ہر سال جب ویلنٹائن ڈے وارد ہوتا
ہے تو آنکھوں میں کئی رنگ اور سانسوں میں حسین یادوں کی خوشبوئیں ڈیرا ڈال
لیتی ہیں۔ جواز و عدم جواز سے قطع نظر، یہ دن کچھ دیر کے لیے زندگی کے
جھمیلوں سے دور، یادوں کی حسین دنیا میں لے جاتا ہے۔ اب کے ویلنٹائن ڈے
ایسے موقع پر آیا ہے کہ حکومت جانے جانے کو ہے یعنی میعاد ختم ہو رہی ہے۔
ایسے میں حکمرانوں کو اچانک عوام یاد آگئے ہیں اور ویلنٹائن ڈے کی آمد سے
قبل ہی اُنہوں نے عوام سے محبت کا بھرپور اظہار شروع کردیا ہے۔ جمہوری
ادوار میں ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ جب بھی حکومت کی میعاد ختم ہونے پر آتی
ہے تو اُس کے دل میں عوام سے محبت کے دریا بہنے لگتے ہیں۔ ادھورے منصوبوں
کو تیزی سے تکمیل کی پٹاری میں بند کرنے کی تیاری کی جاتی ہے۔ کھدی ہوئی
سڑکیں بننے لگتی ہیں اور ٹوٹے ہوئے پُل تیزی سے بن کر لوگوں اور گاڑیوں کو
اپنے اوپر سے گزارنے لگتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے میٹرو بس سروس کے ذریعے تحائف دینے کی ابتداءکی ہے۔ چلیے،
کسی نہ کسی بہانے عوام کو کچھ تو ملا۔ تھوڑی بہت تو اشک شوئی ہوئی۔ جب بہت
عرصے کے بعد کسی سے پیار کا اظہار کیا جاتا ہے تو اُس کے حواس کام نہیں
کرتے۔ عوام کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جاتی ہوئی حکومتوں نے چاہت کے
خزانوں کے منہ تھوڑے سے کھولے ہیں تو محبت کو ترسے ہوئے عوام حواس باختہ
ہوچلے ہیں۔ لاہور میں میٹرو بس سروس کے ذریعے پنجاب حکومت نے محبت کا جو
اظہار کیا ہے اُس کا عوام نے بھرپور جواب دیا ہے۔ ن لیگ نے تو سیاسی بس مِس
کردی تھی مگر عوام میٹرو بس مِس کرنے کے موڈ میں نہیں!
پاکستان میں اپنی مرضی کے مطابق وارد ہونے والے انتخابی تہوار کی گہما گہمی
شروع ہوتے ہی کئی تہوار ایک ساتھ آگئے ہیں۔ بھارت میں 55 دن کا کمبھ کا
میلہ چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی احتجاج، مارچ اور دھرنوں کا میلہ چل رہا ہے
جو یقیناً ڈھائی تین مہینوں پر محیط رہے گا۔ کمبھ کے میلے میں لاکھوں افراد
روزانہ لاکھوں افراد گنگا اور جمنا میں ڈبکی لگا رہے ہیں۔ مگر شاید یہ
ڈبکیاں کافی نہ تھیں یا مزا نہیں دے رہی تھیں اِس لیے بھارتی حکومت نے موقع
کی مناسبت سے افضل گرو کو پھانسی دیکر سفّاکی، بے حِسی اور بے ضمیری کے مہا
ساگر میں خاصی گہری ڈبکی لگالی! آپ چاہیں تو افضل گرو کی پھانسی کو بھارتی
قیادت کی طرف سے امن عمل کے لیے ”سلامی“ بھی قرار دے سکتے ہیں! کشمیریوں کو
یہ pre-Valentine تحفہ مدتوں یاد رہے گا۔ اور یاد رہنا ہی چاہیے۔
سینٹ ویلنٹائن کو تو ہم نے نہیں دیکھا مگر کینیڈا سے ایک سنیٹ نے آکر
پُرجوش باتوں کے ذریعے عوام کے دِل و دِماغ پر کیوپڈ کا تیر مارنے کی کوشش
کی ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کا تیر قوم اور میڈیا کے دِل میں ایسا گڑا کہ
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے الیکشن کمیشن اور
انتخابی ضابطوں کے حوالے سے محبت کا جو اظہار کیا ہے اُس پر سپریم کورٹ نے
اُنہیں سیدھے ہاتھوں لینا مناسب نہ سمجھا۔ اب عالم یہ ہے کہ آئینی درخواست
کی سماعت میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو اعلیٰ ترین عدلیہ کی طرف سے محبت کا
اظہار بھگتنا پڑ رہا ہے! دونوں ایک دوسرے پر جو پھول نچھاور کر رہے ہیں اُن
کی خوشبو سے عوام کے دِل و دِماغ مُعطّر کم اور ماؤف زیادہ ہوئے جاتے ہیں!
