علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کی
پاکستان آمد نے سیاست میں ایک بھونچالی کیفیت پیدا کر دی ہے مختلف حلقوں کی
طرف سے ان کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ جماعت اسلامی
اور مولانا فضل الر حمان کی جانب سے تو تنقید سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے
درمیان فقہی اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان کا ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا
اور بہتان بازی کرنا مذہبی پسِ منظر میں جائز سمجھا جاتا ہے ۔ان کے ہاں
فتووں کی ایسی جنگ ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور جس کے خاتمے کے کوئی آثار
نظر نہیں آتے۔ابھی دھرنا جاری تھا کہ یہ لوگ بھاگے بھاگے رائے ونڈ پہنچے
اور دھرنے کے خلاف اپنی توپوں کے دہانے کھول دئے۔مذہبی اختلافات کا بدلہ
لینے کا اس سے بہتر موقع ملنا ممکن نہیں تھا اور اس سے بھر پور استفادہ کیا
گیا۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ابھی ان مذہبی جماعتوں کی تنقیدی گھن گرج ختم
نہیں ہوئی تھی کہ انھیں خود بھی کراچی اور اسلام آباد میں دھرنا دینا پڑ
گیا اور ان دونوں دھرنوں سے جو جگ ہسائی ہوئی وہ ایک الگ داستان ہے۔سوال یہ
ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری دھرنا دیں تو حرام اور اگر جما عتِ اسلامی
، جمعیت العلمائے اسلام،اور مسلم لیگ (ن) دھرنا دیں تو حلال( شیخ پئے تو
حلال میں پیوں تو حرام والی کیفیت ہے جس سے اہلِ نظر ہی محظوظ ہو سکتے ہیں
کیونکہ اس طرح کی الزام تراشیوں،تنقید اور پھرتیو ں میں کوئی منطق نہیں
ہوتی)علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کی مقبولیت پر مسلم لیگ(ن)اور ان کے ہمنواﺅں
کا واویلا بھی سمجھ میں آتا ہے کہ پنجاب میں کسی اہم طاقت کے ظہور سے میاں
برادران کا تختِ لاہور گہرے پانیوں میں غرق ہو سکتا ہے لیکن پی پی پی کے
چند مخصوص ممبران کی جانب سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری پر الزام تراشی سمجھ
سے بالا تر ہے۔ پی پی پی تو عوامی طاقت کی علامت کے طور پر معرضِ وجود میں
لائی گئی تھی۔ذولفقار علی تھا بھٹو کا نعرہ ہی محروم اور پسے ہوئے عوام کو
عزتِ نفس دینا،انھیں معاشرے کا با وقار انسان بنانا اور وڈیرہ شاہی کا
خاتمہ کرنا تھااور یہ بات صرف نعرے کی حد تک نہیں تھی بلکہ اسے عملی شکل
میں نافذ بھی کیا تھا اور عوام کو اقتدار کی راہداریوں کا راستہ بھی د
کھایا گیا تھا ۔ پی پی پی اورعلامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کے درمیاں معاہدے پر
پی پی پی کے چند ممبرانِ اسمبلی نے جس طرح طنزو تشنیع کے تیر برسائے ہیں اس
سے جمہوریت نواز حلقوں کو افسوس ہوا ہے۔ پی پی پی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ
علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کے ساتھ جو مذاکرات کئے تھے ان پر وزیرِ ا عظم
پاکستان کے دستخط ہیں اور اس کی منظوری صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بھی
دی تھی لہذا اس معاہد ے کے خلاف بیان بازی کی کوئی منطق نہیں تھی ۔معاہدے
کوہدفِ تنقید بنانے سے سیاست میں شرافت ۔، کمٹمنٹ اور وعدہ ایفائی کی سوچ
کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔یہ کہنا کہ معاہدے کی دو
ٹکے کی بھی اہمیت نہیں ہے اور یہ معاہدہ ردی کی ٹوکری میں پھینک د ینے کے
قابل ہے پی پی پی کی ساکھ کے لئے تباہ کن ہے ۔ دوسری اپوزیشن جماعتیں اس
طرح کے بیانات دیں تو اس بات کی سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ انھیںعلامہ ڈاکٹر
طاہرالقا دری کے لانگ مارچ اور دھرنے کی قوت کے اظہار پر اپنی سیاسی
بنیادوں پر جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں لیکن پی پی پی کے ممبرانِ اسمبلی سے اس
