محترم قارئین کرام السلامُ علیکم
میں آپ کا بُہت شکر گُزار ہُوں۔ کہ،، آپ میری باتیں سُن لیتے ہیں۔ یعنی کے
پڑھ لیتے ہیں۔ اُور اسطرح آپکے سُننے اُور بقولِ بیگم ہمارے ہذیان بَک لینے
سے ہمارے سینے کا غُبار لفظوں کی بھڑاس کی صورت باہر نِکل جانے کے باعث
ہمارا غم کُچھ ہلکا پڑ جاتا ہے۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے نا کہ،، کچھ باتوں
کا دُنیا میں وجود ہی نہیں ہُوتا۔ اُور لوگ اُن باتوں پر ایسے ہی اعتماد
کرلیتے ہیں۔ جیسے ہر ذِی نفس کا اِس مُحاورے کے مِصداق یقین کامل ہُوتا ہے
کہ،، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! یعنی زندگی کے بعد مُوت یقینی طُور
پر آئے گی۔۔۔
لیکن ہمیں اِس مُحاورے سے ذیادہ اِس بات کی خُوشی ہے۔کہ مُوت کے بعد ایک
ایسی زندگی بھی ہُوگی۔ جسمیں ہماری زندگی پر صِرف ہمارا ہی اِختیار ہُوگا۔
ہماری بیگم کا نہیں۔۔۔! ہاں تو میں ذکر کررہا تھا۔ اُن انہونی باتوں کا
جنکا حقیت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہُوتا لیکن ۔ وُہ اتنے تواتر سے بیان
کی جاتی ہیں۔ کہ شکاری بیچارہ خُود دَام فریب میں آجاتا ہے۔ ۔۔جیسے یہ بات
ہمارے معاشرے میں بُہت مشہور ومعروف ہے کہ،، عورت بیچاری اللہ کریم کی گائے
ہُوتی ہے، یا ساری دُنیا میں عورت کو پاؤں کی جُوتی سمجھا جاتا ہے، عورت
مظلوم ہُوتی ہے، یا ساری زندگی مَرد کی لاٹھی کمزور عورت کی کمر پر برستی
رہتی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اُور یہی بات بیچارے کنوارےمَرد سُن سُن کر دھوکہ
کا شِکار ہُوجاتے ہیں۔ اُور جب تک اُنہیں ہُوش آتا ہے۔ تب تک غلامی کی
زنجیر سے اُنکی مشکیں کسی جاچُکی ہُوتی ہیں۔ اب چُونکہ ساری زندگی لوگوں کی
زُبانی یہی سُنا ہُوتا ہے کہ،، مَرد شیر ہُوتا ہے۔ مَرد گھر کا بادشاہ
ہُوتا ہے۔مرد بیوی پر حاکم ہُوتا ہے۔ اُور مَرد کو دَرد نہیں ہُوتا۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو بیچارہ مَرد عورت پر حُکمرانی کا شوق لئے قبول ہے۔ قبول
ہے ۔کی صدا لگاتا خُود کو گرفتاری کیلئے پیش کردیتا ہے۔۔۔ لیکن شادی کے بعد
بیگم کی طرف سے اُسکی جو دُرگت بنائی جارہی ہُوتی ہے۔ وُہ کسی سے کہنے کے
قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔ ورنہ تمام مردانگی کا بھرم جاتا رہے گا۔۔۔ یہی سُوچ
کر بیچارہ شوہر اپنی مردانگی کے قصے دوسرے کنواروں کو انتقام کی خاطر
سُناتا رہتا ہے۔ کہ جب ہم نہیں بچے تو اُور کوئی کیوں بچ پائے۔
لیکن شادی کے بعد جلد ہی اُس پر یہ راز آشکار ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ اکیلا
نہیں ہے۔ بلکہ ہر گھر میں بیچارے شوہر کا وہی پتلا حال ہے۔ جو کہ اُسکی
