افضل گرو کی موت کے بعد

دہلی کی تہاڑ جیل میں قید افضل گرو کو8 فروری کی شام جب یہ اطلاع دی گئی کہ کل صبح تم کو پھانسی دیدی جائیگی تو اس نے حواس نہیں کھوئے، پوری طرح یکسو اور پرسکون رہا۔ 9 فروری ، ہفتہ کی صبح اس نے حسب معمول اول وقت نماز فجر ادا کی۔ چائے پی، اپنی اہلیہ کو آخری خط لکھا اور جب ساڑھے سات بجے پھانسی کے لئے لیجایا گیا،تب بھی اس کے قدم لڑ کھڑائے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھانسی کا پروانہ اس کے اعصاب کو توڑ نہیں سکاتھا ۔ کال کوٹھری میں اس نے 12 سال گزارے اوررونے دھونے،مایوسی، ناشکری اور اپنی تقدیر پر شکوہ کے بجائے وقت لکھنے پڑھنے میں گزارا اور صبرو استقامت کے ساتھ راضی بہ رضائے الٰہی رہنا سیکھا۔

ہر شخص جانتا ہے کہ موت ایک ابدی حقیقت ہے ۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ کون کب کس راستے سے اس حقیقت سے دوچار ہوجائےگا۔ موت کبھی کسی شیر خوار بچے کو اس کی ماں کی گود سے اچک لیجاتی ہے، کبھی جوان عمری میں کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور کبھی بڑھاپے کے وہ دن بھی دیکھنے پڑتے ہیں جب ہر گھڑی موت کی تمنا ہوتی ہے اور نہیںآتی۔مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اس ابدی حقیقت کے لئے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہے۔ 43سالہ افضل گرو کی موت پر ماتم کناں لواحقین کو صابر و شاکر رہنا چاہئے کہ وہ ایک مطمئن نفس لیکر اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوا ہے۔یہی صاحب ایمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ جیل میں تھا، اس کو پھانسی دیدی گئی، وہ آزاد ہوتا، تو اسی عمر میں کسی حادثہ کا شکار بھی ہو سکتا تھا۔جس طرح وہ اللہ کی رضا میں راضی موت کی بیدی تک گیا اسی طرح اس کی موت پراپنا آپا کھونے کے بجائے صبر و استقامت اور فراست سے کام لیا جانا چاہئے۔ اس نے زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی اہلیہ کو جو خط لکھا ہے، امید ہے اس میں بھی یہی تلقین کی گئی ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

شوقیہ ایک نیا جہاز اڑاتے ہوئے حادثہ میں جوان عمر سنجے گاندھی کی افسوسناک موت کے سانحہ پر میں نے ہفت روزہ دعوت میں اپنے کالم پر سرخی لگائی تھی ” کیا سنجے گاندھی کو بچایا جا سکتا تھا؟“ میری اس نادانی پر اس وقت جماعت اسلامی ہند کے امیر مرحوم محمد یوسف صاحب نے شفقت کے ساتھ گرفت کی تھی: ” نہیں، ہمارا ایمان ہے ، قضا و قدر کا فیصلہ یہی تھا،بدلا کیسے جاتا؟“ پاکستان میں ایوب خان کے دور آمریت میں جب مولانا مودودیؒ کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی، تو ایک سرکاری گماشتہ نے کال کوٹھری میں ان سے ملاقات کی اور پیش کش کی کہ معافی نامہ لکھ دیجئے ، جان بچ جائے گی۔ مولانانے جواب دیا: ”اگر میری موت اسی طرح مقدر ہے تو کوئی معافی نامہ بچا نہیں سکتا اور اگر نہیں ہے تو سرکار ہزار الٹی لٹک جائے ، مجھے لٹکانہیں سکتی۔“لب لباب یہ کہ انسان کی زندگی کا اصل جوہر ایک مومن کی نظر میں یہی ہے کہ جب موت کا فرشتہ نظر آئے تو اس کے قلب کی کیفیت کیاہے؟ افضل گرو اگر خطاکار تھا، توجان دیکر اس نے کفارہ ادا کردیا اورآخرت کی سزا سے بچ گیا۔ اگر بے قصور پھنسایا گیااور ظلماً پھانسی پر لٹکا گیاتو اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہے، جو آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائیگی۔مومن کا خون رائگاں نہیں جایا کرتا۔میں نے اس کالم کا آغاز تعزیتی کلمات اور ان معروضات کے ساتھ خاص طور سے اس لئے کیا کہ مرحوم کا تعلق وادی ¿ کشمیر سے تھا اور یہ وادی صوفیاءکرام کی نغمہ سنجیوں سے گونجتی رہی ہے، جن کا پیغام خصوصی تحمُّل، توکل علی اللہ اور راضی برضا رہناہے۔

