حقوق نسواں کےعلمبرداروں نے سوات کے واقعے
پر جس طرح فوری رد عمل کا اظہار کیا، اور جس طرح اس کی مذمت کی نہ صرف مذمت
کی بلکہ اس کے خلاف فوری طور پر مظاہروں اور منظم مذمت کا سلسلہ بھی شروع
کردیا گیا۔ یہ بہت ہی مستحسن قدم تھا جو کہ اٹھایا گیا تھا ہم اس بات کے
حامی ہیں کہ ظلم کہیں بھی ہو اس کی مذمت اور بیخ کنی ہونی چاہیے اس لیے
ہمیں اس پر بڑی خوشی ہے کہ کوئی ظلم کے آگے ڈھال بن جاتا ہے۔ یہ بات واضح
رہے کہ اگرچہ یہ مبینہ واقعہ جس انداز میں پیش آیا وہ غلط ہے لیکن شریعت
میں سر عام سزاؤں کا ہی ذکر ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایک خاتون کاذ کر ملتا ہے
کہ جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجم کیا گیا تھا۔ وہ
سر عام کیا گیا تھا نہ کہ کسی بند کمرے میں یا ڈھکی چھپی جگہ ۔اسی طرح
اسلام میں قاتل کا سر قلم اور چور کے ہاتھ کاٹنے کی جو سزا ہے وہ سر عام دی
جاتی ہے تاکہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو، اور اگر کسی کے دماغ
میں کوئی فتور یا فاسق اراد ہو تو وہ وہیں رک جاتا ہے۔ یہ ان سزاؤں کی حکمت
ہوتی ہے اس لیے سر عام سزا کو غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک ضمنی بات
تھی۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سوات کے واقعے پر حقوق انسانی اور حقوق نسوان کے
علمبرداروں نے تقدیس مشرق کے ثنا خوانوں نے بہت شور مچایا اور اس کی مذمت
کی گئی۔ یہ مشکوک واقعہ پاکستان میں پیش آیا اور اس میں مبینہ طور پر
طالبان اس میں ملوث ہیں۔اس لیے سب نےدل کی بھڑاس خوب نکالی ۔ لیکن یہ ثناء
خوان تقدیس مشرق امریکی ڈرون حملوں اور امریکہ کی حراست میں موجود بے گناہ
،مظلوم ڈاکٹر عافیہ کے معمالے پر بالکل خاموش تھے۔ وہ ذہین خاتون جس کو
اپنے ہی ملک سے اغواء کیا گیا، اور جو قریباً پانچ سال سے امریکہ اور
افغانستان کی قید میں ہے جس کے تین میں سے ایک بیٹے کا پتہ ہے باقی دو بچوں
کا کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں گمان غالب ہے کہ ان کے بچوں کو
عیسائی مشنری اداروں یا یہودیوں کے پاس بھیج دیا گیا ہے اور ان مسلمان بچوں
کو یہودی یا عیسائی بنا دیا گیا ہے، البتہ اس مظلوم خاتون کے لیے ان روشن
خیالوں کے بقول دقیانوسی خیالات رکھنے والے مذہبی انتہا پسندوں نے اور نو
مسلم برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلے نے آواز اٹھائی تھی۔ یاد رہے یہ وہی
نو مسلم خاتون ہیں جو چند دن افغانستان میں طالبان کی قید میں رہی تھیں اور
ان وحشی درندوں اور تنگ نظر ملاؤں اور جدید تہذیب سے بے بہرہ جاہل طالبان
کے حسن سلوک اور اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا۔اس سے یہ بات
سامنے آئی کہ اول تو اب طالبان کے نام کو استعمال کر کے اسلام کو بدنام کیا
جارہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان نام نہاد حقوق کے علمبرداروں کو صرف اسلام کو
بدنام کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔
آیئے ذرا جائزہ لیتے ہیں ان کی حقوق انسانی سے محبت: انتیس جنوری دو ہزار
آٹھ کو شمالی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں
ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، پورا ملک میں اس کی مذمت کی گئی البتہ
یہ ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش تھے۔
چودہ مئی دوہزار آٹھ کو ڈمہ ڈولا میں امریکی مزائل حملہ بچوں سمیت سات
افراد ہلاک: حقوق انسانی کے چیمپینز کو اس واقعے کی خبر شاید نہیں پہنچی اس
لیے ان کی طرف سے خاموشی چھائی رہی۔
گیارہ اگست دوہزار آٹھ باجوڑ میں گھر پر بمباری سات افراد ہلاک،مرنے والوں
میں دو عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں: ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے ؟
دو ستمبر دو ہزار آٹھ کو باجوڑ ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی گولہ باری سے
نو افراد ہلاک،مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ثناء خوان تقدیس
