تقریباًپندرہ سال قبل جب عمران
خان نے میدان سیاست میں قدم رکھ ا تو روایتی اور موروثی سیاستدانوں نے اسے
وقتی اور جزباتی فیصلہ قرار دے کر خود ہی فیصلہ بھی سنا دیا کہ سیاست اور
خصوصاً پاکستانی سیاست خان جیسے پکے سچے اور کھرے انسان کے بس کی بات
نہیں،عمران اور اس کے انداز سیاست سے اختلاف بلکہ بے شمار اختلافات کیے جا
سکتے ہیں مگر مارکیٹ میں دستیاب سیاستدانوں میں وہ واحد سیاستدان ہیں کہ جن
پر کرپشن کا کوئی ایسا داغ نہیں جس میں اس ملک کی اشرافیہ گلے گلے تک دھنسی
نظر آتی ہے،شروع میں عمران خان کو عوام میں وہ پذیرائی نہ ملی جو آج مل رہی
ہے سیاستدانوں کے ساتھ عوام کو بھی ان کی ذات پہ مکمل بھروسا نہ تھا مگر
بھلا ہوآج کے حکمرانوں کا کہ انہوں نے عوام کو ترقی و خوشحالی کی اس سرنگ
میں دھکیلا ہے کہ ان کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں،قصور سارا سیاستدانوں
اور حکمرانوں کا نہیں عوام کو بھی بار بار اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے
کا شوق ہے جس کے سبب بیماری بلکہ بیماریاں گلے پڑتی ہیں،عوامی استحصال
اورظلم کا بازار نہ جانے اور کتنے عرصے تک جاری رہتا مگر بھلا ہو الیکٹرانک
میڈیا کا کہ جس نے ریڑھی سے لیکر پراڈو پہ سفر کرتے امراءتک ، دکان سے لیکر
شاپنگ مال کے مالک اور عام مزدور سے لیکر کارکانے دار تک سب کو اتنی سمجھ
بوجھ عطا کر دی کہ وہ اپنے اچھے برے اور کھرے کھوٹے میں تمیز کر سکے،آج عوم
میں کم از کم اتنا شعور ضرور اجاگر ہو چکا ہے کہ وہ اور کچھ نہیں جمہوریت
اور آمریت میں فرق نہ صرف بڑی ہی اچھی طرح جان چکے ہیں بلکہ سول آمریت کے
تابوت میں بھی آخری کیل ٹھونکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،کمی تھی تو صرف ایک
ایسے لیڈر کی جو ان جیسا ہو جو ان جیسا سوچتا ہو ،جو ان کے دوستوں کو اپنا
دوست اور انکے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہو،جو بے شک ان میں سے نہ ہو مگر
ان کے ساتھ ان کے کچے مکانوں اورجھونپڑیوں میں بیٹھ سکتا ہو،ان کے مسائل ان
کے ساتھ بیٹھ کر ڈسکس کر سکتا ہو اور ہرشخص کو بلا لحاظ خاندان و مرتبہ اس
تک رسائی حاصل ہو،اس دور میں ایسا حکمران یا سیاستدان ملنا یا ڈھونڈنا جوئے
شیر لانے کے مترادف ہے،اور پھر اس قوم کو ان خوبیوں کا منبع عمران خان کی
ذات میںنظر آنا شروع ہو گیا اور لوگوں نے دھیرے نہ صرف اس کی باتوں پر کان
دھرنا شروع کر دیا بلکہ اس کی ذات پر اعتاد بھی کرنا شروع کر دیا،اور پھر
تیس اکتوبر گیارہ میں چشم فلک نے جو نطارہ دیکھا اس نے جہاں ایک طرف
پاکستانی قوم کو خوشگوار حیرت میں ڈالا وہیںبڑے بڑے پھنے خانوں کی راتوں کی
نیند اور دن کا چین غارت کر دیا کسی نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی قرار دیا
تو کسی نے سارا کریڈٹ جنرل پاشا کے کھاتے میں ڈالا،اس بھرپور شو آف پاور کے
بعد موسمی پرندے اڑانیں بھر بھر کے عمران کے آشیانے پر بیٹھنے لگے،اور
تحریک انصاف ہر کسی نئے آنیوالے مہمان کو اس کا ماضی دیکھے بغیر نہایت
وارفتگی کے عالم میں خوش آمدید کہنے لگ گئی،نمبر گیم کے لئے بھاری بھر کم
