شکست آرزو پر بہت کچھ لکھا جا
چکا ہے اور بہت کچھ ابھی بھی باقی ہے یہ پاکستان کی بقاءکی کہانی ہے اس لئے
اس پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ ہم نے بھی اس کتاب کو پڑھا ہمیں
پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین مرحوم اول آخر پاکستانی نظر آئے۔ انہوں نے
نظریہ پاکستان کا مقدمہ بڑی خوش اسلوبی سے کتاب کی نظر کیا جو ایک تاریخی
دستاویز کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ شکست آرزو کتاب کے مندرجات پڑھنے سے دل
لرزنے لگتا ہے۔ اس میں پاکستان کی کہانی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے دس لاکھ
مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، عزتیں تار تار ہوئیں، تکالیف کی بڑی
داستان ہے جو کتابوں میں بھری پڑی ہے۔ حضرت قائد اعظمؒ کی قیادت میں
مسلمانان برصغیر کی انتھک کوششوں اور اس وعدے پر کہ پاکستان کا مطلب کیا
”لا الہ اللہ“ اللہ تعالیٰ نے مثل مدینہ ریاست پاکستان مسلمانان برصغیر کو
دی جس کی اساس کو ہم نے بھلادیا ہے۔
پاکستان ٹوٹنے کے جو حالت واقعات شکست آرزو کتاب میں بیان کئے گئے ہیں ان
تمام کے تمام حالات سے پاکستان اس وقت گزر رہا ہے۔ہمارے ازلی دشمن بھارت نے
علیحدگی پسند قوم پرستوں کے ساتھ مل کرمکتی باہنی بنائی تھی جس نے مشرقی
پاکستان میں ظلم ودہشت گردی کی انتہا کی اور بالا ٓخر بھارت نے اپنی فوج
مشرقی پاکستان میں داخل کر کے اسے بنگلہ دیش بنادیا ہماری ایک لاکھ فوج کو
قیدی بنالیا اور بھارت کی وزیراعظم نے اس وقت کہا تھا کہ مسلمانوں سے ایک
ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریہ کو بحر ہند میں ڈبودیا ہے آج
ہم ان ہی سے امن کی آشا پر رضامند ہے۔ مشرقی پاکستان میں مظالم پر تو سبھاش
چندربوس جو تحریک آزادی ہند کے عظیم رہنما تھے کی پوتی شرمیلا بوس جو اول
آخر بھارتی اور بنگالی ہے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبہ سیاسیات اور بین
الاقوامی تعلقات کی سنیئر ریسرچ ایسوسی ایسٹ بھی ہیں اپنی کتاب میں بنگالی
قوم پرستوں کے مظالم بیان کئے ہیں کہ ان کے مظالم نے پاکستانی فوج کو
کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کتاب میں اس نے ثابت کیا ہے کہ٭ بنگالی
عورتوں کے گینگ ریپ کے واقعات غلط ہیں انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا
ہے۔٭بنگالی قوم پرست جو ہر قسم کے انسانی جرائم میں ملوث تھے پاکستانی فوج
سے متعلق تیس لاکھ قتل عام افسانہ ہے۔٭قوم پرستوں نے اردو بولنے والے اور
مغربی پاکستان سے آنے والوں سب لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جنہیں قوم پرست
بہاری کہتے تھے۔٭ جب پاکستانی فوج نے ایکشن شروع کیا اس وقت بنگلہ دیش کے
شہروں میں زمین غیر بنگالیوں کی لاشوں سے اٹھی پڑی تھی ایک مقام پر تو
لاشوں کے باعث دریا کا پانی رک گیا تھا۔٭ آخری دنوں میں بنگالی علیحدگی
پسندوں نے اپنے ہی بنگالےیوں کو جو پاکستان کے وفادار تھے ظلم ودہشت کا
نشانہ بنایا جو تاریخ کا حصہ ہیں۔(جس میں اس کتاب کے مصنف،البدر الشمس کے
لوگ اورہر وہ شخص جو پاکستان کا حامی تھا شامل ہیں)-
