وطنِ عزیز کا اگلا وزیراعظم کون
ہوگا اور کون سی پارٹی کا ہوگا، اور کون سی پارٹی اگلی باری کیلئے آئندہ
اقتدار پر قابض ہوگی، اس سوال کا چرچا قبل از وقت ہی شروع ہو گیا ہے۔ ہر
چند کہ ابھی عام انتخابات میں لگ بھگ چار مہینے باقی ہیں۔ لیکن ہر پارٹی کے
لیڈران جس انداز میں مستقبل کے وزیراعظم کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں اس
سے خود ان کی اپنی پریشانی نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ دیکھئے صاحبان
! آپ کے بھاگ دوڑ اور جستجو خاص سے، کچھ ہونے والا نہیں، آپ کی قسمت کا
فیصلہ عوامی ووٹ پر ہی منحصر ہے۔ اور عوامی رائے جو کئی اداروں نے پول کے
ذریعے کروائے ہیں اس سے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ عوام جاگ چکی ہے اور اگلا
وزیراعظم کوئی نیا ہی ہوگا۔ آزمائے ہوئے میں سے شاید ہی کسی کو اقتدار نصیب
ہو۔ آج ہر چہار جانب یہی نظر آرہا ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور یقینا
وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعما ل کرتے ہوئے کوئی مستند پارٹی ہی کو اقتدار
منتقل کروانا چاہتی ہے تاکہ ملکی ترقی کی باگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں جائے جو
ملک بشمول عوام کی ترقی و بھلائی اور غربت ، مہنگائی، بیروزگاری کے خاتمے
کا پروگرام لے کر آئے نہ کہ پھر سے اقتدار حاصل کرکے عوام کو مکمل طور پر
خزاں رسیدہ کر دے۔
ہمارا آئندہ وزیراعظم کس کو ہونا چاہیئے اس کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہی ہو
سکتا ہے ، ہاں! کیسا ہونا چاہیئے اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی دانشور
یا سیاسی لیڈر صرف بیان کی حد تک تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں اور
بانگِ درا کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں تو ان کے سارے
مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مجھے حیرت ہے اس بات پر کہ جو لوگ صر ف
زبانی دعوے کرتے ہیں انہیں مستقبل میں عملی حل بھی پیش کرنا ہوگا۔ بخدا اگر
ہمارے ملک کا ہر بچہ تعلیم کے زیور سے آشنا ہو جائے تو ہماری ترقی کو کوئی
نہیں روک سکتا بشرطیکہ اس نسل میں کرپشن جو گھٹی کی طرح شامل کی جا رہی ہے
اس کا عنصر ناپید ہو جائے۔ فرض کو فرض سمجھیں، بیروزگاری، مہنگائی، لوڈ
شیڈنگ اور کرپشن جیسے بنیادی اور حل طلب مسائل پر فوری طور پر قابو پانے کی
سعی کرنے والاآجائے۔ فیشن، روشن خیالی، دولت کے لالچ میں ڈوبے ہوئے حکمران
اگر ملک کو ان مسائل کے گڑھے سے نہیں نکال سکتے تو انہیں اقتدار میں آنے کا
کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر ترقی کرنی ہے اور ایک طاقت ور باعزت قوم بننا ہے
تو سب سے پہلے اپنے اندر ایمان کی مضبوطی اور اطاعت امر کے اوصاف پیدا کریں
کیونکہ اس کے بغیر نہ ہمارے افراد میں بَل پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہماری وہم
میں نظم پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہماری اجتماعی قوت اتنی زبردست ہو سکتی ہے
کہ ہم دنیا میں سر بلند ہو سکیں۔ ایک منتشر قوم جس کے افراد کی اخلاقی اور
معنوی حالت خراب ہو، جس کی زندگی میں دورنگی پائی جاتی ہو وہ کبھی اس قابل
نہیں ہو سکتی کہ دنیا کی منظم اور مضبوط قوموں کے مقابلہ میں سر اٹھا سکیں۔
پھونس کا انبار خواہ کتنا ہی بڑا ہو کبھی قلعہ نہیں بن سکتا۔ مٹی کا
گھروندا چاہے جتنا بڑا ہو اس میں رہائش اختیار نہیں کی جا سکتی۔ جمہوریت کی
مانند صرف سروں کو شمار کیا جا سکتا ہے تو لا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم شمار نہیں کئے جائیں بلکہ تولے جائیں۔ اور ایسا وزیراعظم
آئے جو اس قوم کو شمار نہ کرے بلکہ تول کر دیکھے کہ انہوں نے کس اعتماد اور
اعتبار کے ساتھ اپنا ووٹ دیا ہے اور کس ارادے سے دیا ہے تاکہ ان کو فیصلہ
کرنے میں آسانی ہو۔
دورِ حاضر کے بے شمار المیوں میں سے سب سے بڑا المیہ ہمارے ملک کا
بیروزگاری، مہنگائی، اقربا پروری، رشوت ستانی، لوڈ شیڈنگ ہے۔ اگر کوئی
اقتدار میں آکر اسے حل کرنے کا اعلان کرے تو یقینا عوام اس کے ساتھ ہوگی
وگرنہ تو کوئی بھی آئے وہ پچھلی حکومت سے ورثے میں ملا ہے کہہ کر اپنا آپ
صاف کر لیتی ہے۔ رہے بے چارے عوام تو ان کا تو پہلے بھی روئے زمین پر صرف
اللہ تھا اور آج بھی ان کا اللہ ہی ہے۔
