موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری
کرنے بعد مارچ میں تحلیل ہو رہی ہے۔ اور مئی میں عام الیکشن کا نقارہ بجنے
والا ہے۔ اسی نقارے تھاپ سننے اور سر دھننے کیلئے تمام سیا سی جماعتی بےتاب
اور اپنی ڈگڈی پر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے پیچ خم کھا رہی ہیں ۔
چھٹی بڑی تمام جماعتوں کی کو شش ہے کہ آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ
عوامی حمایت حاصل کر کے اسمبلیوں میں موثر نمائیندگی حاصل کو سکیں ۔اس دوڑ
میں مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹی مذہبی جماعتیں بھی کسی طور پیچھے نہیں
۔سنی تحریک ،سنی اتحاد کونسل، جمعیت علمائے اسلام ف جمعیت علمائے اسلام س
جمعیت علمائے پاکستان ، فقہ جعفریہ، سپاہ صحابہ جماعت سلامی سمیت دیگر
مذہبی جماعتیں ھیں جو انتخابات کامیابی کے حصول کیلئے کوشاں بھر پور عوامی
رابطہ میں مصروف ہیں۔مگر کیا وہ کامیابی حاصل کر پائیں گی؟یہ ایک دلچسپ
سوال ہے کیو نکہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے اپنے مسالک کی بنیاد پر الیکشن
میں حصہ لے رہی ہیں اور تکلیف دہ اَمر ہے کہ وہاں بھی اختلافات اور گروپ
بندیاں موجود ہیں ، ملک بھر میں اہلسنت و الجماعت مسلک کی سب سے بڑی اکثریت
ہے اور یہ اکثریت بھی گروہ بندی کا شکار ہے، سنی تحریک اپنے طور پر امیدوار
کھڑے کررہی ہے، سنی اتحاد کونسل دو گروپوں میں تقسیم کو فضل کریم کی قیادت
میں مسلم لیگ ق سے اتحاد کرچکی ہے جبکہ محفوظ شاہ مشہدی گروپ مسلم لیگ ن کے
ساتھ بیٹھنا پسند کر رہا ۔ مولانا فضل الرحمن نے مجلس عمل اگرچہ بحال کی
مگر ان کی کاوشیں جمعیت علماءاسلام کے لیے ہی ہیں اور وہ بھی مسلم لیگ ن کے
ساتھ بیٹھنا پسند کررہے ہیں۔ منہاج القرآن کی کوکھ سے جنم لینے والی
پاکستان عوامی تحریک بھی لانگ مارچ اور دھرنے کے ثمر سے پھر فعال ہو کر اور
حیثیت منوا کر تحریک انصاف کو اپنے قریب کرچکی ہے۔ جمعیة اہلحدیث مسلم لیگ
ن کی قربت میں ہی تسکین محسوس کررہی ہے جبکہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اس
کی حلیف جماعتیں کوئی خاص تاثر نہیں دے پارہیں، اس کے علاوہ سپاہ صحابہؓ جو
حق نواز جھنگوی اور مولانااعظم طارق کی زندگی میں اپنا بلند مقام حاصل
کرچکی ہے اس کی بھی کوئی بازگشت نہیں سنائی دے رہی۔ جماعت اسلامی جسے مذہبی
سیاسی جماعتوں میں منظم ترین جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے تاحال اکیلی
میدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے اتحاد کی اگرچہ
باتیں فضاﺅں میں گونجیں مگر معاملات طے نہ پاسکے۔
اب یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے کے باوجود مذہبی
جماعتیں بری طرح پٹ جائیں گی، صرف اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی بناءپر
اگر کچھ مذہبی لوگ کامیاب ہوسکیں گے تو وہ اپنے فرقے یا مسلک کی بنیاد پر
نہیں بلکہ دوسروں سے اتحاد کی بدولت اس لیے ابھی بھی وقت ہے کہ جس طرح تمام
مذہبی جماعتوں نے 2002ءکے الیکشن میں شاہ احمد نورانی کی آواز پر لبیک اور
قاضی حسین احمد کی آواز سے آواز ملا کر آمین کہا اور متحدہ مجلس عمل کو
قائم کیا گیا تھا، آج بھی اسی جذبہ اتحاد کو اجاگر کیا جائے، مسلکی تفرقات
کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک مضبوط مذہبی سیاسی اتحاد بنا کر میدان میں اُترا
جائے تو بلا شبہ کامیابی یقینی اَمر ہے ورنہ پھر وہ کیا کہتے ہیں
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا |