عتیق الرحمن رضوی ،نوری مشن
مالیگاؤں
محبت ایک پاکیزہ رشتہ ہے ....محبوب اپنے محب کی رِضا چاہتا ہے....محبوب وہ
سب کر گزرتا ہے جو محب کی رضا جوئی میں معاون ہو....ایسا کرنے میں اسے اپنی
ذات کے نقصان کی پروا نہیں ہوتی.... محبت ایسی ہی ہوتی ہے....یہ محبوب کو
دیوانہ بنا دیتی ہے....محبوب کو یادِ محب میں لذت آشنائی کے پیمانے ملتے
ہیں....محبوب اپنے محب کی اداﺅں کو اپنے اندر جلوہ گر کرنے کو سعادت تصور
کرتا ہے....اس کی ہر ہر ادا پر نثار ہوتا ہے....دل اس کی یادوں کی آماج گاہ
ہوتا ہے....گویا:
دل میں چھپا رکھی ہے تصویرِیار
جب ذرا نظر جھکائی دیکھ لی
سانسیں اس کے ذکر کی رسیا ہوتی ہیں....دھڑکنیں اس کے لیے چلتی ہیں.... حیاتِ
مستعار کا ایک ایک لمحہ اس کے لیے تج دیا جاتا ہے....جب عمرِ دو روزہ کے دن
پورے ہوجاتے ہیں.... اس وقت بھی ایک عاشق کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ محبوب
کے کوچے میں نثار ہو....اس کی آخری سانسیں محبوب کی گلیوں کا دیدار کرتے
نکلے....اس کی روح ان گلیوں میں پروا زکرتی جائے جہاں محبوب کی جلوہ گاہِ
ناز ہے....ایسے کچھ حالات ہوتے ہیں دنیاوی عاشقوں کے ....یہ وہ عشق ہے جو
فانی ہے....آج ہے کل نہیں....آج آپ کے ساتھ ہے، کل کسی کے ساتھ....آج آپ کی
تشنگی کا سامان ہے.... کل کسی اور کی.... یہ دنیا کی محبت ہوتی ہی بے وفا
ہے.... نہ اس نے کل کسی سے وفا کی....نہ اس سے آج وفا کی امید کی جاسکتی ہے....کیوں
کہ جو فانی ہے اس میں چین نہیں ....سکون تو بقا میں ہے....قرار تو دوام میں
ہے....یہ سکون یہ قرار عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ سلم میں ہے....
جان ہے عشقِ مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں
ہم اِس محبت کے دعوے دار ہیں .... نعرے لگاتے ہیں.... غلام ہیں غلام ہیں
رسول کے غلام ہیں.... غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے.... ہم اس دعوے میں
کتنے سچے ہیں .... خود احتسابی کریں.... اور دیکھیں ہمارا یہ دعویٰ خام تو
نہیں .... کیا ہم جس ذات سے محبت کا دم بھر رہے ہیں ان کی راہ پر چل رہے
ہیں؟ ....اس جہانِ جہاں آرا کے ایک وہ یار تھے جو اپنے محبوب کی فرماں
برداری میں کبھی چوں چرا نہ کی....یہی سچے تھے اپنے دعوائے محبت میں
....سنو سنو محبوب فرماتے ہیں:”جس نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی اللہ کی طرف
سے ذلت و رسوائی اس پر مسلط کر دی گئی“.... ایک اور جگہ ارشاد فرماتے
ہیں:”مجوس نے اپنی داڑھیاں کٹائیں اور مونچھیں بڑھائیں اور ہم ضرورمونچھیں
کٹاتے ہیںاور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔اور یہ فطرتِ انسان کے عین مطابق ہے“....
کسی نے ان کے یاروں سے اس حسنِ مجسم کے سراپا کے بارے میں پوچھابات چہرہ
زیبا کی چلی....حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:”گھنی داڑھی
تھی“....حضرت علی نے کہا:”گھنی داڑھی تھی“....یہ ان نفوس قدسیہ سے ہیں
جنہوں نے اپنے محبوب کا دیدار ماتھے کی آنکھوں سے کیا.... خوب
کیا....آنکھیں سیراب کیں....ایسے سیراب ہوئے کہ ایک ایک ادا پر جاں
نثارہوئے.... جب وہ محبوب کہیں چلتے تو ایک آگے سے ....ایک دائیں ....ایک
پیچھے.... ایک بائیں چلتے.... تاکہ کوئی حاسد ِاسلام ان کو گزند نہ پہنچا
سکے....ان کو کسی قسم کی ادنیٰ سی تکلیف تک نہ ہو....یہ تھے حقیقی محبت کے
دعوے دار....جو اپنے محبوب کے ایک ایک قول پر جان و دل حاضر کر دیتے.... ہم
بھی دعویٰ کرتے ہیں....مگر ہم نے کبھی غور کیا کہ کہ ہماری کٹی ہوئی داڑھی
سے انہیں تکلیف پہنچتی ہوگی.... وہ ہمارے لیے رات رات بھر قیام کریں....
ہمارے بھلے کو ....ہماری بخششوں کی دعا کریں.... ہم ان کے ایک فرمان پر عمل
پیرا نہیں ہو سکتے....سنو ،محبوبِ رب العالمین فرماتے ہیں:”جس نے مجھے
تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی“....ہم جن سے محبت کا دعویٰ کر
رہے ہیں ان کے چہرے پر نورانی داڑھی تھی انھوں نے اپنی امت کو بھی تلقین کی
....محبوب نے آتش پرستوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:”یہ اپنی لبیں بڑھاتے ہیں
اور داڑھیاں مونڈتے ہیںتم ان کے خلاف کرو“....کیا ہم اب بھی داڑھی منڈوائیں
گے....یہ کیسا دعویٰ ہے....یہ کیسی محبت ہے....اور یہ کیسی مسلمانی
ہے....؟....للہ ذرا تو غور سے کام لو! |