گذشتہ کچھ دنوں سے معمولاتِ
زندگی متاثر ہونے کہ وجہ سے میں نے لکھنے کا سلسلہ موقوف کیا ہوا تھا اور
یہ معاملہ کچھ گتھیاں سلجھ جانے تک اٹھا رکھا تھا مگر آج کی شب بیداری کے
بعد نمازِ فجر ادا کی تو اپنے اوراد و وظائف سے فارغ ہو کر میں نے آرام
کرنے کی نیت کی تو فیس بک پر ایک صاحب نے سرخ گلاب والی تصویر لگا کر "ہیپی
ویلنٹائن ڈے" لکھ کر میرا آرام بھی ختم کر دیا اور لکھنے کے سلسلے میں جو
تعطل واقع ہوا تھا اس کا بھی خاتمہ کر دیا کہ اس بے شرمی و بے حیائی پر
خاموشی اختیار کرنا اس قبیح رسم کو معاونت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بات بالکل کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ عالمِ کفر اپنی رسوم و روایات کو
اسلامیانِ عالم کے گھروں تک پہنچانے کے لئیے پورے زور و شور سے اپنی کوششیں
جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایک عالمی سازش ہے کہ مسلمانوں کو اخلاقی اور تہذیبی
لحاظ سے اس قدر کمزور کر دو کہ ان کے اندر موجود ملی و قومی غیرت مردہ ہو
جائے۔ ایک منظم و مربوط سازش کے ذریعے ہماری اقدار، اسلاف کا طریقہ اور
اسلام کی اصل روح کو ہمارے اندر سے نکالا جا رہا ہے۔ غیروں کی تقلید اور
دنیاوی ترقی کے اس سفر میں ہم اپنی پہچان، رسم و رواج اور طرزِ زندگی بھول
کر یورپ کے فکری غلام اور نوکر بن گئے ہیں۔ بو علی سینا جیسا عظیم انسان
اسی لئیے کہتا تھا کہ مسلمان کو بہکانے کے لئیے عورت، دولت اور حکومت کا
استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ان تینوں کے ہاتھوں پٹ جاتا ہے۔ کس قدر افسوس
ناک صورتحال ہے کہ آج کفار کے اتحاد نے ہمارے درمیان اتنا اختلاف پیدا کر
دیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اس گندی رسم اور دن کو منانے اور نا منانے
کے لئیے دلائل دیتے ہیں۔ محبت کے نام پر اس دن کو منانے والوں سے کوئی تو
پوچھے کہ ان کے بوڑھے والدین اولڈ ہومز میں جا کر رہتے ہیں جب کہ اپنے
پالتو کتے کو وہ اپنے ساتھ سلاتے ہیں، محبت کے داعی مغربی معاشرے اور ان کے
پیرو کاروں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ "ویلنٹائین" کی اس روحانی اولاد میں
کتنے ایسے ہیں جن کو اپنے باپ کا تعارف ہے؟
اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبیﷺ کی وساطت
سے ہم تک حق پیغام پہنچا دیا ہے اب اس میں کمی ہو سکتی ہے نا اضافہ۔ جو لوگ
دین کے اندر رعایتیں تلاش کرتے ہیں وہ صریحاً شیطان لعین کے بہکاوے میں ہیں۔
اگر اس طرح کا دن منانا ہوتا تو یقیناً یہ کام ادوارِ اسلاف سے ہی ہورہا
ہوتا۔ اسلام ہردن کو محبت کا دن قرار دیتا ہے مگر یہ محبت کا دن نہیں ہے
بلکہ غیرت کا جنازہ نکالنے کا دن ہے جب آنکھ مچولی کر کے ، اپنے والدین،
اللہ اور اس کے رسولﷺ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر کے نوجوان اپنی قبروں اور
زندگی میں آگ کو دعوت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا میڈیا ایک ذلت
آمیز کردار ادا کر رہا ہے اور اس دن کی مناسبت سے بھرپور تیاریاں کی گئی
ہیں۔ اس بدکار حرکت کا نتیجہ دنیا میں سکون کی بربادی اور آخرت میں جہنم کی
آگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جن لوگوں کے ہاں یہ دن منانا جائز ہے وہ اس
سوال کا جواب دیں کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس کے شارعﷺ کی بیٹی کے سر
کا بال ننگا رہ گیا تو اللہ کریم نے گوارہ نا کیا کہ سورج طلوع ہو اور ہم