اب بھی جماعت اسلامی کی ساری مرکزی قیادت کو سچائی کی سزا اور مقدمات کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان لوگوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی ان پر ایک نام
نہاد جنگی ٹریبونل جس کو ساری دنیا نے غیر جانبدار کیا ہے جنگی جرائم کے
مقدمات دائر کئے گئے ہیں بنارہے ہیں اس کے ایک رہنما مولانا آزاد کو پھانسی
کی سزا بھی سنادی گئی ہے۔اس کتاب میں بنگلہ دیش کے قوم پرستوں اور بھارت کا
مکروہ چہرا سامنے آیا ہے ۔
کتاب کی مصنفہ کو پاکستانی ایجنٹ ہونے کے طعنے سننے پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان
کی اشرفیہ کی جو حالت اس وقت پاکستان کے حالات کے بارے میں ہے ایسی ہی
کیفیت پاکستان ٹوٹنے کے وقت بھی تھی اس میں ذرا برابر فرق نہیں۔ اس وقت بھی
حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے چشم پوشی کی گئی اب بھی ویسی ہی چشم پوشی کی
جارہی ہے۔ اُس وقت بھی پاکستان توڑنے میں امریکہ شامل تھا جس کا ذکر اس وقت
کے امریکی یہودی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور اب
امریکا خود اس معرکہ کا سربراہ ہے۔ اُس وقت اس کا ساتواں بحری بیڑا ہماری
مدد کو پہنچ نہیں سکا تھا آج اِس کا بحری بیڑا پاکستان کو توڑنے کے لیے
ہمارے سمندروں میں کھڑا ہے ، اس کے مقامی ایجنٹ ہمیں اس بحری بیڑے سے ڈر
ابھی رہے ہیں۔ کراچی، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات سے آسانی سے پتہ
لگ سکتا ہے کہ کس طرح پاکستان کو توڑنے کے اسباب مہیا کردیئے گئے ہیں۔ اُس
وقت قوم کو بنگال اور غیر بنگالی میں بانٹ دیا گیا تھا اور حقوق کی بات کی
جا رہی تھی مشرقی پاکستان میں کہا جارہا تھا کہ مغربی پاکستان ہمارا
استحصال کررہا ہے۔ آج ہم مہاجر ،سندھی،بلوچی اور پٹھان کی تقسیم میں لگے
ہوئے ہیں آج ہم ملک میں امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ کو اپنی جنگ یا امریکہ
کی جنگ کی تقسیم میں بٹے ہوئے اور حقوق کی جنگ میں مصروف ہیں۔ قوم پرست تو
پہلے بھی اپنے کھیل پر عمل کر کے پاکستان کو توڑ چکے اور اب بھی قوم پرست
وہی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں ہمیں تو پاکستان کو یک جان رکھنے والے عناصر
پر بھروسہ ہے کہ وہ قوم پرستوں کے کھیل کو سمجھیں اور اس کا تدراک کریں۔اس
حالت سے نکلنے کے لئے ضروری ہے۔
٭ سب سے پہلے ملک میں جاری جنگ سے باہر آجانا چاہئے اور اپنے ناراض لوگوں
سے فوراً مذاکرات کرنا چاہئے اگرہم اپنے ازلی دشمن بھارت جس سے 4جنگیں
ہوچکی ہیں سے مذاکرات کررہے ہیں اور امن کی آشا کی بات کررہے ہیں تو اپنے
شہریوں سے بات چیت کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ طالبان نے بھی مذاکرات کرنے
کی بات کی ہے ملک کی دینی قیادت ان مذاکرات کا انتظام کرنے پر تیار کھڑی ہے،
محسن پاکستان ڈاکڑ عبدلقدیر خان نے بھی پیشکش کی ہے آخر اب نہیں تو کبھی تو
مذاکرات کرنے ہیں اگر اب مذاکرات نہ کئے گئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے
گا۔
٭ اپنے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان سے اس جنگ میں لاجسٹک سپورٹ پر معافی
مانگنی چاہئے جو ہمارے سابق سپہ سالار نے ایک تاریخی غلطی کی تھی اس سے ملک
