گاندھی جی کو ان کے دشمن ناتھو
رام گوڈسے نے۳۰جنوری ۱۹۴۸ کی صبح قتل کردیا ۔اس واردات کے ۶۵ سال اور دس
دن بعد گاندھی جی کی نام لیواکانگریس نے افضل گروکو پھانسی دے دی ۔ دونوں
مواقع پر ہندو فسطائیت پسندوں نے مٹھائی تقسیم کی اور کانگریسیوں سیاسی
فائدہ حاصل کیا۔ جدید ہندوستان کی تاریخ میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد
دوسرا سب سے بڑا جرم افضل گرو کی پھانسی ہے ۔یہ جرائم گاندھی جی کے قتل سے
بھی زیادہ اس لئے سنگین ہیں کہ گاندھی جی کاقتل ایک فرد اور ایک تنظیم کی
مذموم حرکت تھی۔ حکمراں تریمورتی یعنی مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ اس کے
مقابلے سینہ سپر تھی۔ عوام میں بھی اس کے خلاف غم وغصہ تھا لیکن بابری مسجد
اور افضل گرو کے معاملے میں ان تینوں سرکاری ادارے آپس میں ساز باز کرکے
ظلم عظیم میں شریک کار ہوگئے اور عوام نے ذرائع ابلاغ کے جھانےف میں آکر
اس پر اطمینان کا اظہار کیا ۔
افضل گرو کی حقیقت جاننے کیلئے معروف صحافی ونود ۰ کے۰جوس کے ذریعہ لئے گئے
افضل گرو کا انٹرویو کودیکھاجا سکتا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے ۔ اس میں
افضل کی ذاتی زندگی اوران تمام واقعات کی تفصیل موجود ہے جن کے ذریعہ ا سے
سازش میں پھنسایا گیا ۔ عدالتِ عالیہ کے اس غیرمنصفانہ فیصلے میں موجود بے
شمار اختلافات اور نقائص سے واقف ہونے کیلئے انگریزی جریدے آوٹ لوک کے۳۰
اکتوبر۲۰۰۶ شمارے میں ارون دھتی رائے کا طویل مضمون مفیدہو سکتا ہے ۔ یہ
بھی انٹر نیٹ پر سے دستیاب ہے ۔ یہ دونوں حق پسند نفوس نہ تو پاکستانی ہیں
اور نہ مسلمان اس لئے ان پر جانبداری کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔
افضل گرو پر لگائے گئے الزامات اور اسکے خلاف کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے
جو صریح اعتراضات کئے جاسکتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
I. ۱۳ دسمبر کو پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے سےپہلےہی حکومت اس اندیشے کا
اظہار کر چکی تھی بلکہ حملے سے صرف ایک روز قبل بھی وزیراعظم اٹل بہاری
واجپائی نے متنبہ کردیا تھا ۔اس لئے لازماً حفاظتی انتظامات میں اضافہ کر
دیا گیا ہوگا۔ ایےا میں بلااجازت یا توثیق آتش گیر مادے سے لدی ہوئی ایک
گاڑی کاپارلیمان کے احاطے میں داخل ہونا نا ممکن تھا ۔
II. ابتدا ہی میں دہلی پولس کے خصوصی دستے نے جیش محمد اور لشکر طیبہ پر
حملہ کا الزام لگایا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس حملے میں کابل لے جانے والے
جہاز کا اغوا کار محمد ملوث ہے ۔ یہ دونوں باتیں عدالت میں ثابت نہیں ہو
سکیں ۔
III. محمد وہی شخص تھا جسے کشمیر سے سیکیورٹی افسران نے افضل گرو کے ساتھ
دہلی روانہ کیا تھا ۔ افضل کا قصور اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا کہ حکم کی
بجا آوری وہ اس شخص کے ساتھ دہلی آیا ۔ حملے میں براہِ راست ملوث ہونے کا
الزام افضل پر کسی نے نہیں لگایا ۔لیکن حیرت انگیز طور پر افضل کی گرفتاری
سے قبل پولس نے محمد کا نام ظاہر کردیا تھا ۔
IV. افضل نے محمد کے علاوہ اسپیشل ٹاسک فورس کےطارق نامی شخص بھی ذکر کیا
ہے جس محمد کی اس نے دہلی میں ملاقات کرائی تھی ۔ اس طارق کا پتہ لگانے کی
کوشش دہلی پولس نے نہیں کی حالانکہ وہ سازش کی ایک اہم کڑی تھا ۔
V. یہ حملہ ایوان کے آس پاس لگے ٹی وی کیمروں نے ریکارڈ کرلیا تھا اس کے
