’ شکستِ آرزو‘ پروفیسر ڈاکٹر سید
سجاد حسین جو سقوطِ مشرقی پاکستان(16 دسمبر1971) سے پہلے معروف ترین ڈھاکا
یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلرتھے‘ کی کتاب "The Wastes Of Time" کا اردو
ترجمہ ہے۔ جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے شائع کیاہے۔ شکستِ آرزو کو
پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی داستانِ حیات کہا جاسکتا ہے۔ مگر یہ داستان
حیات ایسی کہ جو تحریکِ پاکستان‘ قیامِ پاکستان اور پھر1971 میں سقوطِ
مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک ایسی دستاویز ہے جو صرف حقیقت پر مبنی نہیں
بلکہ اس کا ایک ایک حرف ڈاکٹر سجاد حسین کی تلخ یادوں سے مزین ہے۔ جو فلم
کی طرح قاری کی نظروں سے گزر جاتی ہیں اور قاری کو ان وجوہات اور سازشوں تک
پہنچنے میں دیر نہیں لگتی جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے
الگ کیا گیا۔ انہوںنے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں نفرت بپا کرنے
والے الزامات کی حقیقت بھی بیان کی کہ کس طرح سے حقائق کو مسخ کرکے اور
بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے سول اور فوجی
افسران پر مشتمل انتظامیہ کو جابر اور ظالم ثابت کرکے لوگوں کے دلوں میں
نفرت کے بیج بوئے گئے۔
انہوں نے کتاب میں وہ راز بھی آشکار کئے ہیں کہ کس طرح سے شیخ مجیب الرحمن
کی سرکردگی میں مٹھی بھر لوگ بھارتی لابی کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور
بھارتی ایجنڈے کی تکمیل میں ایک کٹھ پتلی کی طرح کام آتے رہے۔ انہیں بہرکیف
اپنی ’خدمات‘ کا پورا پورا معاوضہ بھی ملا۔ کتاب کے صفحہ 326 پر ڈاکٹر سید
سجاد حسین لکھتے ہیں ” پاکستان کے خلاف کام کرنے والے طالب علم رہنماﺅں
سمیت شیخ مجیب الرحن کا ہر ساتھی اب ارب پتی بن چکا ہے۔ جن لوگوں کی کوئی
ملازمت نہیں تھی‘ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اور گزارے کے لئے پارٹی
فنڈز پر انحصار کرتے تھے وہ پاکستان سے علیحدگی کے بعدکارخانوں کے مالک اور
بنکوں کے مالک بن کر اُبھرے ہیں۔ 1970 کے عشرے میں قلاش نوجوانوں نے بیرونِ
ملک بنکوںمیں اکاﺅنٹس کھلوائے ہیں‘ برطانیہ اور امریکہ میں املاک خریدی ہیں
اور ڈھاکا و دیگر بنگلہ دیشی شہروں کے بہترین رہائشی علاقوں میں پُرتعیش
مکانات خریدے ہیں-1970 میں عوامی لیگ کا ساتھ دینے والے سابق پاکستانی فوجی
افسران بھی اب مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو سابق فوجی افسران اس
وقت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی کابینہ کا حصہ ہیں وہ سب سے نمایاں پوزیشن
میں ہیں اور دولت کے معاملے میں بھی ان کا ثانی کوئی نہیں۔“
ڈاکٹر سیدسجاد حسین کی کتاب دسمبر1994 میں اس وقت شائع ہوئی جب وہ لگ بھگ
74 برس کی عمر رکھتے تھے۔ آپ1995 میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے لیکن
”شکست آرزو“ کے ذریعے ان سازشوں کا پردہ فاش کرگئے جو مشرقی پاکستان کی
علیحدگی پر منتج ہوئیں۔ جب مکتی باہنی بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور بھارتی
فوج کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی اور اُن کی سرپرستی میں مشرقی پاکستان میں
تعینات سول اور فوجی حکام کے خلاف نبرد آزما تھی اُس وقت ڈاکٹر سجاد حسین
ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ پھر جس طرح سے ایک روز مکتی باہنی کے
اشاروں پر ناچنے والے ڈھاکا یونیورسٹی کے طالب علموں نے اپنی ہی یونیورسٹی
کے وائس چانسلر کو ان کے بچوںکے سامنے جانوروں کی طرح گھسیٹے ہوئے گھر سے
نکالا اور یونیورسٹی میں ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک کمرے میں بند
کردیا اور انہیں نیم برہنہ کرکے اُن پر تشدد کیا اور اُن پر خنجر کے وار
کرکے اُنہیں ”مردہ “ جانتے ہوئے ڈھاکا کے ایک چوراہے میں پھینک دیا جیسے
دلخراش واقعات کا تذکرہ بھی ملتا۔ بعد ازاں اُنہیں راہ گیر ہسپتال لے گئے
وہاں سے انہیں جیل کی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اُن کا قصور صرف یہ تھا کہ
وہ پاکستان کے شیدائی تھے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت لوگوں کو کٹتے
مرتے دیکھا تھا۔ وہ آپس کے معاملات خود مل بیٹھ کر حل کرنے کے خواہاں تھے
اور دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنی ہی سرزمین پر کھلواڑ نہیں چاہتے
تھے۔ ظاہر ہے کسی بھی پڑھے لکھے اور باشعور فرد کی یہی سوچ ہو سکتی تھی۔
لیکن بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی مکتی باہنی تو اپنے
