ن لیگ کی “دَھرنی” کا چالیسواں

میرا کو کیمرے کے سامنے کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو، انگریزی کا تیا پانچا کرکے اور لایعنی بیانات و اعلانات داغ کر خبروں میں رہنے کا ہُنر خوب آتا ہے۔ فلموں کے معاملے میں وہ “آؤٹ اسٹینڈنگ” ہیں یعنی عموماً فلموں سے باہر رہتی ہیں مگر اِس کے باوجود بیشتر معاملات میں in رہنے کے لیے کام سے زیادہ کام کرنے کی اداکاری سے خوب کام لیتی رہتی ہیں!

مُلک میں لانگ مارچ اور دھرنوں کے فیشن نے ایسی انٹری دی ہے کہ اداکاروں اور اداکاراو ¿ں کو اپنے کیریئر اور مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ سیاست دان لانگ مارچ کرنے اور دھرنے دینے کی آڑ میں اداکاری کے ایسے جوہر دِکھا رہے ہیں کہ فلم اِسٹارز میں کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ اُنہیں یہ ڈر ہے کہ اِس سال بہترین جذباتی اداکاری اور کامیڈی کے ایوارڈ سیاست دان نہ لے اُڑیں! شاید یہی سوچ کر میرا میدان میں نکلی ہیں اور پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے نام پر اُنہوں نے 15 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔

میرا کے اعلان سے قبل ن لیگ نے پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن تک مارچ اور پھر وہاں دھرنے کے نام پر جس کامیڈی کا ارتکاب کیا اُس سے چوہدری شجاعت بہت خوش ہیں۔ اُن کی خوشی یوں دو آتشہ ہوگئی کہ اُن کے ممدوح (ڈاکٹر طاہرالقادری) کے لانگ مارچ اور دھرنے کے جواب میں ن لیگ کی اپنی سی کوشش پیدا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ طب کی اصلاح میں اِسے miscarriage کہا جائے گا! شیخ ابراہیم ذوق نے ڈیڑھ چلّو پانی میں ایمان کے بہنے کی جو بات کہی ہے وہ شاید ایسے ہی ہی دھرنا نما ڈرامے کے لیے تھی! اسلام آباد کی اقتدار بدوش فضائیں کچھ دیر کے لیے بارش کے پانی سے کیا معمور ہوئیں، جو چند افراد بمشکل جمع ہو پائے تھے وہ بھی تتر بتر ہوگئے۔ بارش کے ڈیڑھ چلّو پانی میں مارچ اور دھرنا دونوں بہہ گئے! حد یہ ہے کہ سب کو جمع کرکے الیکشن کمیشن تک چلنے کی تحریک دینے والے چوہدری نثار علی خان بھی اُسی طرح اُڑن چُھو ہوگئے جس طرح اُن کی پارٹی پانچ برسوں کے دوران سیاسی اُفق سے غائب رہی ہے! چوہدری شجاعت نے چند قدم کے مارچ اور دھرنا دینے کی اِس کوشش کو “دَھرنی” قرار دیا ہے۔ قوم یہ تماشا دیکھ کر حیران ہے کہ آج کل چوہدری شجاعت اپنی پارٹی سے زیادہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے فکرمند اور بے تاب نظر آتے ہیں۔ وہ طاہرالقادری کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ لوگوں کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ جب چوہدری صاحب کی باتیں سمجھ میں آرہی ہوں تو سُننے والے زیادہ تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں!

میرا نے فنکاروں کے ساتھ واہگہ بارڈر تک جس “لانگ” مارچ کا اعلان کیا ہے اُس کی تاریخ بھی بہت معنی خیز ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن تک ن لیگ نے جو نام نہاد “مارچ” کیا اور “ابورٹیڈ” دَھرنا دیا اُس کا “چالیسواں” بھی اُسی دن یعنی 15 مارچ کو ہوگا! ایک وہ دھرنا تھا جسے ڈاکٹر طاہرالقادری نے (عالمی) تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا قرار دیا تھا۔ یعنی ریکارڈ قائم ہوا۔ اب ایک ناکام دھرنے کے چالیسویں پر مارچ کیا جارہا ہے۔ یہ بھی شاید اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہی ہوگا۔ ویسے ن لیگ کی دَھرنی کے چالیسویں پر مارچ کا اعلان کرکے میرا نے فلم انڈسٹری کو عمدگی سے فالو کیا ہے۔ ہمارے ہاں نئی فلمیں بنانے اور نئی نسل کو بہتر فلمیں بنانے کے لیے تیار کرنے کے بجائے اب فلمی دُنیا کے مختلف ادوار کو یاد کرکے صرف دُہائی دی جاتی ہے، ماتم کیا جاتا ہے۔