امیدواروں کی آمد نے جہاں ایک طرف تحریک انصاف کو پاکستان کی بڑی پارٹیوں
کی صف میںشامل کیا وہیں عام آدمی کو مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں دھکیلنا
شروع کردیا اور عام افراد نے سر عام کہنا شروع کر دیا کہ اگر یہ ہی تبدیلی
خان صاحب نے لانی ہے تو ہم اس سے لنڈورے ہی بھلے،مگر یہ موسمی پرندے جتنی
تیزی سے آئے اپنی دال گلتی نظر نہ آنے پر اب اتنی ہی تیزی سے واپسی کی
اڑانے بھر رہے ہیں،کیوں کہ یہ پیدائشی حکمران ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ
پیدا ہی حکمرانی کرنے کے لیے ہوتے ہیں،یہ بد لتے موسموں کا مزاج دیکھ کر فی
الفور تحریک انصاف میں شامل تو ہو گئے مگر جب خان نے پارٹی کے اندر
انتخابات کا اعلان کیا تو ان ابن الوقت اور اٹھتے بیٹھتے عمران کی بلائیں
لینے والوں کے ریکٹر پر چھ اعشاریہ سات کازلزلہ طاری ہو گیا،جن کی طبیعت ہی
آمرانہ ہو وہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ خالص جمہوری عمل سے کسی موچی نائی
دھوبی یا ٹیلر کا بیٹا ان کی پارٹی کا ان کے اوپر صدر لگے یا بنے اور ان پر
حکم چلائے،تعلیم و تعلم سے عمومی طور پر ان کو دور پرے کا بھی واسطہ نہیں
ہوتا کہ ان کو پتہ ہو کہ ہم جس نبیﷺ کے پیروکار ہیں انکے نزدیک کسی گورے کو
کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فو قیت نہیں بڑائی اور فوقیت کا
معیار تقویٰ ہے جو منافقت کی ضد ہے ،جہاں منافقت ہو وہاں پر کونسا تقو یٰ
اور کیسا تقویٰ،جو اپنے جیسے انسانوں کو اپنے سے کم تر مخلو ق سمجے جو ان
سے معانقہ تو دور کی بات ہاتھ ملانے کے بعد اپنے ہاتھ کو ڈیٹول سے رگڑ کر
دھوئے وہ کیا جانے وہ اعلیٰ وارفع تعلیمات جو اسلام کا حسن ہیں،زیادہ
تفصیلات میں جانے سے بات لمبی ہو جائے گی چکوال میں بھی ایک نام نہاد محسن
نے اپنے اصلی محسنوں کو چھوڑ کر بڑے بھرپور طریقے سے تحریک انصاف کو جائن
کیا،موصوف کی واحد خوبی غالبا ً یہ ہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ
نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ جناب جن کا نام سردار غلام عباس ہے اقتدار کے بغیر
نہیں رہ سکتے اور اقتدار نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی کانٹوں پر لوٹ رہے ہیں،
اور اس پارٹی میں توآئندہ بھی ان کو اقتدار کے چانس نظر نہ آرہے تھے، کل تک
ان کو تبدیلی کا واحد نشان فقط عمران نظر آرہا تھا اور تو اور جناب نے
عمران خان کے ساتھ وزیرستان تک کا سفر بھی کیا اور واپسی پر بہی خواہوں کو
بتایا کہ دیکھ لو یہ ہوتی ہے عومی پارٹی اور عوامی لیڈر ،ہے کسی اور حکمران
یا سیاستدان میںیہ جرءات کے وہ ان حالات میں وہاں جانے کا رخ بھی کرے یا
وانا وزیرستان میں جلسہ کرنے کے بارے میں سوچے بھی،مگر پھر اچانک بیٹھے
بیٹھائے نجانے کیا ہو کہ انقلاب انقلاب کے راگ الاپتے الاپتے اچانک ہی ایک
نئی شاخ پر ڈیرہ جمانے کے لیے نئی اڑان بھرنے کی تیاری کر لی اوروجہ میں
بیان کر چکا ہوں،ان کی شمولیت کے وقت اور بعد میں بھی پرانے اور اصلی
ورکروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس تاثر کو تقویت ملی تھی کہ