بیگم نے اُسکا بنا رکھا ہے۔ تو آہستہ آہستہ یہ دَرد سہنے کی عادت بھی پڑ ہی
جاتی ہے۔۔۔۔ اگرچہ کے مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔۔۔ کہ،،میرا یہ بغاوتی کالم
میرے پِلپلے سر پر مزید بیلن برسنے کا موجب بن سکتا ہے۔۔۔ لیکن کیا کروں۔
مجھے اپنی جنس مرد جاتی سے بُہت ہمدردی ہے۔۔۔۔ اِس لئے اپنے مظلوم شادی
شُدہ بھائیوں کے دِل کی آواز کو اپنی مَرد جاتی کے کنواروں تک پُہنچانا
اپنا فرض سمجھتا ہُوں۔۔۔ تاکہ کل کلاں کو وُہ یہ شِکایت کرتے نطر نہ آئیں۔
کہ کاش کسی نے ہمیں سمجھایا ہُوتا! حالانکہ میں یہ بات بھی اچھی طرح جانتا
ہُوں۔ کہ میری اِس بات کا کنواروں پر کوئی خاص اثر نہیں ہُونے والا۔ کیوں
کہ شادی کے اِس زہریلے لَڈو کو شہد و زعفران سے اِسطرح سجایا جاتا ہے۔ کہ
اِسکا زہر کنوارے بھنوروں۔۔۔ معاف کیجئے گا۔۔ میرا مطلب تھا کہ،، کنوارے
مَردوں کا بالکل نظر نہیں آتا۔ بہرحال میرا کام تو صِرف سمجھانا ہے۔ باقی
نصیب کی مار بھلا کُون ٹال سکتا ہے۔۔۔؟
کسی دانا کو قُول ہے۔۔۔ اُور ہمارے تجربے کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ
ہزار فی صدی سچ پر مبنی قُول ہے۔ کہ ایک عقلمند آدمی جب دِل میں کسی کام کا
فیصلہ کرلیتا ہے۔ تب وُہ سب سے پہلے اپنے والدین کی صلاح لیتا ہے۔ پھر اپنے
بھائیوں کی مُشاورت حاصل کرتا ہے۔ اِس کے بعد اپنے دوست احباب کی رائے
معلوم کرتا ہے۔۔۔۔ لیکن پھر بھی کرتا وہی ہے جو اُسے اُسکی بیگم کہتی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ جس دِن ہمارے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کا ولیمہ
اُور اُنکی آزادی کا آخری دِن تھا۔ میرے بھائی کے بیشمار دُوست اُسکے ولیمے
کی دعوت کھانے کیلئے۔ جبکہ کچھ احباب آزادی کے آخری دِن کا جشن منانے کیلئے
ہمارے گھر تشریف لائے ہُوئے تھے۔ اچانک ایک کنوارے دُوست نے تمام حاضرین سے
ایک عجیب اُور نہایت ہی نامعقول سوال دریافت کرلیا۔ اُنکا نامعقول سوال اِس
کے سِوا اُور کیا ہُوسکتا تھا۔ کہ جو شادی شُدہ مرد اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا
وُہ اپنا ہاتھ اُٹھالے۔ ۔۔۔مجھے اُس دِن کے علاوہ کبھی بھی شادی شُدہ مردوں
کی مُنافقت پر غصہ نہیں آتا۔۔۔ کیونکہ مظلوموں پر غصہ کرنا میری دانست میں
مردانگی نہیں ہُوتی۔۔۔۔ کیونکہ شادی شُدہ مردوں سے ذیادہ مظلوم دُنیا میں
بھلا کون ہُوسکتا ہے۔۔۔ اُور اُس دِن بھی غصہ صرف اسلئے آیا تھا۔ کہ کمبخت
پچاسیوں مُنافقوں نے ایک دَم جھٹ سے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہاتھ بُلند
کردیئے۔۔۔ تمام حاضرین میں صرف میں واحد شادی شدہ مرد تھا۔ جس نے ہاتھ