مارچ اور دھرنے کے اِس موسم میں مارچ کا بر وقت اعلان کرکے میرا نے ثابت کردیا کہ اب اُنہیں شکار کھیلنا آگیا ہے۔ اُنہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کرکے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ ایک طرف تو ملک میں لانگ مارچ کے فیشن کی پیروی بھی ہوگئی اور دوسری طرف بھارتی فلم انڈسٹری میں قدر دانوں اور پرستاروں کی بھی خواہش پوری کردی جو امن کی آشا کے نام پر پاکستانی فنکاروں کے منہ سے اپنی مرضی اور مفاد کی بھاشا سُننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

فنکاروں کو ساتھ لیکر پاک بھارت دوستی کے نام پر میرا کا میدان میں نکلنے کا اعلان اِس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ سیاست اور شوبز ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوچکے ہیں۔ عوام کے لیے یہ طے کرنا خاصا دشوار ہوچلا ہے کہ کِسے کِس پر ترجیح دیں۔ سیاست دانوں نے شوبز کے طور طریقے اِس طور اپنائے ہیں کہ اُن کی شاندار اداکاری اور ایکشن دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جس طرح فلموں کی ریلیز کے لیے موقع دیکھا جاتا ہے بالکل اُسی طرح سیاست دان بھی ہر سرگرمی کے لیے دن، تاریخ اور موقع کی مناسبت کا خوب جائزہ لیتے ہیں۔ دوسری طرف شوبز والوں یہ حال ہے کہ فنکاری سے زیادہ سیاست پر زور دے رہے ہیں۔ ہمارے شوبز میں جتنا کام ہو رہا ہے اُس سے کئی گنا سیاست فرمائی جارہی ہے۔ سیاست دانوں اور فنکاروں کا کیا بگڑنا ہے۔ ہاں، عوام بے چارے چکراکر رہ گئے ہیں کہ فلمی سیاست کو انجوائے کریں یا سیاسی فلم دیکھ کر تالی پیٹیں اور سیٹی بجائیں!

تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال میں ن لیگ جو کچھ کر رہی ہے اُسے کسی “مہا فلاپ” فلم کا ری میک بنانے کی کوشش ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حکومت کے نیم دِلانہ اقدامات سے عوام کو ذرا بھی ریلیف نہیں ملتا بالکل اُسی طرح ن لیگ نے نیم دِلانہ احتجاج اور دَھرنی کے ذریعے اپنے تابوت میں خود ہی ایک اور بڑی کیل ٹھوکنے کی کوشش کی ہے۔ جلسوں اور تقریبات سے خطاب کے دوران شہباز شریف جس قدر جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس کے دس فیصد جتنا ہوش بھی اگر وہ کہیں سے لے آئیں تو کسی اپنے کو مارچ اور دھرنے کے نام پر پارٹی سے کِھلواڑ نہ کرنے دیں! چوہدری نثار نے 4 فروری کو جو کچھ کیا وہ ن لیگ کی اندرونی کیفیت کو طشت از بام، بلکہ “طشت از چھت” کرنے کے لیے کافی تھا! اُنہوں نے شاید یہ سوچا کہ عوام کہاں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں گے اِس لیے پارٹی کے معاملات کو بے لباس کردیا جائے!

ویسے میرا نے جس لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اُس میں “لانگ” ہمیں پنجابی والا لگتا ہے۔ ہمارے فنکار بھارت کے معاملے میں موقع ملتے ہی سرحد “لانگنے” پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ پاک بھارت دوستی پروان چڑھانے کا ٹھیکہ جب سے فنکاروں کو ملا ہے، اِس پورے معاملے میں صرف گلیمر رہ گیا ہے! کہیں میرا واہگہ تک لانگ مارچ کے بہانے دوبارہ سرحد لانگ کر بھارت جانے کی راہ ہموار کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنا رہیں؟ ویسے بھی بھارت ہمارے فنکاروں سے کہتا ہی رہتا ہے کہ لانگ آؤ، لالی وُڈِچ کی رکھیا اے! توجہ رہے، کہیں میرا بھی چوہدری نثار کی طرح آخری لمحات میں اُڑن چُھو نہ ہو جائیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524380 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More