اگر انہی روایتی اور گھسے پٹے مہروں نے ہی تبدیلی لانی ہے تو پھر تبدیلی
آچکی،مگر ان کے جانے کے بعد کارکنوں نے پریشان ہو نے کی بجائے حد درجے
طمانیت محسوس کی ہے،تحریک انصاف چونکہ نوجوانوں کی پارٹی ہے اسی لیے اس میں
نوجوان ہی سجتے اور جچتے ہیں اور نئی اور پڑھی لکھی دیانتدار قیادت ہی صحیح
اور حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے روایتی اور موروثی سایست نے آج ہمیں جس حالت
کو پہنچا دیا ہے اس سے صرف اہل اور صاف ستھرے نوجوان ہی ان حالات کو تبدیل
کر سکتے ہیں ایسے ہی ایک نوجوان راجہ یاسر سرفراز نے چکوال سے گذشتہ روز
عمران خان کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو جائن کیا
ہے،راجہ یاسر سرفراز اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے کسی تعارف کے محتاج
نہیں،نہایت سلجھے اور شریف گھرانے سے ان کا تعلق ہے جس نے کردار و عمل میں
بے شمار مثالیں رقم کی ہیںچکول کالج کی سرزمین اور اسلامیہ ہائی اسکول کی
زمین کا عطیہ ان میں سر فہرست ہیں،اس کے علاوہ یاسر سرفراز جنھوں نے امریکہ
سے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں کی یونیورسٹیوں میںتعلیم دیتے بھی رہے
امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بجائے امریکہ کی پرتعیش زندگی کو خیر
آباد کہہ کر اپنے شہر چکوال میں نہایت خوبصورت عمارت اور اعلیٰ پائے کا
تعلیمی ادارہ قائم کیا جس میں آکسفورڈ کا سلیبس ،اے لیول اور او لیول کی
تعلیم دی جا رہی ہے نہ صرف یہ بلکہ چکوال کے شہریوں کے لیے ایک انٹر نیشنل
لیول کا شاپنگ مال قائم کیا ہے جہاں نمبر ون کوالٹی کی اشیاءضروریہ مناسب
داموں میں ایک ہی چھت کے نیچے میسر ہیں، راجہ یاسر سرفراز کی آمد کے بعد
چکوال کے عوام کو صحیح معنوں میں ایک صاف ستھری اور اہل قیادت نظر آنا شروع
ہو گئی ہے ،راجہ یاسر سرفراز انتہائی قابل اور کھرے انسان ہیں غرور تکبر جن
میں نام کو بھی نہیں اور سب سے بڑھ کر کسی عہدے اور ٹکٹ کی خواہش بھی نہیں
اگر کچھ ہے تو فقط اپنے علاقے ااپنی پارٹی اور اپنے ملک کی بہتری کے لیے
کچھ کر گزرنے کا جذبہ، دھن کے پکے اور من کے سچے، میں نے آج تک شخصییات کو
کو کبھی کالم میں ڈسکس نہیں کیا اور بے جا تعریف کو میں خوشامد سے تعبیر
کرتا ہوں جو ایک لعنت ہے اور جو نہ میرا شیوہ ہے نہ ہی کبھی انشا ءاللہ ہو
گا مگر کسی کی خوبی کو سامنے نہ لانا بھی بدیانتی کے زمرے میں آتا ہے،میں
نے ہمیشہ صرف خوف خدا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی ڈر جھجک کے بغیر غلط کو
غلط اور درست کو درست کہا،اگر راجہ یاسر سرفراز بھی اقتدار میں آکر روایتی
سیاست کا شکار ہو کر روایتی سیاستدان بن گئے یاانہوں نے اپنے کہے کا پاس نہ
رکھا تو ہم بھی خدا کو گواہ بنا کر کہتے ہیںکہ ہم بھی کوئی لحاظ اور پاس
نہیں رکھیں گے،فی الحال بہت سوں کی طرح ہم بھی اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں
اور پرامید ہیں کہ راجہ یاسر سرفراز کی شکل میں چکوال کے لوگوں کو ایک اچھا
راہنما ملے گا جو ان کے دکھ درد کو اپنا د کھ درد سمجھے گا اللہ ان کا حامی
و ناصرہو، |