اس قرآن کے تابع ہیں جس نے سب سے پہلے اپنے صاحبﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں پر
پردہ لازم قرار دیا اور اس کے بعد دیگر مؤمنین کے عورتوں کے لئیے۔ اسلام کو
جبر اور شدت کا مذہب کہنے والوں کے منہ بند ہو جانے چاہئیں کہ یہ وہ دین ہے
جس نے ایک عورت کو اتنی عزت بخشی کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی
پیاس بجھانے کے لئیے صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر دوڑی تو اللہ نے قیامت تک
آنے والے حاجیوں پر فرض کر دیا، جب تک اس خاتون کی سنت پر عمل کرتے ہوئے
صفا و مروہ پر دوڑیں گے نہیں ان کا حج قبول ہو گا نا عمرہ۔ دنیا میں انسانی
و نسوانی حقوق کے ٹھیکیدار اس طرح کی کوئی مثال لائیں۔
بد کاری کی اس راہ پر چل کر ایمان کی حفاظت بہت دشوار ہو جاتی ہی۔ اظہارِ
رائے اور بنیادی انسان حقوق کے نام پر کی جانے والی اس بکواس کا مطلب عورت
کو آزادی دلوانا نہیں بلکہ عورت کے جسم تک پہنچنے کی آزادی حاصل کرنا ہے۔
نفسانی وحشت، جنسی درندگی اور عزت کی نیلامی کے سوا اس دن کا اور کوئی مقصد
نہیں ہے۔ اختلاطِ مرد و زن کسی صورت میں بھی اسلام برداشت نہیں کرتا۔ ایسی
ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے اولادوں کو بے حیائی کے کاموں کی
اجازت دی وہ خود بھی ذلیل ہوئے اور اپنے ساتھ کئی دوسروں کو بھی ذلت کی راہ
دکھلائی۔
مسلمانوں غور کرو!!!
ہمارا اپنا دین ہے، قانون ہے، شریعت ہے، دستور اور نظام ہے۔ اپنی حدود میں
رہ کر جو کرنا ہے کرو۔ اپنے دشمن کو پہچانو، یہ جاننے کی کوشش کرو کہ آج ہم
ذلؔت و پستی کا شکار کیوں ہیں؟ اللہ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے
اور ہمیں ہر خوشی کو ایک مناسب وقت اور جائز طریقے سے منانے کی اجازت دی
گئی ہے۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نا کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
یہ دن کسی صورت محبت کا دن نہیں ہے بلکہ عزت کی نیلامی، غیرت کی فروخت،
حقائق سے نظر چرانے، شیطان کو راضی کرنے اور اپنی تباہی و بربادی کا دن ہے۔
اللہ تعالٰی نے قرآنِ مقدس میں اس کا فیصلہ فرما دیا ہے ۔
ترجمہ: "گندیاں گندوں کے لئیے اور گندے گندیوں کے لئیے اور ستھریاں ستھروں
کے لئیے اور ستھرے ستھریوں کے لئیے وہ پاک ہیں ان باتوں سے جو کہہ یہ کہہ
رہے ہیں، ان کے لئیے بخشش اور عزت کی روزی ہے"۔
(سورۃ نور، آیت 26)
قرآن کریم کے اس حکم کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ایسا خیال رکھنے والوں کو
اپنے کردار اور عمل پر غور کرنا چاہئیے، اللہ کی نافرمانی اور عذاب سے بچنے
کے لئیے توبہ و استغفار کریں اور یہ جان لیں کہ یہ دن محبت کا نہیں بلکہ
غیرت کی نیلامی کا دن ہے۔ یہ دن منا کر آپ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کا
کوئی ربؔ رسول، دین اور شریعت نہیں ہے، آپ آزاد ہیں آپ مذہب اور اللہ کی
وحدانیت، رسول ﷺ کی رسالت اور قرآن کے احکامات کے غدار ہیں۔ اور دنیا میں
غداری کی سزا موت ہے۔ جو کوئی بھی اس دن کو اچھا سمجھتا ہے وہ یہ جان لے کہ
اس نے اللہ کے دین سے خود کو نکال لیا اور جہنم کا راہی بن گیا۔ ایسا عمل
کرنے والا یہ یاد رکھے کہ اس کو بدلہ بھی چکانا پڑے گا، یہ لعنت پلٹ کر اس
کے گلے پڑ جائے گی، بہن کی شکل میں، بیٹی کی شکل میں، بیوی کی شکل میں اور
کوئی بعید نہیں کی ماں ہی اس فعل کی مرتکب ہو جائے۔ الغرض کہ یہ غیرت و عزت
کی نیلامی اور لوٹ سیل ہے۔ اللہ ہم سب کو حقیقت کا عرفان اور ادراک عطا
کرے۔ آمین |