ویلنٹا ئن ڈے -- محبت منانے کا
دن
بازاروں میں زبردست چہل پہل ہے ہر طرف لال سرخ دل نظر آرہے ہیں چھوٹے بڑے
ہر سائز میں جو پسند آئے ، دل برائے فروخت ہیں جو چاہیں خرید لیں- یہ ضرور
ہے کہ ویلنٹائن ڈےکا دل محبت کی نشانی ہے ایک محبت بھرا دل ، اس دل میں
سوائے محبت کے اور دوسرا کوئی جذبہ نہیں ہے محبت، محبت اور محبت--جذبات سے
عاری اس دنیا کے کاروباری دماغوں نے سرد خانے سے صدیوں پہلے روم میں گزرے
ہوئے سینٹ ویلنٹائن کو زندہ کرکے محبت کی نشانی بنا دیااور جذبات کو نت نئے
نام اور رنگ دے دئے ہیں- بقول شاعر
" کوئی تعویذ اس رد بلا کا -محبت میرے پیچھے پڑ گئی ہے
سرخ پھولوں کی بھرمار ہے خاصکر سرخ گلاب اور دام دوگنے تین گنے، چار گنے
لیکن خریداری جاری ہے چاکلیٹ اور کینڈیز کے ڈبے،بیکری کے تمام مصنوعات کو
دل کی شکل میں بنایا گیا ہے سٹرا بری کے دام بھی آج زیادہ ہیں اس کی مخصوص
شکل کی وجہ سے اسکو چاکلیٹ میں ڈبو کر اس شکل کو اور ابھارا گیا ہے کھلونوں
نے دل پکڑا ہوا ہے -سرخ دھڑکتا ہوا دل انسانی زندگی اور اسکی امنگوں کا
آئینہ دار-لیکن اگر حقیقتا دیکھا جائے تو محبت زندگیوں سے مفقود ہو رہی ہے
نمائشی طور پر لوگ ایک دوسرے کو آئی لو یو کہہ دیتے ہیں لیکن ہمارے جیسے
جذباتی معاشروں میں بھی وہ محبت اور خلوص ختم ہوتی جارہی ہے-
آج کے یہ سارے دل اور تمام مصنوعات 14 فروری کا دن گزرنے کے بعد اگلی شام
تک آدھی اور تین چوتھائی قیمت تک آجائینگی یہ یہاں کی معیشت ہے ، خرید و
فروخت کا طریقہ کار گاہکوں کو ایک نفسیاتی کشش اور دباؤ میں ڈالنے کی کوشش
، زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب اور یہ احساس کہ یہ سب انتہائی ضروری
ہے، اسکے بغیر نہ تو تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اظہار محبت ہوسکتا
ہے (اب تو ہم بھی اس میں طاق ہوگے کہ بعد میں اونے پونے خرید لو) -بلکہ اب
پہلے سے سوچ کر رکھا ہوتا ہے کہ کینڈیز اسکے بعد خوب سستی ہو جائینگی-
مرد حضرات خواتین کیلئے۔ خواتین مردوں کیلئے، خاندان کے افراد ایک دوسرے کو
تحائف اور پھول دیتے ہیں- اسکولوں میں بچے ایک دوسرے کو اور اپنے اساتذہ کو
کارڈ اور تحائف دیتے ہیں پارٹیاں ہوتی ہیں - بچوں کو مختلف طریقوں سے کارڈ
بنانا سکھایا جاتاہے چھوٹے چھوٹے کارڈ چھوٹے چھوٹے تحائف کی صورت میں محبت
بانٹیں- جو مجھے تو اچھا لگتا ہے اسی بہانے کوئی پوچھ لیتا ہے ، ورنہ کسے
فرصت ہے اس بھاگتی دوڑتی ذندگی میں -خواتین مرد، بچے بوڑھے ہر ایک دوسرے
فرد کے لئے اپنی محبتوں کا اظہار کرتے ہیں- کتنے تو اپنی منگنی اور شادی کو
اس دن طے کرتے ہیں-یہ اس خطہ زمین میں انتہائی نیک اقدام ہے کہ کوئی جائز
رشتے میں جڑ جائے- ریسٹو رانوں میں جو رش ہوتا ہے بکنگ مشکل سے ملتی ہے اور
تیسری صنف والے استغفراللہ .... وہ بھی کسی سے کم کیوں رہیں؟ انکو بھی تمام
حقوق حاصل ہیں اور آخر انکا بھی دل ہے اور محبتیں ہیں - لب لباب یہ ہے کہ
دل اور محبت کا چولی دامن کا ساتھ ہے-
چند کتوں والوں سے ہیلو ہائے ہوئی یہ رابطہ کتے کی سطح پر ہوتا ہے انکے کتے
کی تعریف کر لی نسل وغیرہ پوچھ لی انکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہر جگہ
زندگی گذارنے کےاپنے آداب اور تقاضے ہوتے ہیں - یہ میں نے ابھی کچھ عرصے سے