ذہانت تو خدا داد ہوتی ہے مگر ایسی شاندار کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب
وقت کا درست استعمال کیا جائے اور ایسا وزیراعظم آئے جو ان تمام مسائل سے
نمٹنے کے لئے سر توڑ محنت کرنے کا عملی مظاہرہ کرے۔ چنانچہ آج اچھی اچھی
ملازمتوں کی آفر کی نوید بھی سنائے لیکن شرط یہ ہو کہ اس میں رشتہ داری،
رشوت ستانی نہ ہو، غریبوں کے پاس جو ڈگری ہے وہی امیروں کے پاس بھی ہوتی ہے
اس لئے امیروں اور غریبوں میں کوئی تفریق نہ کیا جائے،کیونکہ ہمارے عوام کی
سرفہرست شکایت یہی ہے کہ بغیر پیسوں کے ادائیگی کے یہاں نوکری نہیں ملتی
اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ ہمارے یہاں کرپشن کا بازار بہت گرم ہے۔ اس لئے
اس کرپشن کے بازار کو بند کرکے تمام اہلِ وطن کو خوشخبری دی جا سکتی
ہے۔کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ جنہیں ٹھوکریں
کھانے کے باوجود نوکری نہیں ملتی۔ اگر اقتدار والے اپنے اندر صلاحیت پیدا
کر لیں تو قدر کرنے والے خود ہی مل جاتے ہیں۔آج تک کی سیاست میں تو ہمارے
ملک کے حکمرانوں کا حال یہ ہے جسے اس شعر میں ڈھال دیا گیا ہے۔
اور تھوڑی دیر سر پر بیٹھ لے اے آفتاب
شام آئے گی تو تیرا حال پوچھا جائے گا
ہمارا ملک اس وقت سیاسی طور پر بدترین صورتحال سے گذر رہا ہے۔ نہ حکومت
مستحکم ہے اور نہ عوام حکومت کے عمل سے خوش ہیں۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورت
پیدا ہونے لگی ہے۔ کیونکہ جہاں دہشت گردوں کے ہاتھ میں سب کچھ آجائے اور
حکومت خود ان پر انحصار کرنے لگے تو حکومت ناکام ثابت ہو جاتی ہے۔ اس کے
علاوہ بھی کئی عیب ہیں جیسے کہ ہماری حکومت جہاں اپنے نظام کو صحیح طور پر
انجام نہیں دے سکتی تو عوام کا خیال رکھنا تو دَر کنار !!! یہاں حکومت کسی
بھی پیمانے پر صحیح طور پر عمل نہیں کر رہی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ آئین
اور حکومت دونوں ہی کسمپرسی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔یہاں تو حکومت کرو اور
ٹائم فریم پورا ہوتے ہی بیرون ملک بھاگ جاﺅ کے اصول کے تحت ہی کام کیا جاتا
ہے (جیسا کہ آج تک ہوتا آیا ہے اور سب نے دیکھا بھی ہے)اور اسی طریقے کو
اپناتے ہوئے اپنے اور اپنے احباب کے لئے مال بناﺅ پالیسی پر عمل پیرا رہتے
ہوئے عوام کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد آنے والی جماعت کوئی بھی ہو ، اس کا وزیراعظم
کوئی بھی ہو، اسے یہ بات ذہن نشین ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک میں سرکار عوام
ہی ووٹوں کے ذریعے بناتی ہے اور اگر وقت کا پہیّا صحیح سمت میں رواں دواں
نہ ہو تو حکومتیں گراتی بھی عوام ہی ہے۔ چونکہ آنے والی حکومت کے لئے
اقتدار کی سیج پھولوں کا بستر نہیں ہوگاکیونکہ مسائل زیادہ ہیں اور کچھ تو
فوری حل طلب بھی ہیں۔ اس لئے یہ کہہ کر بھی چھٹکارا نہیں مل سکتاکہ ہمیں یہ
تمام مسائل پچھلی حکومت سے ورثے میں ملی ہیں۔کیونکہ جو بھی آئے گا اسے عملی
اقدامات کے ذریعے عوام کی تائید حاصل کرنی ہوگی۔ صرف ایئر کنڈیشن کمروں میں
بیٹھ کر عوام کی بہبود کی باتیں اب نہیں کی جا سکتیں۔ کیوں کہ اب وہ دور
رہا نہ اب وہ عوام ، سب میں تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔آج بھی بجلی آٹھ سے دس
گھنٹے بند رہتی ہے۔ یہ تو عوام کا درد ہے۔ اس کی پرواہ اب کرنا پڑے گا۔
بیروزگاری، مہنگائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگاتاکہ آنے والی حکومت
کامیابی کا زینہ چڑھ سکے۔ دہشت گردی ، فسادات پر بھی فوری گرفت مضبوط کرنا
پڑے گا تاکہ عوام میں سکون کا احساس اجاگر ہو۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آنے والی
نئی حکومت پاکستانی عوام کے لئے نوید کا پیغام لے کر آئے۔ وگرنہ تو حکومتیں
آتی رہتی ہیں اور جاتی رہتی ہیں عوام کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوتا۔ ہمارے
یہاں موروثی سیاست بھی اُڑان بھرنے کو ہے اور ہر جماعت کے لیڈروں نے اپنے
اپنے سپوتوں کو واردِ سیاست کر دیا ہے ، اس لئے یہ واضح طور پر کہا جا سکتا
ہے کہ یہاں عوام کو حکمرانی کا حق نہیں ہے بلکہ چند خاندانوں پر ہی حکومت
اور اقتدار کی بندر بانٹ کی فضاقائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خیر ویٹ
اینڈ واچ کے اب کیسی حکومت عوام پر نازل ہوتی ہے۔ |