افضل گرو کی پھانسی کے فیصلے پر برسراقتداریو پی اے کی طرف سے طرف سے کہا جارہا ہے کہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنامقصود تھا، کوئی سیاسی فائدہ پیش نظر نہیں تھا۔ جن لیڈروں نے یہ دعوا کیا انہوں نے اپنے گناہوں کے پشتارے میں ایک جھوٹ کا اضافہ اورکرلیا۔قانون اور انصاف کے تقاضوں کی تکمیل ہی مقصود ہے تو عدالت سے موت کی سزا یافتہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی رحم کی درخواستیں زاید از 25 سال زیرالتوا ہیں۔ ایسے مجرم بھی اس فہرست میں شامل ہیں جو کھلے بندوں دہشت گردی میں ملوّث پکڑے گئے۔ انصاف کرنا تھا توان کو پھانسی پہلے کیوں نہیں دی گئی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے جن ہزاروں بے قصوروںکو مسلح دستوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا ان کو انصاف کیوں نہیں دلایا جاتا؟ اور کیوں ان اقدامات کا تدارک نہیں کیاجاتا جو دہشت گردی کی عفریت کی بنیادہیں؟صاف ظاہر ہے کہ مقصود انصاف نہیں، سیاسی مقاصد کا حصول ہے، سنگھ پریوار اور اس کے جنونی حامیوں کی منھ بھرائی ہے اورایک خطے کے باشندوں کو اس ذہنی آزار میں مبتلا رکھنا ہے کہ جمہوری ہندستان میں تمہارا درجہ دیگر طبقوںکے مساوی نہیں۔دنیا سب سمجھتی ہے کہ بلونت سنگھ اور دیوندر سنگھ کو پھانسی کیوں نہیں دی جاسکتی اور افضل کو کیوں دی گئی ہے؟شاید کوئی احمق ہی یہ خیال کرسکتا ہے کہ سیاسی قیادت کا کوئی فیصلہ سیاسی مصلحت سے خالی بھی ہوسکتا ہے۔ پھانسی دینے سے پہلے اس کے سیاسی عواقب پر اعلا ترین سطح پر اچھی طرح غور و فکرکیا جاتا ہے۔اگر سیاسی فائدہ نظرآتا ہے تو پھانسی دی جاتی ہے اور نقصان نظرآتا ہے تو ٹال دیا جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

ہم ان تفصیلات میں نہیں جاناچاہتے کہ پوٹا کے جس قانون کے تحت افضل پر مقدمہ چلایا گیا وہ فطری انصاف کے تقاضوں کی کتنی نفی کرتا ہے، کس طرح اس کو اپنا موقف عدالت میں بہتر طور پر پیش کرنے کے موقع سے محروم رکھا گیا، کس طرح اس کے خلاف قرائن پر مبنی شہادتوں کی بنیاد پر کیس کھڑا کیا گیا اور کس طرح عدالت نے براہ راست شہادتوں کی عدم موجودگی، شریک ملزمان کے خلاف پولیس کی غلط بیانیوں کی نشاندہی کے باوجوداس کی پھانسی کی توثیق کی،انصاف کے تقاضے کس طرح پامال ہوئے اور پھر عدالت کا یہ کہنا:
"The collective conscience of the society will be satisfied only if the death penalty is awarded to Afzal Guru."
” عوام کے اجتماعی جذبہ کی تشفی صرف اسی صورت ہوگی کہ افضل گرو کو پھانسی دیدی جائے“ وغیرہ بہت سی تفصیلات ہیں جو اس شک کو تقویت پہنچاتی ہےں کہ مقصود انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنا نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔

13دسمبر 2001 کو جس وقت یہ حملہ ہوا، پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا،اور این ڈی اے سرکار کے کرپشن پر ملک بھر میں ماحول گرم تھا۔اس واقعہ کے بعد کرپشن کے معاملات پر ایسا پردہ پڑا کہ پھر اٹھا ہی نہیں۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے ناخوشگور واقعے کے لئے پڑوسی ممالک کو مطعو ن کیا جاتا تھا ۔ حالانکہ بعد کی تفتیشات سے یہ عقدہ کھلا کہ بہت سے واقعات خاص مقصد کے لئے اس گروہ کے کئے دھرے تھے جوملک میں ہندتووا کے نام پر ’صہیونی- برہمنی‘ طرز کی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کو سرکاری ایجنسیوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ چنانچہ اس حملے کے بعد بھی ملک کی مغربی سرحد پرکئی ماہ تک فوج کی لام بند رہی اور اسی گروہ کے پروردہ میڈیا نے جنگ کا ماحول بنایا اور کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ملزم کو مجرم قراردیدیا گیا اور پولیس کے نشان زد ملزمان کو پھانسی دینے کا مطالبہ عام ہوگیا۔یہی وہ مطالبہ تھا جس کوcollective conscious کا نام دیاگیا۔ ایسی ہی مہم چلاکر بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کی گئی۔ تشویش کی بات یہ ہے ملک میں قانون کی حکمرانی مفقود ہوتی جارہی ہے حکومت اس دباﺅ میں کام کررہی ہے جو مخصوص ذہنیت کا میڈیا پیدا کررہا۔ پارلیمنٹ پر حملہ انتہائی سنگین معاملہ تھا، مگر اس شک کی بہت زیادہ گنجائش ہے،جس طرح دہشت گردی کے کئی معاملات میں اصل مجرموں کی پردہ پوشی کی گئی اور بے قصوروںکو پھنسایا گیا، اسی طرح اس میں بھی ہوا ہو۔ چنانچہ افضل گرو کے ساتھ جن کو ملزم بنایا گیا تھا وہ خوش قسمت رہے کہ بچ گئے۔ ورنہ ان کے خلاف بھی آگ اس قدر بھڑکائی گئی تھی کہ جب افتخار گیلانی کو عدالت نے بری کردیا اور ان کوجھوٹاملوث کرنے پر پولیس کی گرفت کی تو انکو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس مقدمہ کی کاروائی میں اس قدر جھول اور تضادات ہیں کہ یہ اس میں کوئی شک نہیں کہ از اول تاآخر مقصد عدل و انصاف نہیں، بلکہ کچھ ہے۔ جن کی بہت تفصیل سے نشاندہی ارن دھتی رائے نے آﺅٹ لک کے اپنے تجزیہ میں کی ہے۔