باوجود ان کی مدد سے اصلی حملہ آوروں کا پتہ لگانے کی سعی نہیں کی گئی ۔
افضل گرو پر ساری توجہ مبذول کروا کر سازش رچانے والوں کو بچا لیا گیا اور
حقیقی مجرمین کی پردہ پوشی کی گئی ۔
VI. کانگریس کے رہنما کپیل سبل نے کلوز سرکٹ ٹی وی کی فلم ممبرانِ پارلیمان
کو دکھلانے کا مطالبہ کیا ۔ راجیہ سبھا کی صدر نجمہ ہپت اللہ (جو بی جے پی
کی مدد سے منتخب ہوئی تھیں )نے بھی حملے سے متعلق کنفیوژن کو دور کرنے
کیلئے فلم کو پیش کرنے کی حمایت کی لیکن ان سوالات کے سامنے آتے ہی
پارلیمان کا اجلاس اچانک ختم کردیا گیا ۔
VII. اس فلم کو نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی عوام تک پہنچایا گیا
جبکہ یہ حقیقت تک پہنچنے کا بہت بڑا ذریعہ تھی
VIII. ایوانِ پارلیمان میں کانگریسی رہنما اور وہپ پریہ رنجن داس منشی نے
کہا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے۶ حملہ آوروں کو گاڑی سے اترتے دیکھا تھا
لیکن پولس نے صرف پانچ لاشیں برآمد کیں اور چھٹے حملہ آور کا پتہ لگانے
کی کوشش ہی نہیں کی
IX. افضل کے خلاف سب سے بڑا ثبوت اس کا اعترافِ جرم تھا حالانکہ عدالت میں
افضل نے اس کا یہ کہہ کر انکار کردیا کہ زورزبردستی کا نتیجہ تھا ۔ اس کے
باوجود اس ناقابلِ تسلیم ثبوت کو بنیاد بنا کر موت کی سزا سنائی گئی
X. افضل نے ٹی وی چینلس کے سامنے جب کہا کہ پروفیسر گیلانی ملوث نہیں ہیں
تو پولس افسر راجبیر سنگھ نے سب کے سامنے اسے ڈانٹا اور صحافیوں کو وہ جملہ
حذف کرنے کا حکم دیا ۔ اپنے آپ کو آزادی کا تمغہ بانٹنے والے ذرائع ابلاغ
نے راجبیر کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور پروفیسر گیلانی کے خلاف مضامین کا
سلسلہ جاری ہو گیا ۔
XI. تین ماہ بعد بغیر ایڈٹ کےحقیقی فلم آجکل ٹی وی چینل پر حملے کا سواں
دن نامی پروگرام میں اتفاقًا نشر ہوگئی ۔ اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت
نے اس کی بنا پر پروفیسر گیلانی کو رہا کیا لیکن راجبیر کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں کی اور افضل گرو پر اس کی دھونس دھمکی کو بھی تسلیم نہیں کیا
XII. پروفیسر گیلانی کو پولس نے اس سازش کا سرغنہ قرار دیا تھا ۔ عدالت نے
اس الزام کو مسترد کر کے گیلانی کو رہا کردیا لیکن اسی پولس کے الزام کی
بنا پر اصل سرغنہ کا پتہ لگائے بغیرافضل کو سزا سنا دی ۔
XIII. ایک گواہ نے افضل کوسم کارڈ فروخت کرنے کی جو تاریخ بتلائی، سِم کارڈ
کواس کے پہلے سے استعمال میں پایاگیا
XIV. پولس کے مطابق افضل گرو کی نشاندہی پروفیسر گیلانی نے کی لیکن ان کی
گرفتاری سے قبل سری نگر پولس کو افضل کی گرفتاری کے احکامات دے دئیے گئے
اورٹی وی والوں نے پولس کے حوالے سے افضل کی تلاش کی خبرنشر کردی۔
XV. افضل نے عسکریت پسندی سے تائب ہوکر ہتھیار ڈال دئیے تھے اور وہ حکومت
کی نگرانی میں تھا ۔ جو شخص ہر ہفتہ پولس تھانے میں حاضری دیتا ہو اور آئے
دن گرفتاری کے عذاب سے گزرتا ہوپارلیمان پر حملے کی سازش نہیں کرسکتا تھا۔
XVI. پولس کی مسلسل نگرانی میں رہنے والے شخص کو لشکر یا جیش اپنی کسی اہم
مہم میں استعمال کرنے کی غلطی نہیں کرسکتے تھے
XVII. دسمبر ۱۹ کو جب حملہ آوروں کی تصاویر شائع ہوئیں تو مہاراشٹر میں
واقع تھانے پولس کمشنر شنگاری نے ان میں سے ایک کولشکر کےمحمد یاسین کی
حیثیت سے پہچان لیا ۔ اسے نومبر ۲۰۰۰ میں ممبئی سے گرفتار کرکے جموں کشمیر
پولس کے حوالے کیا گیا تھا ۔پولس کی حراست موجود ملزم کوپارلیمان پر حملہ
کرنے کا موقع کس نے دیا ؟یہ اہم سوال ہے۔