ایجنڈے کی تکمیل بہر صورت چاہتی تھی اور اس کے لئے انہیں ہر حال میں ہر
رکاوٹ کو عبور کرنا تھا۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین بھی ایک ”رکاوٹ“ قرار پائے جس
کی انہیں قرار واقعی سزا دی گئی۔ عشق خراج تو مانگتا ہے چاہے دھرتی سے کیا
جائے یا دھرتی پر رہنے والے لوگوں کے ساتھ اُنہیں محبت کے جذبات کی سزا ملی۔
سزا بھی اپنوںنے دی۔ لیکن اُس وقت جب اُن کے دماغوں میں خون چڑھ چکا تھا
اُن کی ڈور دشمنوں کے ہاتھوں میں تھی۔
بہرطور ”شکستِ آرزو“ شرمیلا بھوس کی کتاب "Dead Reckonig" کی طرح ایک ایسی
دستاویز ہے جس نے سچ سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ سارا سچ سامنے نہ بھی آسکے
تو اس کی ایک جھلک ہی کافی ہوتی ہے۔ سچائی ایک روشنی کی مانند ہوتی ہے جو
تاریخ میں زندہ رہتی ہے۔ شکستِ آرزو بھی ایک ایسی ہی سچائی ہے جسے سامنے
لانے پر ڈاکٹر سیدسجاد حسین اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی دونوں قابلِ
تعریف ہیں۔
”شکستِ آرزو“ کا صفحہ 328 کا درج ذیل اقتباس ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے
لئے کافی ہے جو سُنی سنائی داستانوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے ہی ملک اور
اداروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ حقائق کچھ اور تھے۔ ”بنگلہ دیش کی
جو نئی نسل اسکولوں کالجوں اور جامعات میں پڑھ رہی ہے اُن کے ذہن میں یہ
بات انڈیلی جا چکی ہے کہ پاکستان ایک بھیانک خواب تھا۔ جن لوگوں نے آخری دم
تک پاکستان کا ساتھ دیا اور1972 سے1975 کے دوران شیخ مجیب کے بے رحمانہ
کریک ڈاﺅن سے کسی نہ کسی طور بچ گئے اُنہیں معاشرے میں اچھوت کا سا درجہ دے
دیا گیا جس پر وطن کے معاملات میں بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میجر جلیل
نے1971 میںعوامی لیگ کا ساتھ دیا مگر جب اُس نے دیکھا کہ پاکستان کا تقریباً
تمام فوجی سازو سامان ٹرکوں میں لاد کر بھارت بھیج دیاگیا ہے تو اُس نے
صدائے احتجاج بلند کی مگر ایسا کرنا اُس کا جُرم ہوگیا۔ بھارتی سازش بے
نقاب کرنے کی پاداش میں اُسے غدار قرار دیاگیا۔ آزادی کے حقیقی سپاہیوں کی
فہرست سے میجر جلیل کا نام خارج کردیا گیا ہے۔“
”شکستِ آرزو“ میں دیئے گئے حقائق سے بخوبی آگاہی ہوتی ہے کہ کس طرح سے
بھارتی عناصر کو شیخ مجیب اینڈ پارٹی پر غلبہ حاصل تھا۔ پاکستان کے خلاف
ایک ہرزہ سرائی یہ بھی کی جاتی ہے کہ 9 ماہ جاری رہنے والے کریک ڈاﺅن میں
پاکستانی فوج نے30 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا۔یہ الزام کتنامضحکہ
خیز ہے‘ اس کا اندازہ کتاب کے صفحہ نمبر333 پر دیئے گئی ان سطروں سے ہوتا
ہے۔
”ڈھاکا سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار’ مارننگ سن‘ کے ایڈیٹر نور الاسلام
جو پاکستان کے حمایتی نہیں تھے مگر انہیں بھی کہنا پڑا کہ 3 ماہ میں 30
لاکھ افرادکی ہلاکت کو یقینی بنانے کے لئے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو کو
موت کے گھاٹ اُتارنا پڑے گا۔“ اس صفحے پر آگے چل کر ڈاکٹر سجاد حسین لکھتے
ہیں ”بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کے دور میں اس نوعیت کا ایک
سروے کیا گیا تھا مگرابتدائی نتائج ”حوصلہ افزا“ برآمد نہ ہونے کی وجہ سے
یہ سروے ترک کردیا گیا۔“ گویا 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کے الزام کو شیخ مجیب
الرحمن بنگلہ دیش کا حکمران بن کر بھی ثابت نہیں کرسکا۔
ڈاکٹر سید سجاد حسین کی یہ کتاب پاکستان کے اُن ”شاہ دماغوں“ کو ضرور پڑھنی
چاہئے جوہر سال 16 دسمبر کو اپنے ہی ملک پاکستان کو” مشرقی پاکستان
میںڈھائے گئے مظالم“ کی بنیاد پر بنگلہ دیش سے معافی مانگنے کی تلقین کرتے
ہیں۔ یہ سوچ قوم کو کینسر کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔ بلا شبہ معذرت خواہانہ
رویے قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم
کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا لیکن ناکردہ گناہوں کو اپنے گلے کا طوق بنا کر
پھریں تو شہر کے لوگ تو ہوتے ہی ظالم ہیں وہ قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
اکتوبر2012 میں ”شکستِ آرزو“ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب دیر آید درست
آید کے مصداق ایک ایسی کتاب ہے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے حقائق
کو سامنے لانے کاباعث بنی ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
عہدِ ظلمت میں مجھے مثلِ سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا |