انتخابات ونتخابات

سیاست دانوں سے بھر ی بس ایک گاﺅں سے گذرتی ہوئی کھائی میں گرگئی ، چیخ و پکار سن کر چند دیہاتی اس طرف پہنچے اور کھائی میں مٹی ڈال کر اسے مسافروں سمیت دفن کردیا۔ دو روز بعد پولیس موقعہ پر پہنچی ،پولیس افسر نے گاﺅں والوں سے بس کے حادثے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے سچ بیان کردیا ، انسپکڑ نے بھی لمبا سانس لیا اور پوچھا کہ کیا سب مرچکے تھے؟ ان لوگوں نے کہا نہیں کچھ لوگ چلاکر کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں اور سیاست دان ہیں مگر ہم سب نے سوچا کہ ان کی بات پر یقین کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے یہ تو اسی طرح چیخ ، چیخ کر جھوٹ بولتے ہیں۔کھائی میں گرنے کے بعد کون
بچ سکتا ہے بھلا۔

یہ لطیفہ مجھے ملک کے سیاست دانوںکے نت نئے بیانات کے باعث یاد آیا۔اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے سیاست دان جھوٹ نہیں بولتے تو یہ جھوٹ کے ساتھ مذاق یا سب سے بڑا جھوٹ ہوگا۔سنجیدہ بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست دان جھوٹ سچائی کے ساتھ بولتے ہیں سچائی یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ بول رہے ہیں یہ ہی سچ ہے۔ ویسے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اکثر سیاسی شخصیات سچ اور جھوٹ کے چکر میں پڑے بغیر صرف بولے جاتی ہیں۔ظاہر ہے سب مولانا طاہر القادری کی طرح باہمت ہو نہیں سکتے جو اللہ کی قسم کھا کر لوگوں کو یقین دلاتے ہیں۔

صدر مملکت آصف زرداری کے بارے میں مسلم لیگ کے میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت دھوکے دئیے اب ان کی بات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن میاں صاحب کو جب سچ بولنا ہوتا ہے تو وہ سیدھے سعودی عرب چلے جاتے ہیں،شائد ان کا خیال ہوکہ اگر سچ ہی بولنا ہے تو مدینہ کے قرب میں ہی بولا جائے ثواب زیادہ ملے گا۔

عام لوگوں کا خیال تھا کہ انتخابات قریب ہیں اس لیئے جس دھرنے کا ان کی جماعت نے اعلان کیا ہے اس کی رہنمائی وہ خود کریں گے۔لیکن وہ تو پہلے ہی جدہ کوچ کرگئے تھے۔تاہم ان کی پارٹی کے درجہ اول کے رہنما احسن اقبال نے بدھ کو لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیںانہوں نے کہا کہ یہ اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ وہ کس کی زبان بول رہے ہیں۔احسن اقبال قدرے شریف اور سیدھے سادے آدمی لگتے ہیںاس لیئے یہ بھی کہہ گئے کہ تمام قوتیں نون لیگ سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔انہوں نے یہ سچ پھر بھی نہیں بولا کہ موجودہ صورتحال میں ان کی پارٹی اور ان کی پارٹی کے دونوں برادران کیا چاہتے ہیں؟خیر بات ہورہی تھی انتخابات کی۔

چند روزقبل حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ نے ایک بار پھر”لاڈلی معشوقہ“ کی طرح رنگ بدل کرپہلے تو یہ کہا کہ انتخابات تو بہت ہوچکے پہلے صوبوں کی بات ہونی چاہئے پھر ایک آدھ دن کے وقفے سے یہ کہہ دیا کہ ” پیپلز پارٹی نے پانچ سال کے دوران کیا دیا؟“ پوری قوم متحدہ سے یہ ہی سوال کررہی تھی مگر اب متحدہ نے خود یہ سوال قوم کے سامنے رکھ دیا۔کتنی دلچسپ بات ہے شائد حق پرستی اسے ہی کہا جاتا ہے۔ساتھ ہی اس مﺅقف کا اظہار کیا کہ اب الطاف حسین، پیپلز پارٹی کے کسی رہنما سے اس وقت بات نہیں کریں گے جب تک متحدہ کے مطالبات پر کوئی واضع جواب نہیں دیا جائے گا‘۔اب بتایئے متحدہ کو پانچ سال کے دوران یہ بھی نہیں پتا چل سکا کہ حکومت نے کیا دیا؟۔حالانکہ قوم جانتی ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے قوم کو ہر موقع پر دلاسے ہی تو دیئے ۔دلاسوں کے معاملے میں پوری قوم خود کفیل ہوچکی ہے۔