افضل گرو کے فیصلے کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو ایسے بے شمار نقائص اس کے
سامنے آجاتے ہیں لیکن اگرعدالت کا فیصلےعدل کی بحالی کے بجائے اجتماعی
ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے دئیے جانے لگیں تو حقائق دھرے کے دھرے رہ جاتے
ہیں اور انصاف کا خون ہو جاتا ہے ۔ اس حادثے میں اور بابری مسجد کے سانحہ
میں زبردست مشابہت پائی جاتی ہے دونوں فیصلے عقلی دلائل یا عملی شواہد کی
بنیاد پر نہیں کئے گئے ۔ بابری مسجد کو مذہبی عقیدے کا مسئلہ بنا کر انصاف
کی دھجیاں اڑا ئی گئیں اور افضل گروکو اجتماعی ضمیر کی سولی پر چڑھا دیا
گیا سیکولر ہندوستان میں عدالت کے فیصلے عقیدے یا ضمیر کی بنیاد پر کئے
جاتے ہیں۔عقیدہ اکثریتی فرقے کا اور اجتماعی ضمیر اقلیت کے خلاف ہوتا ہے۔اس
نام نہاد جمہوری نظام میں نہ صرف بیلٹ باکس بلکہ عدالت میں انصاف کے ترازو
پر بھی بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔
ان دونوں واقعات میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان زبردست تال میل نظر
آتا ہے ۔ بابری مسجد کے اندر مورتی فرقہ پرستوں نے رکھوائی تالا عدالت نے
لگوایا۔اسے کھلوانے کے بعد کانگریس نے شیلا نیاس کروا کر بی جے پی سے وہ
مسئلہ چھین لینے کی کوشش کی اور خودہندو رائے دہندگان کی خوشامد کرنے لگی ۔
جب بی جے پی والے مسجد کے انہدام کی خاطر ایودھیا میں جمع ہوگئے تو انہیں
مسجد شہید کرنے کاموقع دیا اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر بی جے پی ریاستی
حکومتیں برخواست کردیں ۔ الہ بادعدالت سے فیصلہ کروا کر مسجد کی جگہ رام
مندر کو دلوا دی ۔پارلیمان پر حملے کا ڈرامہ بی جے پی نے کروایا کانگریس نے
افضل گرو کو اس کے الزام میں پھانسی دے کر پھر ایک بار ہندووں کو خوش کرنے
کی کوشش کی اور بی جے پی کو ایک اہم انتخابی مدعا سے محروم کردیا ۔
ان دونوں مواقع پر کانگریس اور بی جے پی میں مفاہمت کی ایک اور وجہ دونوں
کا رام بھکت ہونا ہے ۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ گاندھی جی بھی ہندوستان
میں رام راجیہ قائم کرنا چاہتے تھے اور راجیو گاندھینے بھی ایودھیا میں
شیلا نیاس کے بعد رام راجیہ کا وچن دیا تھا ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گاندھی
جی کا رام راجیہ اڈوانی جی کےرام راجیہ سے مختلف تھا ۔ وہ بیچارے یہی نہیں
جانتے کہ رام راجیہ کیا تھا ۔ اگر انہیں رام راجیہ کی حقیقت معلوم ہو جائے
تو وہ ایسا بیان دینے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔جن لوگوں نے رامائن پڑھی
ہے انہیں پتہ ہے کہ رام راجیہ دراصل رام جی کے بن باس کے بعد ہی قائم ہوا
تھا ۔ اس سے قبل ایودیا نگری پراول تو راجہ دشرتھ کی حکومت تھی اور بعد میں
بھرت کی حکومت قائم ہوگئی ۔ رام راجیہ کے قیام سے قبل لنکا کے اندر شری رام
کا سیتا مائی کے ساتھ سلوک اور ایودھیا واپس آنے کے بعد سیتا جی پر ڈھائے
جانے والے مظالم کا کودیکھنے کے بعداقلیتوں کے ساتھ کانگریس اور بی جے پی
کی بدسلوکی اپنے آپ سمجھ میں آجا تی ہے۔ اس لئے کہ جمہوری نظام میں
اقلیتیں اسی طرح کمزور اور بے بس ہوتی ہیں جیسی کی سیتاجی رام راجیہ کے
اندر تھیں ۔
بن باس کے دوران شکار پر جانے سے قبل رام نے ایک لکشمن ریکھا کھینچ کر سیتا
کو اسے پار نہ کرنے کی ہدایت کی۔ اسی طرح کی ایک سرحد ہندوستا ن اورپاکستان
کے درمیان بنٹے ہوئے کشمیر کے درمیان ہے جسے پار کرنے کی اجازت کشمیریوں کو