محبت کے اظہار کا موسم ابھی پوری طرح وارد بھی نہیں ہوا تھا کہ بسنت کی
تیاریاں بھی شروع ہوگئیں۔ الیکشن کی فضاءمیں سبھی اپنے وعدوں اور دعووں کی
پتنگیں زیادہ سے زیادہ اونچی اُڑانے کی کوشش میں عوام کو بہت نیچے چھوڑ گئے
ہیں۔ پتنگیں فضاءمیں ہیں اور ڈور ایک دوسرے کے گلے پر۔ مخالفین کے اتحادیوں
کو اپنے کیمپ میں لانے اور بھرپور طاقت کے ساتھ ”بو کاٹا“ کی محفل سجانے کی
تیاریاں ایسی شدت سے جاری ہیں کہ عوام سہمے ہوئے یہ سوچ رہے ہیں کہ آسمان
پر گُڈّیوں کی بہار دیکھیں یا پتنگ بازوں کے رنگ ڈھنگ! سیاسی بسنت میں
لوگوں کو اُڑتی ہوئی گُڈّیوں سے زیادہ لطف کرارے نوٹوں کی گڈّیاں دیکھنے
میں آتا ہے!
صدر زرداری کو کیوپڈ نے ایسا تیر مارا کہ وہ ویلنٹائن ڈے سے بہت پہلے ن لیگ
سے بھرپور محبت کے اظہار کے لیے لاہور پہنچ گئے۔ خیمہ بلاول ہاؤس میں گاڑا
گیا اور خدشات کا تیر لیگی قیادت کے دِل میں گڑ گیا! ایوان صدر سے ہٹ کر
جہاں صدر قیام کرتے ہیں اُسے صدارتی کیمپ آفس قرار دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو
ہے، ہمارے ہاں صدور اپنی آئینی میعاد کے دوران کیمپنگ ہی تو کرتے رہتے ہیں۔
سارا وقت اپنے کیمپ کو مستحکم کرنے اور مخالف کیمپ کی بنیادیں ہلانے میں
گزر جاتا ہے۔ اِس دوران کبھی ملک اور قوم کی یاد آگئی تو ٹھیک اور نہ بھی
آئی تو کیا ہوا؟ ملک اور قوم کہاں بھاگے جارہے ہیں؟ جب سب کچھ نمٹ جائے گا
تو ملک اور قوم کو بھی دیکھ ہی لیں گے۔
اِس بار ویلنٹائن ڈے کے موقع پر صدر عجیب مخمصے میں ہیں۔ طے نہیں ہو پارہا
کہ کِس سے محبت کا اظہار کریں اور کِسے سائڈ لائن کریں۔ ق لیگ نے محبتیں
بکھیرنے کے اِس موسم میں صدر زرداری کو کنفیوژن کا شکار کردیا ہے۔ فریال
تالپور نے بات چیت کے ذریعے ق لیگ کے منتخب ارکان اور وزرا کو پیپلز پارٹی
میں شمولیت کے لیے تیار کرلیا ہے مگر صدر زرداری نے محترمہ کو ”پیش رفت“ سے
روک دیا ہے۔ اُنہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں چوہدری برادران ناراض ہوکر ”محبت“ کا
اظہار نہ کر بیٹھیں! چوہدری برادران کو داد ملنی چاہیے کہ پانچ برسوں میں
کوئی تو ہے جس نے صدر زرداری کو کنفیوز کرنے کی ”سعادت“ حاصل کی!
سیاسی ویلنٹائن سیزن کی مناسبت سے یعنی انتخابات نزدیک آنے پر پیپلز پارٹی
اور ن لیگ نے درون خانہ پریم راگ الاپنے کی کوشش کی تھی مگر دشمنوں کو ”مُک
مُکا“ کی خبر ہوگئی اور پھر سبھی لٹھ لیکر دوڑ پڑے۔ اب بظاہر طاہرالقادری،
متحدہ اور تحریکِ انصاف مل کر اپنی پریم کہانی ترتیب دینے کی کوشش کر رہے
ہیں۔ سندھ کی سطح پر فنکشنل لیگ اور ن لیگ نے آٹھ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل
کر ”گرینڈ الائنس“ کے نام پر انتخابی اُخوّت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی
ہے۔ اگر سینٹ ویلنٹائن واقعی تھے تو سیاسی محبت کے یہ شاندار لشکارے دیکھ
کر اُن کی آتما کو شانتی مل گئی ہوگی!
ہم تو یہ سوچ سوچ کر حیران اور پریشان ہیں کہ جب رات اِس قدر متوالی ہے تو
پھر صبح کا عالم کیا ہوگا! ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے محبت کے اظہار کے لیے
پھول تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ گل پر گل کِھل رہے ہیں
اور کِھلائے جارہے ہیں۔
بہار کا موسم بھی وارد ہونے کو ہے۔ تب جو پھول کھلے ہیں وہ اپنی جگہ اور
سیاسی موسم بہار کا گل کِھلانا اپنی جگہ۔ دُعا یہ ہے کہ اب کے چند ایک پھول
عوام کے نصیب کے بھی کِھل جائیں۔ سیاسی ویلنٹائن سیزن میں اہل سیاست ایک
دوسرے کو حیران اور پریشان کردینے والے تحائف دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کاش کہ یہ اہتمام عوام تک نہ پہنچے۔ اب کے ایسی بسنت آئے کہ عوام کے
ارمانوں کی گُڈّیاں بہت اونچی اُڑیں اور اُن گُڈّیوں کے نصیب میں ”بو کاٹا“
کی صدا نہ ہو! |