”اُڑن چُھو“ ایئر لائن

پی آئی اے بھی کیا نصیب لائی ہے۔ اول تو طیارے اُڑنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اور اگر کسی نہ کسی طرح اُڑنے کے قابل بنادیئے جائیں تو بدنصیبی پرندوں کی شکل میں وارد ہوکر طیاروں کے انجن سے آ ٹکراتی ہے۔ ادارہ ٹھیک سے چل نہیں پاتا کہ خسارے سے ٹکراکر گر پڑتا ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین اور خسارے میں اضافے کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ پی آئی سے کئی ہزار ملازمین پانچ برسوں میں فارغ کئے جائیں گے۔ مگر پھر مزید ملازمین رکھ لیے جاتے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں معیشت کے بیشتر معاملات میں ہماری حکومتوں نے ایسے اُصول اپنائے ہیں جن کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ خسارے کو خسارے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے! شاید کہیں سے سُن لیا ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ کہتے ہیں دولت کو دولت کھینچتی ہے۔ کھینچتی ہوگی، ہمارے ہاں معاملہ بہت مختلف ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ بعد میں اور خسارے کو دیکھ کر خسارہ پہلے رنگ اور جڑ پکڑتا ہے! پی آئی اے کا خسارہ بھی آپس میں ضرب و جمع کے عمل سے گزرتے ہوئے اب تقریباً 140 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اور اب رہی سہی کسر تنخواہوں میں اضافے کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تو ہم نے سُنا تھا کہ سفر کے دوران طیارے ایئر پاکٹس میں پھنس جاتے ہیں مگر انوکھی مثال یہ ہے کہ ایک پوری کی پوری ایئر لائن ایئر پاکٹ میں پھنس کر رہ گئی ہے!

پی آئی اے کو طیاروں کے لیے انجن کا انتظام کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ادارے کا انجن بند ہوچکا ہے۔ ہم نے دُبئی میں دیکھا تھا کہ چھوٹے سے کمرے میں پچیس تیس ملباری رہتے ہیں۔ ان میں سے نصف ہی اُس کمرے میں سو سکتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ ایک شفٹ کام پر جاتی ہے تو دوسری سوتی ہے! عام تعطیل کے دن مصیبت ہو جاتی ہے کیونکہ سبھی گھر پر ہوتے ہیں! بس کچھ ایسی ہی حالت پی آئی اے کی بھی ہے۔ طیارے اُڑتے رہیں تو کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اب چونکہ بیس پچیس طیارے خرابی کے باعث یا انجن نہ ہونے سے کھڑے ہوئے ہیں، اس لیے رن وے چھوٹے پڑگئے ہیں!

ملک بھر میں حکومت کی ناقص کارکردگی پر احتجاج معمول بن چکا ہے۔ ایئر پورٹس بھی اِس رجحان سے مستثنٰی نہیں رہے۔ تکنیکی خرابی سے پروازوں میں تاخیر پر مسافروں کا احتجاج معمول بن چکا ہے۔ کراچی میں نشتر پارک اور نمائش چورنگی ہی ایجیٹیشن پوائنٹس نہیں بلکہ ایئر پورٹ بھی اب احتجاج، نعرے بازی اور دھرنے ہی کے لیے استعمال ہو رہا ہے!

طیارے اُڑنے اور اُڑانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں طیارے اُڑتے کم اور اَڑتے زیادہ ہیں! ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں .... باکمال لوگ، لاجواب سروس! پی آئی اے کی کارکردگی تلاش کرتے کرتے لوگ تھک گئے ہیں۔ ہم اِس معاملے میں بدگمانی سے گریزاں رہتے ہیں۔ جس طرح طیارہ بہت بلندی پر ہو تو نظر نہیں آتا اُسی طرح پی آئی اے کی کارکردگی بھی شاید بہت بلند ہوگئی ہے اِس لیے ہمیں دِکھائی نہیں دے رہی!

پی آئی اے شاید دنیا کی واحد ایئر لائن جو اُڑانے سے زیادہ طیاروں کو گراؤنڈیڈ رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے! اور اگر ایسا ہے بھی تو حیرت یا افسوس کیوں؟ آخر کو ہماری ایئر لائن اور دیگر باقی دنیا کی ایئر لائنز میں کوئی تو فرق اور انفرادیت ہونی ہی چاہیے! ویسے طیارے بہت اُڑ لیے، اب اُنہیں آرام کرنا چاہیے۔

گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے مارچ کرنے اور دھرنا دینے کے نام پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو جمع کیا اور آخری لمحات میں، یعنی جب ڈراما کلائمیکس پر تھا، خود ”اُڑن چُھو“ ہوگئے! ہماری قومی ایئر لائن بھی کچھ اِسی طرح اُڑن چُھو ہوتی دکھائی دے رہی ہے!

وفاقی مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ ہمارے ہاں بعض سرکاری ادارے ریٹائرڈ افسران کے پارکنگ لاٹ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہمارے خیال میں پارکنگ لاٹ اِس حوالے سے کوئی معقول اصطلاح نہیں۔ ڈمپنگ گراؤنڈ یا اسکریپ یارڈ کہنا زیادہ مناسب ہوگا! اور ایمان داری کی بات یہ ہے کہ پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان اسٹیل جیسے ادارے اب قومی وسائل کے قبرستان کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524372 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More