طرح کے بیانات سے پی پی پی کی جمہوریت نوازی کی روایات سے محبت کو سخت ضعف
بھی پہنچے گا اور معاہدوں کی تقدیس اور اہمیت کو بھی گزند پہنچے گا۔انھیں
احساس ہونا چائیے کہ پی پی پی کی مقبولیت ہی ان کی جیت کی بنیاد ہے لہذا
اپنی جماعت کی قیادت کے وقار کے منافی بیانات دینے سے انھیں گر یز کرنا
چائیے ۔پی پی پی کی اعلی قیادت نے اس معاہدے کی ہر شق کی پاسداری کی اور اس
پر مزید مذاکرات کےلئے ایک بڑا وفد علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کے ادارہ
منہاج القرآن بھیجا جس میں چند مزید نکات کی منظوری دی گئی۔اس اجلاس میں یہ
بھی طے پایا کہ ا سمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کا اعلان دس دنوں کے اندر کر
دیا جائےگا جو کہ دس دنوں کی ڈیڈلائن گزر جانے کے باوجود نہیں کیا جا سکا ۔
الیکشن کمیشن کی تحلیل اور اس کی از سرِ نو تشکیل پر پی پی پی نے علامہ
ڈاکٹر طاہرالقا دری کے مطالبے پر اختلاف کیا۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری نے
الیکش کمیشن کی تشکیلِ نو کے معاملے پر تحفطات کا اظہار کیا اور اس کےلئے ۷
فروری کو سپریم کورٹ میں اپنی درخواست دائر کر کے اپنے موقف کی سچائی کےلئے
عدلیہ سے انصا ف طلب کیا ہے ۔عوام کو اب انتظار ہے ا س لمحے کا جب موجودہ
اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی،الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو ہو گی ور الیکشن کی
تاریخ کا اعلان کر دیا جائےگا ۔دیکھئے یہ سب کچھ کب وقوع پذیر ہو تا ہے؟
کچھ حلقوں کی جانب سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کی دوہری شخصیت کو لے کر
بھی ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے جبکہ آئینِ پاکستان دوہری شہریت کی
اجازت دیتا ہے ۔ سمندر پار رہنے والے پا کستانی وطن میں رہنے والے کسی بھی
پاکستانی سے کم محبِ وطن نہیں ہیں ۔لیکن زمینی حقائق اور مشکلات کے پیشِ
نظر مختلف ملکوں میں رہنے والے پاکستانی وہاں کی شہریت لیتے ہیں جس سے ان
کی وطن سے وفاداری پر کوئی آنچ نہیں آتی ۔کیا دوہری شہریت کے بعد شعرا کو
اپنی مٹی سے محبت کے اظہار کو ختم کر دینا چائیے؟وطن کی عظمت اور اس کی
خوبصورتی کے نغموں کو دبا دینا چائیے؟وطن جس میں سمندر پار رہنے والوں کی
آباﺅ اجداد دفن ہیں جس میں ان کے بچپن کی یادیں ہیں جس میں ان کے قائدین کے
مزار ہیں جس میں ان کے شہدا ابدی نیند سو رہے ہیں کیا ان سارے جذبوں کو
دوہری شخصیت کے ایک پروانے کے حصول کے بعد انھیں خدا حافظ کہہ دینا چائیے ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دلی اور سچے جذبات کے اظہار کے سامنے دوہری شہریت
کسی طرح بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ سمند پار پا کستانیوں کو کن کن مشکلات سے
گزرنا پڑ تا ہے سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے سیاسی قائدین ان مشکلات
کا ادراک نہیں کر سکتے۔شہریت کے حصول کے بعد قانونی پچیدگیوں سے جان چھوٹ
جاتی ہے اور سمندر پار پا کستانی سکون سے اپنے خا ندان کی کفالت اور وطن کی
خدمت بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اگر ہم زرِ مبادلہ کی ترسیل کی بات کریں
تو سمندر پار پاکستانی اس میں بھی وطن کی محبت میں سرشار نظر آتے ہیں۔ان کے
بھیجے گئے زرِ مبادلہ سے ملکی نظام چل رہا ہے لہذا دوہری شخصیت کی بناءپر
تنقید سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ہاں اگر کچھ جماعتوں کو اس دوہری شہریت کے
قانون پر اعتراض ہے تو انھیں اسمبلی میں نیا قانون پیش کر کے آئینِ پاکستان
میں ترمیم کر لینی چائیے تاکہ دوہری شخصیت والا ٹنٹنا ختم ہو جائے لیکن جب
تک ایسا نہیں ہوتا دوہری شخصیت کی بناءپر کیچڑ اچھالنا بند ہو جا نا چائیے
۔ہر شخص میاں محمد نواز شریف کی طرح خوش قسمت نہیں ہے کہ وہ شہنشاہوں کے