بُلند نہیں کیئے تھے۔
بس پھر کیا تھا۔۔۔۔میرے ہم جِنس مظلوم دوستوں نے مجھے ہی نشانے پر رکھ
لیا۔۔۔۔ کسی نے زن مُرید کا خطاب عطا کرڈالا۔ تو کسی نے ڈرپوک آدمی کہہ کر
اپنی خِفت مٹانے کی کوشش کی۔ میرے بھائی کے ایک دوست جو پیشے کے اعتبار سے
انجینئر تھے۔ اُور اتفاق سے شادی شُدہ بھی تھے۔ میری طرف دیکھ کر طنزیہ
کہنے لگے۔کیا آپ اپنی بیگم سے ڈرتے ہیں۔۔۔؟ میں نے اثبات میں سر ہِلاتے
ہُوئے عرض کیا۔۔۔ جناب میں اکیلا ہی اپنی بیگم سے نہیں ڈرتا۔۔۔ بلکہ ہر
شریف النفس انسان اپنی بیگم سے ڈرتا ہے۔۔۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ ہر آدمی
سچائی کا سامنا نہیں کرپاتا۔۔۔ لیکن میری سچائی سے مُتاثر ہُونے کے بجائے
تمام شادی شُدہ لوگوں کیساتھ وُہ انجینئر صاحب مجھے خاص طور پر بھری محفل
میں تماشہ بنانے لگے۔ اُور مجھے نصیحت کرنے لگے۔۔۔ عشرت میاں مَردوں کا
شیوہ یہ نہیں ہُوتا کہ بیگم سے ڈرتے رہیں۔ بلکہ شوہر کو تو ایسا ہُونا
چاہیئے کہ،، جب وُہ گھر میں داخل ہُوجائے۔ تو بیگم ڈر کر کسی کُونے میں
دُبک جائے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ میں دِل ہی دِل میں سُوچنے لگا۔ یا اِلہی
کیسے مُنافق لُوگ ہیں۔ جو روزانہ بیگم کے ہاتھوںجوتے کھانے کے باوجود بھی
بڑی شان سے اپنی جھوٹی بہادری کے قصے سُنائے جارہے ہیں۔
اَب خُدا کی کرنی دیکھیئے کہ ،،ایک دِن ہم اپنی مُرشدی بیگم کے حُکم پر
چھٹی کے دِن اُنہی انجینئر صاحب کے گھر ایک مشورے کیلئے جا پُہنچے۔ گھر کے
دروازے پر دستک دینے سے پہلے ہی ہمیں گھر سے اُکھاڑ پچھاڑ کی صدائیں سُنائی
دینے لگیں۔ جسکی وجہ سے ہمارے ہاتھ جو دروازے پر دستک دینے کیلئے بے چین
ہُوئے جارہے تھے۔ خُود بخود واسکٹ کی جیب میں چلے آئے۔۔۔۔ نذدیک سے گُزرتے
ہُوئے ایک پڑوسی نے ہمیں مشورہ دیتے ہُوئے کہا۔ بھائی صاحب۔ لگتا ہے آپ
یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں۔ ورنہ ہمارے لئے تویہ جھگڑے آئے دِن کا معمول ہیں۔
اسلئے آپ کسی دوسرے وقت آجایئے گا۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہُو کہ،، گیہوں
کیساتھ گُھن بھی پِس جائے۔
اب ہمیں انجینئر صاحب کی اُس دِن کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اُور ہمیں یقین
ہُونے لگا کہ ،، واقعی دُنیا کے سارے مَرد ہماری طرح بُزدل نہیں ہُوتے۔
بلکہ کچھ مَرد اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی جانتے ہیں۔۔۔۔ لیکن نجانے
کیوں ہمارے دِل میں شک کا کیڑا کلبلانے لگا۔ اُور ہم نے اپنے شک کو رفع
کرنے کیلئے اُنہی صاحب سے دریافت کرڈالا۔۔۔ کیا انجینئر صاحب روزانہ یُونہی