مقدمے میں جھول کی وجہ سے ہی افضل گرو کی رحم کی اپیل کو اس سے قبل دو صدور ڈاکٹر کلام اور محترمہ پرتیبھا پاٹل کے ضمیر نے مسترد کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یہ بات روز اول سے ہی عیاں ہے کہ عالی جناب پرنب مکھرجی کو منصب صدارت پر اس لئے منتخب کیا گیا ہے کہ وہ کانگریس اور یو پی اے کے مفادات کے بہتر نگراں ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اناً فاناً انہوں پھانسی کے دومعاملوں میں فیصلے صادر کئے ان سے یقینا بھاجپا اہم انتخابی مدعے سے ہاتھ دھو بیٹھی اور کانگریس کے لئے راحت کا جھونکا آیا ۔ لیکن فکرمندی کا بات یہ ہے کہ افضل گرو کی پھانسی سے کشمیر میں اس امن عمل پرسخت دھکا لگا ہے جس کے کچھ خوشگوار نتائج نکلتے نظرآرہے تھے۔عمر عبداللہ نے بجا کہا ہے کہ مرکز کے اس اقدام سے کشمیری نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس مزید گہرا ہوگا۔

راRAW کے ایک سابق سربراہ اے ایس دولت نے اس فیصلے کی معقولیت پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے اس وقت یہ اقدام غیر متوقع تھا اور وادی کو کئی سال پہلے کی صورتحال میں دھکیل سکتا ہے۔ وادی میں جس طرح 8فروری کی شام سے کرفیو جاری ہے اور اخباروں و و ٹی وی چینلس پر غیر اعلانیہ پابندی عاید ہے، اس سے لوگوں کے جسموں پر تو قابو پایا جاسکتا ہے، ذہنوں میں اٹھنے والے طوفان کو نہیں روکا جاسکتا۔ مسٹر دولت نے وادی میں سیکیورٹی کے نام پر جبر و قہر کو بجا طور پر غزہ کی صورتحال سے تعبیر کیا ہے۔

محترمہ رادھا کمار نے بھی، جو مسٹر دلیپ پد گاﺅنکر کی سربراہی میں اس سہ رکنی گروپ میں رکن تھیں جس کو مرکز نے کشمیر یوں کی نبض ٹٹولنے کے لئے مقرر کیا تھا، اس اقدام پر گرفت کی ہے اور وادی پر پڑنے والے مضراثرات کو زائل کرنے کےلئے فوری اقدامات پر متوجہ کیا ہے۔ خود مسٹر پدگاﺅنکر نے بھی اپنے بلاگ میں وادی کے پس منظر میں اس کے سیاسی عواقب پر توجہ دلائی ہے اور کہا کہ ان سفارشات کو عمل میں لایا جائے جو مختلف کمیٹیوں نے پیش کی ہیں۔ ان میں اے ایف ایس پی اے کو ہٹا نا اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی شکایتوں کا ازالہ شامل ہے۔لب لباب یہ کہ کشمیر کے تعلق سے یہ ایک ناعاقبت اندیشانہ سیاسی فیصلہ ہے۔جس پر غور ہونا چاہئے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان نے بہت ہی محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ لیکن کیا مرکزی حکومت کو 2014کے چناﺅ کے ماسوا خطے میں نارمل حالات کی بحالی اور کشمیر پر پڑنے والے اس کے اثرات بد کی کچھ فکر ہے؟ ابھی ایسا کچھ ظاہر نہیں ہوا ہے۔ زخم کچھ بھر سکتے ہیں اگرAFSPA کو جزوی طور سے ہٹا نے کا اعلان کردیا جائے (جس کی پرزور سفارش جسٹس ورما کمیشن بھی کی ہے )اور ان بیواﺅں اور یتیموںکی خبر گیری کا کوئی جامع منصوبہ فوری طور سے نافذ کیا جائے جن کے ورثا ناحق مارے گئے۔ آخر مختلف حادثات میں ہلاک شدگان کے ورثاءکی بھی تو بازآباد کاری کی جاتی ہے۔ اسی سرکار نے 1984کے دنگوں کے سکھ متاثرین کی دلجوئی کی ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر اس حادثہ عظیم کے متاثرین کی خبرگیری میں کون سے چیز مانع ہے؟ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.