شروع کیا ہے -کتوں اور بلیوں اور دیگر پالتو جانوروں کے لئے بھی ولنٹاٰ ئن
کے تحائف کی خریداری جاری ہے انکے لئے بھی دل کی شکل میں اشیا ء تیار ہیں
جو انکو کل دیے جائینگے -آخر کو وہ بھی خاندان کے فرد ہیں ہر تہوار پر انکے
تحائف کا خیال ضروری ہے وگرنہ زیادتی کا احتمال ہے ---یہ تو کرہ ارض کے اس
نصف حصے کی کہانی ہے جہاں 12 فروری کی شام ہے جبکہ باقی نصف پر دِن طلوع ہو
رہا ہے اور وہ بھی 13 کا - اور اگلے دن14 کو ہی ہیپی ولنٹائن یا یو ار مائی
ولنٹاین ہو جائے گا -وہاں کا ہنگامہ یہاں سے زیادہ بے ہنگم ہے لیکن وہ پوری
طرح اس کے منانے کے لئے تیار ہیں -
تقریبا 30 -٣٢ سال پہلے ایک عزیزہ پاکستان آئیں تو دل کے شکل کے دیدہ زیب
چوکلیٹ کے ڈبے کافی مقدار میں لائیں ایک روز مخصوص بناوٹ کے متعلق پوچھ ہی
لیا ...بتایا کہ وہاں ایک دِن منایا جاتا ہے جسے day valentine کہتے ہیں
اور یہ اس دِن دِیے جاتے ہیں میں نے پہلی مرتبہ یہ نام اس وقت سنا- نہ جانے
ہم پینڈو تھے یا زیادہ جدید نہیں تھے کہ ولنٹائن کے متعلق بھی نہیں جانتے
تھے لیکن یہی حال ہالوین اور دوسرے تہواروں کا بھی تھا- اور پھر کس کے گھر
جائیگا طوفان بلا میرے بعد --اس طوفان نے سارے ممالک کودیکھتے ہی
دیکھتےجھکڑ لیا وہاں بھی جہاں سب کچھ در پردہ ہو رہا ہے - اس کی کیا تاریخ
ہے St. Valentine حقیقتا کون تھا اور تھا بھی کہ نہیں بس اب یہ دِن حقیقت
ہے -امریکا اور یوروپ کے کاروباری دماغوں نے یہ دِن بنا لیا اور ساری دنیا
کے لئے ایک شغل شروع کر دیا - امریکا کوئی دِن منائے اور باقی لوگ پیچھے
رہیں یہ ناممکن ہے -اچھی باتوں کو اپنانا مشکل ہے لیکن جو اپنایا جاسکتا ہے
اس میں دیر کیسی؟ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے
پھر میڈیا اور ٹیکنولوجی جسنے دنیا کو اسقدر چھوٹا کر دیا -نمعلوم ہمارے
عید نے انکو ابتک کیوں متاثر نہ کیا اور مشکل ہی ہے کہ کرے -ہماری دلجوئی
کے لئے عید کے ٹکٹ تو نکال لئے جو ہم ڈر کے مارے نہیں خریدتے "ہیں کواکب
کچھ نظر آتے ہیں کچھ "-
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حد بندی کہاں کرنی ہے - محبت کرنا اور محبت
بانٹنا نہ کوئی جرم ہے اور نہ کوئی گناہ - آللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے
اور اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، جائز
اور ناجائز کی تفریق کیسے کی جائے ؟ ایک درمیانہ اور جائز، حلال راستہ
اختیار کرنے کی ضرورت ہے آخر نوجوانوں کو بھی کوئی مثبت سرگرمی چاھئیے-آپ
انکو آخرت کی عذاب سے ضرور خبردار کریں لیکن دنیا میں عزت اور وقار کے ساتھ
جینا بھی سکھایں- ہم الله سے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا سوال کرتے
ہیں - ہمارے مذہبی اور قدامت پرست حلقے اس روز کی شد و مد سے مخالفت کرتے
ہیں اسکو شرم و حیاء کے منافی سمجھتے ہیں اگر واقعی بات بے حیائی تک جائے
تو یقینا غلط ہے بھارت کی قدامت پرست ہندو جماعتیں بھی اسکی مخالف ہیں-
ہمارے کچھ حلقے اس روز کو حیا ڈے کے طور پر منانا چاہتے ہیں-- حیا ڈے منانا
بہت اچھا خیال ہے کچھ سوچیں اسکو کیسے دلچسپ بنانا ہے اور اسی کو کیوں کسی
اور دن کو بھی منایا جاسکتا ہے -جوانوں کو اس تنگنائی میں نہ بند کریں کہ
انکو سانس لینا بھی مشکل ہوجائے - اب میں تو آپ لوگوں کو کوئی happy happy
ہرگز نہیں کہونگی ---- |