اپنی بیگم کی پٹائی کرتے ہیں۔۔۔۔؟ اُس شخص نے پہلے تو میرے چہرے کی جانب
بغور دیکھا۔ جیسے اُسے اپنی سماعت پر شک گُزرا ہُو۔۔۔۔ لیکن جونہی ہم نے
دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔ اُن صاحب پر ہنسی کا دُورہ سا پڑ گیا۔ اُور وُہ
اپنا پیٹ تھام کر لُوٹ پُوٹ ہُوگئے۔ کچھ دیر بعد جب اُنکی حالت میں کچھ
افاقہ آیا ۔ تو وُہ صاحب ہنستے ہُوئے کہنے لگے۔ میاں انجینئر صاحب بیگم پر
ہاتھ صاف نہیں کررہے ۔ بلکہ اُنکی بیگم صاحبہ اُنکی دُھنائی کررہی ہیں۔۔۔
ہمیں اب بھی اُن صاحب کی باتوں پر یقین نہ آتا۔ لیکن تبھی ایک جھٹکے سے گھر
کا دروازہ کھلا۔ اُور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انجینئر صاحب زخمی چہرہ لئے ایک طرف دُوڑتے
نظر آئے ۔ پیچھے پیچھے اُنکی بیگم صاحب برآمد ہُوئیں جنکے ایک ہاتھ میں
رُوٹی بیلنے والا بیلن تھا۔ اُور زُبان پر گرما گرم پنجابی گالیاں تھیں۔
جنہیں سُننے کے بعد ایک لمحہ بھی ہم مزید وَہاں ٹہر نہ پائے۔۔۔۔۔ دوسرے دِن
ہم نے اُن انجینئر صاحب سے اُنکے آفس میں مُلاقات کی۔ لیکن اُنہیں یہ نہیں
بتایا کہ ،، ہم کل آپ کے کاشانے پر تمام احوال براہِ راست مُلاحظہ کرچُکے
ہیں۔ جب ہم نے اُنکے چہرے پر زَخموں کا سبب دریافت کیا تو وُہ بڑی ڈھٹائی
سے فرمانے لگے ۔۔۔۔ کہ،، کل موٹر بائیک چلاتے ہُوئے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔
جسکی وجہ سے چہرے پر ڈینٹ ظاہر ہُوگئے ہیں۔۔۔ میں چونکہ مظلوم شوہروں سے
بُہت ہمددری رکھنے والے ایک رقیق القلب انسان واقع ہُوا ہُوں۔ اسلئے میں نے
اُنہیں یہ نہیں بتایا۔ کہ بہا در شوہر صاحب میں آپکی بہادری کی اصلیت سے
خُوب واقف ہُوچُکا ہُوں۔۔۔۔۔ لیکن دوستوں ایک بات ہے۔ جب سے ہم نے انجینئر
صاحب کی بیگم کا ظالمانہ رویہ دیکھ لیا ہے۔ تب سے ہمیں اپنی بیگم کا ہر ظلم
انکی بیگم کےمقابلے میں محبت و احسان کا ٹھاٹیں مارتا سمندر نظر آنے لگا
ہے۔۔۔ اور دِل سے یہی دُعا نکلنے لگی ہے۔ کہ خدا تُم کو میری موت تک سلامت
رکھے۔ کیوں کہ ہم میں انجنینئر صاحب جیسا حوصلہ نہیں ہے۔ کہ ،، تُمہارے
بعدکسی اُور کے ہاتھوں کی مار بھی برداشت کریں۔ اُور اپنی بہادری کے قصے
بھی سُنائیں۔۔۔۔
انشاﺀ اللہ آپ کو مزید بھی مرشدی بیگم کے قصے سُناتا رہوں گا۔ بشرطیکہ بیگم
کو ہمارے اِس بغاوت بھرے کالم اُور دِل میں مچلتے انقلاب کی بھنک نہ
پڑے۔۔۔۔ فی امان اللہ۔۔۔ آپ بھی ہمارے حق میں یہی دُعا دُہرادِیجئے۔ اُور
تمام شادی شُدہ خواتین سے مودبانہ گزارش ہے کہ میرے کالم کو دِل پر نہ لیں۔
ہم خُوشی خُوشی یہ ظُلم ہمیشہ سہتے رہیں گے۔ لیکن رسماً لکھنا لکھانا تو ہم
مظلوموں کا بھی حق بنتا ہے نا۔۔۔؟ |