طاہر ا لقادری نے تو اعتراف کر
لیا ہے کہ وہ اس قوم کی نمائندگی کا حق نہیں رکتھے اور وہ ایک ووٹر کی
حیثیت سے پیش بھی ہوئے ہیں۔ اب انھیں چاہیے کہ موجودہ ناکام حکمت عملی چھوڑ
کر آنے والے الیکشن میں اپنے نمائندے کے چناو میں ایک اچھے شہری کا ثبوت
دیتے ہوے اپنا نمائندہ اسمبلی میں بھیجیں اور اس کے زریعے تبدیلے لانے کی
کوشش کریں۔ یا پھر کینیڈا کی شہریت واپس کرکے الیکشن میں تمائندہ بننے کی
کوشش کر دیکھیں اور ان کو لگ سمجھ جائے گی کہ تمائندگی کیا ہوتی ہے اور
تبدیلی کا عمل کیسے ہوتا ہے ۔ اور کم ازکم اب یہ تو سمجھ جانا چاہیے کہ
جمہوریت میں شارٹ کٹ ڈہونڈنے کی کوشش اب ناکام ہو چکی ہے۔ وہ آرٹیکل ٦٢، ٦٣
کا تکرار کرتے کرتے خود ہی ان کا موزوں بن گئے۔ سپریم کورٹ نے ان کو صاف
لفظوں میں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ وہ خود ہی ان آرٹیکلز پہ پورا نہیں اترتے
طاہر القادری شائد کینیڈا کی شہریت کے بعد یہ بھول گئے تھے کہ اب وہ
پاکستان کے ایک عام شہری والے بھی سارے حقوق نہیں رکھتے اور وہ اپنے آپ کو
تقسیم اور متنازعہ ہی نہیں بلکہ ملکہ کے ساتھ بھی اپنی وفاداریوں کا حلف
اٹھا چکے ہیں۔ میں مولانا کے علم اور سمجھداری پر تو شک نہیں کر سکتا اور
مجھے پکا یقین ہے کہ وہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ: وفاداریوں کا حلف ہی
نیہں اٹھاتے بلکہ وفاداریاں تبھانا مسلمان کا اصل شیوہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں
پہلے تولو پھر بولو اور جو بات کرو وہ پوری کرو۔ اب پتا نہیں ہو کس کے ساتھ
اور کون سی وفاداریاں پوری کرنے کے مشن پر ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے اور بھی بہت سارے مشکوک سوالوں کا جواب مل گیا
ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے تھے یا میڈیا والوں کا موضوع بحث
تھے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کی بہالی اور مضبوطی میں عدلیہ کا پہت
بڑا رول ہے۔ ماضی کے تمام چور راستوں کو عدلیہ نے نہ ہمیشہ کے لیے بند کر
دیا۔ تبدیلی میں وقت ضرور لگتا ہے لیکن اگر سمت صحیح ہو تو ہر اٹھنے والا
قدم فاصلوں کو کم اور منزل کی قریبی کا شاہکار ہوتا ہے۔ جس ملک کی عدلیہ
آزاد اور غیر جانبدار ہو اس ملک کہ کسی بھی قسم کے اندرونی یا بیرونی خطرات
کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ آج پوری قوم کو عدلیہ پر پورا اعتماد ہے اور مظلوموں
کے دعائیں عدلیہ کے ساتھ ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ منفی قوتوں
کی پوری کوششوں کے باوجود عدلیہ بحال ہوگئی۔
رہی بات نظام کی تبدیلی کی تو کسی بھی نظام کو بنانے، چلانے اور بہتری لانے
والے عوام ہے ہوتے ہیں اور تبدیلی آئینی حدود کے اندر رہ کر آئینی طریقہ سے
ہی لائی جا سکتی ہے۔ آئین سے ہٹ کر تبدیلی کی صورت میں ملک کے اندر خانہ
جنگی، تذبذب اور بد نظمی کا سبب بنتا ہے۔ یہ سب کچھ جمہوریت ہی نہیں بلکہ
کسی بھی مہذب قوم کی اقدار کے خلاف ہوتا ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو
اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور ہیی وہ راستہ ہے جو نظام کو مضطوط بناتا ہے۔
سماج کی تبدیلی سے ہی نظاموں کی تبدیلی آتی ہے اور یہی تبدیلی حقیقی اور
پائیدار ہوتی ہے۔ |