ویسے چوہدری برادران سچ اور جھوٹ سے بالاتر ہوکر سیاست کرتے ہیں وہ سچ اور جھوٹ ہی کیا اپنی اور پارٹی کی ساکھ کو بھی یہ کہکر ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ ” مٹی پاﺅ جی“۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی مٹی ان کے پاس کہاں سے آئی ہے کہ ہر جگہ پاﺅ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی اکثر حکومتی ایوانوں ہی میں نظر آتے ہیں، ریگستانوں سے ان کا دور کا واسطہ نہیں رہا! ۔حکومت اور اس کی اتحادیوں کا معاملہ بقول شاعرہ ذر ہ حیدرآبادی کچھ ایسا ہی رہا کہ ” میں حکومت سے لڑتا رہا
دوستوں نے محل بھر لیئے“
دوست ہو وہ بھی زرداری صاحب جیسا تو محل تو بھریں گے ہی۔۔۔۔

چلیں کچھ عدالتی کارروائی پر بات کرلیتے ہیں، جج صاحبان ہی تو اس ملک میںایسی شخصیات رہ گئیں ہیں جو حکومت اور اس کے اداروں کو شرم دلاکر لوگوں کو ان پر مزید ہنسنے کا موقع فراہم کرتی ہیںاور قوم کا موڈ بھی خوشگوار کردیتی ہیں۔صدر کے دو عہدوں سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ صدر جلسوں میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور دوسری کی مخالفت کرے گا تووہ غیر جانب دارنہیں رہتا۔انہوں نے حکم دیا کہ صدر سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ سیاسی عہدہ کب چھوڑیں گے۔مقدمے کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل وسیم سجادنے بتایا کہ صدر کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے وہ ایک ایسوسی ایشن کے” کو چیئرپرسن“ ہیںاس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پی پی پی سیاسی ایسوسی ایشن ہے؟

اب دیکھیں نا عدالت کی کارروائی کے نتیجے میں حکومتی پارٹی کا ایک نیا چہرہ بھی سامنے آیا۔ ساتھ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ موجودہ حکومت جس پیپلز پارٹی کی ہے اس کے شریک چیئرمین مخدوم امین فہیم ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مخدوم امین فہیم صاحب کی پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ہے جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔

سب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جس کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری صاحب ہیں جو خیر سے صدر مملکت بھی ہیں۔اب سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تو قوم ہی کرے گی۔

ہم تو صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ قوم کو مزید بے وقوف بنانے کے بجائے سیدھی اور دو ٹوک بات کی جائے، انتخابات کرانا ہے تو اسمبلیوں کو تحلیل کرکے نگراں حکومت کا اعلان کردیا جائے ۔اب اگر بااعتماد نگراں نہیں مل رہے تو پھر بہانے بنانے سے بہتر ہے کہ صاف کہہ دیا جائے کہ ہم کو ” انتخابات ، ونتخابات نہیں کھیلنا ہے “۔

ویسے زرداری صاحب جس پائے کے سیاست دان قرار پائے ہیں اس طرح کا کوئی دوسرا آئندہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

بھلے ایسا کوئی اور صدر مل سکتا ہے جو صدر بھی رہے اور اپنی پارٹی کا شریک چیئرمین بھی ، جو اپوزیشن کو بھی مطمین رکھے اور اپنے لوگوں کو بھی ”امید سے رکھے کہ کچھ اچھا ہونے والا ہے“ ۔ساتھ اتحادی جماعتوں کو اپنے ووٹرز کے حقوق کی آواز اٹھانے کا بھی پورا پورا موقع فراہم کرے ؟ لیکن رہی قوم کی بات تو وہ سب کچھ سمجھ کر اب صرف سیاست دانوں کی بس کے انتظار میں کھائی کے نزدیک بیٹھی ہے کہ کبھی تو یہ بس بھی گرے گی۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152566 views I'm Journalist. .. View More