنچ آئی ہے ۔ لیکن فرض شناس اور انصاف پسند ججس نے
اپنے بیشتر مقدمات میں ایسی مثالیں قائم کئے ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا
جاسکتا۔
آج عالمی سطح پر جس طرح مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر رسوا کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے اس سے کون واقف نہیں ہے۔ ملک میں امن وا مان کی فضا کو بحال رکھنے
کے لئے حکومت اور پولیس کا اہم رول ہوتا ہے اگر پولیس غیر جانبدارانہ رویہ
اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرے گی تو ملک میں امن و امان
برقرار رہ سکتا ہے۔ معصوم شہریوں کی ناجائز گرفتاری سے ملک کے حالات بگڑ
سکتے ہیں ایک اچھے شہری پر الزامات عائد کئے جائیں تو اس کے بگڑنے کے
امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے لہذا پولیس کو چاہیے کہ وہ پوری
جانکاری کے بعد کسی بھی شخص کو حراست میں لیں۔ ہمارے ملک کے الکٹرانک میڈیا
کی خبروں کو سنتے ہوئے پولیس عمل پیرا ہوگی تو ملک میں امن و امان برقرار
ہونے کے بجائے مکمل طور پر فساد زدہ بن جائے گا اور اس کا تمام تر سہرا
الیکٹرانک میڈیا کے سر جائے گا اسی لئے مرکزی و ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ
وہ الیکٹرانک میڈیا ہو کہ پرنٹ میڈیا ان پر اپنی گرفت رکھے ۔ آزادی صحافت
کا مطلب یہ نہیں کہ جس پر جب چاہے جو چاہے الزامات عائد کردیئے جائیں ۔
میڈیا اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ملک کی ترقی و خوشحالی میں برابر
کی شریک ہوں نہ کہ تعصب پرستی میں۔ |