دیارغیر اور کنٹینرز

کچھ عرصہ پیشتر جب ملک کے مالی حالات اتنے نہیں بگڑے تھے گھر کا سربراہ کام کرتا تھا اور تمام گھر والے اس آمدن میں اچھا بھلا گزارہ کرلیتے تھے تو کوئی پاکستانی بیرون ملک جانے کا نہیں سوچتا تھا کیونکہ اکثریت کی سوچ یہ ہوا کرتی تھی کہ اپنے گھر میں رہ کر آدھی روٹی اچھی ہے بجائے اس کے کہ پردیس میں جاکر پوری روٹی کھائی جائے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی۔ وہ لوگ جو کسی بھی طرح شوق یا مجبوری سے بیرون ملک سدھار گئے جب وہ پاکستان کا چکر لگاتے تو کسی ”سیٹھ“ کی مانند نظر آتے۔ تارکین وطن کی دولت کی ریل پیل دیکھنے والے کی آنکھوں کو چندھیا دیتی۔ مزید یہ کہ ان کی شیخیاں بھی پاکستان کے غریب عوام کے دلوں میں باہر جانے کی آرزو جگانے میں شامل ہوگئیں۔ چنانچہ اچھے بھلے کام پر لگے ہوئے نوجوان اور ادھیڑ عمر ”جوان“ بھی باہر جانے کی آرزو میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ کسی گاﺅں یا محلے میں ا گر ایک نوجوان جان جوکھوں میں ڈال کر عرب ممالک، یورپ، امریکہ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں پہنچ جاتا تو اس کے گھر والوں کی قسمت کھل جاتی۔ کچے گھر پکے ہوجاتے، گاڑی آجاتی، دیگر تعیشات بھی حاصل ہوجاتے۔ یہ تمام چیزیں تب تک تو ٹھیک تھیں جب تک بیرون ملک جانے والوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہ ہوئے تھے۔ پھر وہ دور آیا جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور افغان مہاجرین ایک سیلاب کی طرح پاکستان کے کونوں کھدروں میں پہنچنا شروع ہوگئے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان میں ایک فوجی آمر کی حکومت تھی جس نے بغیر سوچے سمجھے افغانیوں کو پاکستان میں داخل کیا اور اس کے بدلے امریکیوں سے ”وصولیاں“ کیں۔ معاملات یہیں پر نہیں رکے بلکہ سندھ میں لسانی فسادات اور ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر بھی اسی دور میں متعارف کروایا گیا۔ جب افغان مہاجرین کی ایک کثیر تعداد نے جعلسازی اور رشوت سے پاکستانی سبز پاسپورٹ حاصل کرلیا تو پوری دنیا میں پاکستانیوں کی شامت آگئی کیونکہ افغان علاقوں میں پوست کی کاشت اس وقت عروج پر تھی اور ہیروئن کی فیکٹریاں بھی، جب افغانی پاکستانی پاسپورٹس پر بیرون ملک کاسفر کرتے تھے تو بطور ”تحفہ“ ہیروئن بھی ساتھ لے جاتے تھے، جب ہیروئن کی ترسیل دوسرے ملکوں میں مسلسل ہونا شروع ہوئی تو وہ لوگ جو ہپیوں کے روپ میں برصغیر کا سفر صرف ہیروئن کی وجہ سے کرتے تھے ان کی تو تسلی ہوگئی اور سفر کے اخراجات بچ گئے لیکن گوروں کی نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی

چنانچہ یورپ اور امریکہ نے یہ پالیسی بنائی کہ ہیروئن کی تیاری کم سے کم کی جائے اور جو تیار ہو بھی وہ لوکل سطح پر استعمال میں لائی جائے تاکہ ان کے جوان اس لعنت سے بچ سکیں چنانچہ ضیاءالحق کا دور اس لحاظ سے ایک مثال ہے کہ اسمگل کرنے کے لیے تیار ہونے والی ہیروئن کا زیادہ شکار پاکستانی بننا شروع ہوگئے۔ بات ہورہی تھی پاکستانیوں کے بیرون ملک جانے کی۔ چنانچہ جب افغانیوں نے بیرون ملک ہیروئن کی ترسیل شروع کی تو پاکستانی عوام پر آہستہ آہستہ ترقی یافتہ ملکوں میں جانے کے حوالے سے سختیاں شروع ہوگئیں۔ ایک تو پاکستان کے مالی حالات (خصوصاً متوسط طبقہ جن کو سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا پڑتا ہے اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے) خراب ہونا شروع ہوگئے دوسرے بیرون ملک جانے پر بھی پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں اور سختیاں بھی۔ چنانچہ تب وہ نوجوان جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہاں کے ماحول میں کام نہیں کرسکتے تھے یا نہیں کرنا چاہتے تھے یا وہ لوگ جو باہر سے آنے والوں کی امارت اور دولت کی چکا چوند سے زیادہ متاثر ہوتے انہوں نے غیر قانونی طریقوں سے باہر جانے کی کوششیں شروع کیں۔ یہیں سے ان انسانی سمگلنگ کرنے والوں کا گھناﺅنا کردار شروع ہوتا ہے جن کے لالچ کی کوئی انتہا نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ باہر جانے والوں کے ذہنوں میں بھی زیادہ کا لالچ ہوتا ہے لیکن اکثریت کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ کسی کے کندھوں پر چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں تو کسی کے کندھوں پر جوان بہنوں کی رخصتی کا وزن، کسی کے پیش نظر قرضہ تو کسی کے سامنے بوڑھے والدین، قصہ مختصر ہر آدمی کے سامنے اس کی محرومیاں اور ضرورتیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے دیار غیر۔ جیسے جیسے لوگوں کی مجبوریاں شدید، ویسے ویسے انسانی اسمگلروں کی چاندی، بلکہ سونا۔ جب سختی زیادہ ہوگئی تو ان ایجنٹوں کے جو بیرون ملک لے کر جانے کا جھانسہ دیتے ہیں، ان کا ریٹ بھی آسمان کو چھونے لگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگ اچھی قسمت ہونے کی وجہ سے کسی منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں لیکن آج کل اکثر لوگ راستے میں پکڑے جاتے ہیں یا دستاویزات جعلی اور بوگس ہونے کی وجہ سے ڈی پورٹ کردیئے جاتے ہیں۔ اب پچھلے کچھ عرصے سے ایک نیا ظلم ایجاد کیا گیا ہے کہ ان تارکین وطن کو کنٹینرز میں بھر لیا جاتا ہے۔ وہ کنٹینرز جو سامان لے جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جن میں نہ تو روشنی ہوتی ہے نہ ہوا اور نہ ہی رفع حاجت کا کوئی انتظام حتیٰ کہ ان کنٹینرز کے اسیران کو دوران سفر بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ایک قبر ہوتی ہے جس میں قرضوں، ضروریات اور خواہشوں کے جکڑے ہوئے ”مُردوں“ کو سفر کرایا جاتا ہے۔ جب وہ کنٹینرز منزل پر پہنچتے ہیں تو مسافروں میں سے اکثر ”اگلی“ منزل کو سدھار چکے ہوتے ہیں۔ کنٹینرز میں ایک سہانے مستقبل کے لیے سفر کرنے والے اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام جو اپنی ضرورتوں کے اسیر ہیں وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا کبھی کوئی ایسا کنٹینرز بھی منظر عام پر آئے گا جس میں غریب غربے نہیں بلکہ وہ لیڈر اور رہنما سفر کریں جنہوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا اور جو کروڑوں اربوں کے قرضے لے کر ہضم کرجاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207280 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.