مشرق کو شائد اس واقعے کی اطلاع نہیں ہوئی
تین ستمبر دو ہزار آٹھ کوافغانستان کے قریب ایک پاکستانی سرحدی گاؤں انگور
اڈاہ میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے باقاعدہ
اتر کر ایک گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بیس افراد
ہلاک ہوگئے۔ان میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔ ثناء خوان تقدیس
مشرق کہاں تھے؟؟
اس کے دو دن بعد ہی شمالی وزیرستان میں امریکی میزائل حملوں میں تین بچے
اور دو خواتین ہلاک۔ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں تھے؟؟
بارہ ستمبر دو ہزار آٹھ کو وزیرستان میں امریکی میزائل حملہ، بارہ ہلاک
ہلاک شدگان میں تین بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔ثناء خوان تقدیس مشرق
کہاں تھے؟؟
تین اکتوبر دو ہزار آٹھ کو امریکی میزائل حملے میں پندرہ ہلاک، ہلاک ہونے
والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں:ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں
تھے ؟؟؟
اور اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ ثنا خوان تقدیس مشرق، یہ نام نہاد حقوق
کے علمبرادر، یہ آزادی نسواں کے حامی، یہ عورتوں کے حقوق کے چیمپئین سوات
کے واقعے پر شور مچا ہے تھے،ایک عورت کی بے حرمتی پر آنسو بہا بہا کر ذمہ
داران کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عین اسی دن شمالی وزیرستان میں
امریکی ڈرون حملوں میں ایک مکان تباہ ہوگیا،جس میں تیرہ اور بعض اطلاعات کے
مطابق نو افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں تین خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔
یہ ثناء خوان مشرق اس وقت بھی ایک لفظ بھی اس واقعے کی مذمت میں نہ کہہ سکے
کیوں؟؟ کیا اس لیے کہ یہ حملہ امریکہ نے، گوری چمڑی والوں نے کیا تھا اور
مرنے والے پاکستانی تھے۔اور کیا یہ خواتین جو ہلاک ہوئیں ہیں کیا یہ اس ملک
کی بیٹیاں، بہنیں نہیں تھیں کہ ان کے لیے بھی آواز اٹھائی جاتی۔
اور سنیے تیئس اگست دو ہزار آٹھ کو بلوچستان میں تین خواتین کو زندہ درگور
کیا گیا،اس واقعے میں بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ملوث تھے۔سوات کے ذمہ
دارارن کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے والوں نے اس واقعے کے ذمہ داران کے
خلاف کیا ایکشن لیا؟ حالانکہ وہاں تو حکومت کی رٹ قائم ہے۔اور یہ تمام لوگ
جو سوات واقعے کی مذمت کرنے میں پیش پیش ہیں یہ لوگ بھی تو حکومت کے اتحادی
ہیں پھر اس واقعے کے ذمہ داران آزاد کیوں اور اس ممبر قومی اسمبلی کو ابھی
تک نااہل کیوں نہیں قرار دیا گیا جس نے اس بہیمانہ واقعے کو اپنی قبائلی
روایات کا حصہ قرار دیا تھا؟۔ ثناء خوان تقدیس مشرق نے اس حوالے سے کیا کام
کیا ہے ؟؟؟کچھ نہیں
اور تو اور ابھی دو ہی دن پہلے سندھ میں ایک فرد نے شک کی بنیاد پر اپنی
بیوی کی ناک کاٹ لی اس پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ کیوں؟؟؟
مندرجہ بالا تمام خبریں اور حقائق یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ان دین بے زار
لوگوں کو کسی قسم کے انسانی حقوق یا حقوق نسواں کی کوئی فکر نہیں ہے نہ ہی
یہ لوگ پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ ہیں۔بلکہ امریکی اور مغربی ممالک کی
امداد پر پلنے والے ان لوگوں کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ یہ دین اور
ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرتے ہیں اگر یہ ملک کے خیر خواہ
ہوتے تو ان ڈرون حملوں پر بات کرتے، لال مسجد کے ظلم پر آواز آٹھاتے، زندہ
درگور کی گئی بچیوں کے قتل پر آواز اٹھاتے، کتوں کے آگے ڈال کر، کتوں سے
بھنبھوڑ کر اور سر عام ایک مظلوم بچی کا حمل گرانے کے بعد اس کو قتل کرنے
والے سندھ کے وڈیرے اور ظالموں کے خلاف آواز آٹھاتے، لیکن ایسا کچھ نہیں
ہوا سب خاموش رہے۔
ہماری عوام سے یہی گزارش ہے کہ وہ ان سے ہوشیار رہیں اور ان کی باتوں میں
نہ آئیں۔
|