محلات میں مہمان ٹھہرے۔غرباءاور متوسط طبقے کو تو اسی طرح کے نامساعد حالات
سے واسطہ پڑتا ہے جس میں انھیں اپنی بقاءکےلئے ہاتھ پاﺅں مارنے پڑتے ہیں
اور جب آئین اس طرح کی بقا کی جنگ لڑنے کی اجازت دیتا ہے اور اسے آئینی
تحفظ دیتا ہے تو پھر اس پر واویلا سمجھ سے بالا تر ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہرالقا
دری کوئی کینیڈا سے وارد نہیں ہوئے ۔اسی دھرتی پر انھوں نے جنم لیا،یہی پر
اپنی تعلیم مکمل کی،یہی پر اپنی علمی وجاہت میں نکھار پیدا کیا۔یہی پر
ادارہ منہاج القرآن قائم کیا اور نوجوانوں کو انقلاب کےلئے نئی سوچ دی۔اپنے
خونِ جگر سے علم کی شمعیں روشن کیں اور پاکستان کے نام کو پوری دنیا میں سر
بلند کیا۔ ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے ان کی کا وشوں کا منہ بولتا ثبوت
ہیں ۔اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں وہ پانچ سالوں سے کم عرصے کےلئے کینیڈا میں
سکونت پذیر ہوئے تو اس پا نچ سالوں کی بنا پر ان پر غیر ملکی کا لیبل لگا
دیا گیا ہے جبکہ میاں برادران تودس سالوں کےلئے ملک سے غیر حاضر تھے لہذا
اس پر کیا کہا جائےگا؟اصل بات یہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کا تعلق
ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے لہذا مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی مخالفت اور
کردار کشی سمجھ میں آتی ہے۔کسی مڈل کلاس فرد کو سامنے آنے ہی نہیں دینا
کیونکہ کسی مڈل کلاس کا سامنے آنا شرافیہ کی موت ہے اور یہ انھیں کسی بھی
صورت میں گوارہ نہیں ہے۔۔۔۔
فصیلِ شہر پہ میری صدا بھی روشن ہے ۔۔۔۔۔ زمانہ پھینکنے والا ہے تیرگی کا
لباس (طاہر حنفی)
سچ تو یہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری نے آئین کی دو شقوں 62 اور 63 پر
عمل درآمد کے جس نعرے کا آغاز کیا ہے اس پر پوری قوم متفق ہے۔ کسی کو اس
نعرے کی وجہ سے پیٹ میں درد اٹھ رہا ہے تو اس کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں
ہے ۔ حال ہی میں ایک سروے سامنے آیا ہے جس میں 80 فیصد سے زیادہ رائے
دہندگان نے اس مطالبے کی حمائت کی ہے عوام ان شقوں کو ہر حال میں لاگو
دیکھنا چاہتے ہیں۔سیاست میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری کے خلاف یہ ایک
ایسی تلوار ہے جو بہت سے حلقوں کو ناگوار گزر رہی ہے ۔عوام کی خوا ہش ہے کہ
ٹیکس چوروں،ڈیفا لٹرز ، قرضے معاف کروانے والوں اور قوم کا روپیہ شیرِ مادر
سمجھ کر ہضم کرنے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو نی
چائیے ۔کون سا پاکستانی ہو گا جو اس بات کی حمائت نہیں کرےگا کہ آئین کی
دفعا ت 62 ور 63 کوعملی طور پر بافذ نہ کیا جائے ؟عوام کی شدید خواہش ہے کہ
موجودہ کرپٹ نظام کی جگہ نیا اور صاف ستھرا نظام لاگو کیا جائے جس میں ہر
پاکستانی کے لئے برابر کے مواقع ہوں۔ پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے
اس کی سب سے بنیادی وجہ ملک میں بڑھتا ہوا کرپشن کا ناسور ہے۔ہر ادارہ اور
ہر صاحب اختیار کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھو نے میں مصروف ہے جس کا واحد
راستہ ایک صاف ستھری قیادت کا سامنے آنا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جس وقت
آئین کی دفعات 62اور 63 کے نفاذکو یقینی بنایا جائےگا ۔استحصالی گروہ بہت
مضبوط ہو چکے ہیںاور اب انقلاب ہی عوام کی آخری امید ہے تا کہ ایک نیا
پاکستان قائم کیا جا سکے ۔ میڈیا اس وقت بہت طاقتو ر ہے اور رائے سازی میں
بڑا کلیدی کردار ادا کررہا ہے ۔ میڈیا کو بھی اس نئے نعرے کو مزید تقویت
دینے کےلئے میدان میں اترنا چائیے اور صاف ستھری قیادت سامنے لانے کےلئے اس
میں اپنا حصہ ڈالنا چائیے۔یہ عوام کی آواز ہے اور اس آواز کا ساتھ دینا ہم
سب کی ذمہ داری ہے۔۔ |