نہیں ہے ۔ سیتا کی غلطی یہ تھی کہ وہ راون کو نہ پہچان سکی اور اسے بھکشو
سمجھ کے ریکھا سے باہر نکل گئی ۔اس کے نتیجے ان کو ا غوکرلیاگیا ۔ افضل نے
سرحد عبور کرکے پاکستان کی جانب کوچ کیا لیکن واپس آکراپنی مرضی سے ہتھیار
ڈال دئیے ۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ حکومت کارویہ ویسا ہی تھا جیسا کے سیتا
کے ساتھ شری رام کا تھا ۔
لنکا میں فتح حاصل کرنے کے بعد رام ازخود سیتا کے پاس نہیں گئے اور جب وہ
بیچاری ان کے پاس آئی تو اس سے کہا میں نے دشمن کو شکست دے کر جنگ کے
انعام کے طور پر تمہیں حاصل کیا ہے ۔میں نے دشمن کو سزا دےکر اپنا وقار
بحال کیا ہے ۔ یہ ایسا ہی جیسے کانگریس والے بی جے پی سے کہہ رہے ہوں ہم نے
افضل کو سزا دے کر اپنا وقار بحال کیا ہے ۔میں تمہیں بچانے کیلئے نہیں بلکہ
راون کا قتل کرنے اور اپنی ہزیمت مٹانے کیلئے یہاں آیا تھا ۔ کانگریس نے
آئندہ انتخاب میں اپنا وقار بحال کرنے کیلئے قصاب کے بعد افضل کو قتل
کردیا ۔ سیتا جی کوجس طرح اگنی پریکشا سے گزرنے پر مجبور ہونا پڑا ویسی ہی
آزمائشوں سے ہتھیار ڈالنے کے بعد افضل کو گزرنا پڑا لیکن اس کے باوجود
دونوں پر اعتماد نہیں کیا گیا بلکہ مشکوک نگاہوں سے دیکھاگیا۔
مظلوم سیتا کو محل سے نکالنے کیلئے بھی اجتماعی ضمیر یا رائے عامہ کے پاس و
لحاظ کا بہانہ بنایا گیا ۔ اس زمانے کسی کے خلاف فضا بنانے کیلئے ذرائع
ابلاغ نہیں تھااس کے باوجود معاشرے میں گردش کرنے والی افواہوں کی بناء پر
اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطرسیتا کو ایک سازش کے ذریعہ بتلائے بغیر جنگل
میں روانہ کردیا گیا جیسا کہ افضل کے اہل خانہ کو بتلائے بغیر چوری سے
پھانسی کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا ۔ رامائن کے اندر سیتا کاانجام دل
دہلا دینے والا ہے ۔ افضل گرو کی مانند بارہ سال کے بعد والمیکی سیتا کو
لےکر مریادہ پرشوتم رام کےدربار میں آتے ہیں۔ سیتا سے اجتماعی ضمیر کو
مطمئن کرنے کی خاطر پھر ایک بار اگنی پریکشا کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ اس
موقع پر سیتا دعا کرتی ہے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دھنس جائے
۔ست یگ کےرام راجیہ میں زمین پھٹتی ہے لیکن اس میں ظالم کے بجائے مظلوم کو
دھنسنا پڑتا ہے ۔ رام راجیہ محفوظ و مامون رہتا ہے ۔
رامائن میں سمبوکا نامی ایک شودر کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ اس غریب کا قصور یہ
تھا کہ اس نے سورگ میں جانے کیلئے اپنے طور سے تپسیا شروع کردی تھی ۔ جس کے
نتیجے میں ہزاروں میل دورایودھیا میں ایک براہمن کا بچہ مرگیا ۔ اس براہمن
نے دربار کے آگے لاش کو رکھ کر مرن برت شروع کردیا ۔ رام نے اپنے اقتدار
کو بچانے کیلئے درباریوں سے مشورہ کیا تو انہیں بتلایا گیا کہ کوئی شودر
عبادت کررہا ہے اور یہ دھرم کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ رام نے اس معصوم کو
تلاش کرکے اسے قتل کردیا ۔براہمن بچہ زندہ ہوگیا سارے لوگوں نے رام کو اس
سفاکی پر ویسے ہی مبارکباد دی جیسے کہ کانگریس کو افضل کی پھانسی پر دی گئی
۔ رام راجیہ میں سمبوکا نامی شودر کو بغیر کسی معقول وجہ کےبراہمن بچے کی
زندگی کیلئے موت کے گھاٹ اترنا پڑتا ہے۔ افضل گرو کی پھانسی اس بات پر شاہد
ہے کہ رام راجیہ کے اندر عدل و انصاف کا بول بالاچونکہ ست یگ میں بھی نہیں
تھا تو کل یگ میں کانگریسی اور بھاجپائی رام بھکتوں سے اس کی توقع کرنا صرف
اور صرف خام خیالی ہے۔ |