میں امن وامان میں بہت مدد ملے گی، نیٹو سپلائی کو فوراً بند کردینا چاہئے
جس سے مسلمان ملک کے اندر تباہی پھیل رہی ہے۔
٭ ملک میں امریکہ اور دوسرے صلیبی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے افراد کو
ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنا چاہئے۔ کچھ کوتو پاک فوج نے پہلے ہی نکال چکی ہے
باقی جو ملک میں موجود ہیں ان کو بھی فوراً نکالا جائے اس میں خصوصاً بلیک
واٹر کے سیٹ اپ اور جاسوسی کرنے والی غیر ملکی این جی اونز کے خفیہ
اہلکاروں کو ملک بدر کرنا چاہئے۔
٭ فوراً غیر جانبدار اور شفاف الیکشن کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ لوگ اپنے
نمائندے منتخب کرے اور وہ منتخب لوگ آکر ملک سے بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، امن
وامان اور دوسرے مسائل حل کرے ہمارے ملک کی بقا جمہوریت میں ہی ہے چاہے اس
میں کتنی ہی خرابیاں ہوں۔
٭ ملک کا خزانہ خالی ہوگیا ہے بیرونی قرضے بند کردینا چاہئے اور قرض داروں
کو صاف صاف کہہ دینا چاہئے کہ یہ قرضے پاکستان کے کرپٹ حکمرانوںنے لئے ہیں
اس میں پاکستانی عوام کا کوئی قصور نہیں البتہ ان قرضوں کو کرپٹ حکمرانوں
سے وصولی کا انتظام کیا جائے ۔ پاکستانی عوام یہ قرضے واپس کرنے کی پوزیشن
میں نہیں۔ بین الاقوامی طورپر کوئی طریقہ وضع کر کے ان کے جمع شدہ اثاثوں
سے قرض وصول کرلیا جائے۔
٭ خارجہ امور میں پارلیمنٹ کی قرار داد، دفاہی کمیٹی کی سفارشات اور اے پی
سی کی سفارشات پر عمل کیا جائے جو قوم کی متفقہ آواز ہے اور فوراً اپنی
خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے۔ جس میں امریکہ سے تمام عام اور خفیہ معاہدے
ختم کئے جائیں جس میں ڈرون حملے کے متعلق پرویز مشرف دور میںاگر کچھ خفیہ
معاہدہ کیا گیا ہے تو اسے بھی ختم کیاجائے۔
٭ڈرون حملے کیلئے فوراً اقوام متحدہ سے رجو ع کیا جائے یہ ہمارے ملک میں
بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ناجائز مداخلت ہے اسے فوراً ختم ہونا چاہئے۔
کچھ پیش رفت شروع بھی ہو چکی ہے جو قوم کی امنگوں کی عکاسی ہے۔
٭ ملک کی مسلح افواج نے اپنے آپ کو سیاست سے دور کردیا ہے یہ اچھا شگون ہے
مسلح افواج پر بے جا تنقید پر آئین کے مطابق پابندی ہونی چاہئے تاکہ مسلح
افواج اپنے ملک کی سرحدوں میں صحیح وقت دے سکیں اور فوج ملک کی سیاسی قیادت
سے آئین کے مطابق معاملہ کیا کرے۔
٭ پاکستان میں نفاذ اسلام کی پیش رفت جو ہماری بقا کا معاملہ ہے کے لیے
اسلامی دفعات کا اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق اجرا کرنے کا
سلسلہ فوراً شروع کیاجائے تاکہ ملک میں اسلام کی برکات سے فائدہ اٹھایا
جاسکے اس میں سودی نظام کا خاتمہ، فعاشی سے نجات، اسلامی عدل وانصاف کا
نفاذ، فرد کی آزادی سے شروعات ہونی چاہئے۔
قارئین اگر ہم نے یہ کام کردیے یا کرنا شروع کردیئے تو شکست آرزو کتاب میں
درج واقعات سے سبق حاصل کرنے کا اہتمام ہوگا اگر حالات کو جوں کا توں ہی
چھوڑ دیا تو جو شکست آرزو وکتاب میں نتائج بتائے گئے ہیں اس کے لیے تیار
رہنا چاہئے۔ اللہ ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین |