بدقسمتی سے ہمارے ملک میںسیاسی
وفاداریاں تبدیل کرنے اورقلابازیاں لگانے کا شرمناک کلچر پنپ رہا ہے۔ہمارے
معاشرے اورمیڈیانے بھی اس تماشے کوکافی حدتک قبول کرلیا ہے ۔ایک زمانے
میںسیاسی طورپر بیوفائی کرنیوالے کو تھالی کا بینگن کہا اوراس بیہودہ رسم
کوہارس ٹریڈنگ کانام جاتا تھا مگرعہدحاضرمیں سیاسی وفادری تبدیل کرنیوالے
کو لوٹاکہا جاتا ہے، تاہم جماعت اسلامی سمیت ایک دوپارٹیوں کے سواکوئی
سیاسی پارٹی لوٹوں سے پاک نہیں ہے ۔پچھلی چار دہائیوں سے سیاسی مفادات
ہمارے سیاسی نظریات پرغالب آتے جارہے ہیں ۔کبھی صرف سیاستدان اورمنتخب
نمائندے پارٹی تبدیل کرتے تھے مگراب توسیاسی کارکنان بھی کسی سے پیچھے نہیں
ہیں تاہم کارکنان کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔اگرکوئی مسلم لیگ (ن) سے
پیپلزپارٹی میں جائے یامسلم لیگ (قائداعظمؒ)سے مسلم لیگ (ن) میں آئے
یاپیپلزپارٹی سے پاکستان تحریک انصاف میں جائے ،وہ سب اپنے اپنے فیصلے
کوقومی مفادکانام دیتے ہیں۔ سیاسی وفاداری تبدیل کرنیوالے مردوزن کی طرف سے
سابقہ پارٹی کے فیصلوں اورقائدین کے رویوں کوتنقیدکانشانہ بنایا جاتا ہے
جبکہ وہ لوگ جس پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اس کی قیادت کونجات دہندہ
قرارد یتے ہیں ۔ لیکن سیاسی طورپروفاﺅں کی نیلامی اوربدنامی کے باوجودآج
بھی ایسے کئی باوفااورباصفا سیاستدان ہیں جن کی پارٹی کمٹمنٹ اورسٹیٹمنٹ
پرکسی قسم کاشبہ نہیں کیا جاسکتا ،پیپلزپارٹی کے باصلاحیت رہنما چودھری
غلام عباس کاشمار بھی ان میں ہوتا ہے جوقیادت کی بے اعتنائی کے باوجودپارٹی
چھوڑنے کاتصور بھی نہیں کرسکتے دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے زیرک اوردبنگ
سیاستدان خواجہ سعدرفیق سے متعلق بھی شوشہ چھوڑاگیا تھامگرانہوں نے بھی
اپنے سیاسی دامن کوداغدارہونے سے بچالیااورآج وہ مسلم لیگ (ن) اورپارٹی
قیادت کی ضرورت اورعزت بنے ہوئے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوںسیاسی پارٹی بدلناکوئی گناہ نہیں ہے مگر میرے نزدیک معمولی
باتوں پرایساکرنا معیوب ہے ،مثال کے طورپراگرلیڈر نے کسی وقت اپنے کسی
ساتھی کافون نہیں سنایاایس ایم ایس کاجواب نہیں دیاتووہ پارٹی چھوڑدیتا ہے
،پارٹی قائدکسی ساتھی کے کسی عزیزکی شادی یاکسی کے جنازے میں شریک نہیں
ہواتومتاثرہ ساتھی اپنے قائدکا ساتھ چھوڑدیتا ہے ،اگرآئندہ ٹکٹ ملنے کی
سوفیصدضمانت نہ ہو تولوگ پارٹی چھوڑدیتے ہیں ،پارٹی جلسہ میں جس کوسٹیج
پرسیٹ نہ ملے اب وہ بھی پارٹی چھوڑدیتا ہے ،کسی کاکوئی جائزیا ناجائزکام
نہیں ہوا تواس نے بھی پارٹی چھوڑدی ،کوئی مرضی کاپارٹی عہدہ یاسرکاری منصب
نہ ملنے پرسیاسی وفاداریاں بدلتاہے ۔پہلے سیاستدان یامنتخب نمائندے اپنے
مفادات کاتعاقب کرتے کرتے اپنی مرضی ومنشاءسے یاکسی مجبوری کے تحت دوسری
پارٹیوں میںجاتے تھے مگر اب دوسری پارٹی کے رہنماﺅں اورمنتخب نمائندوں
کیلئے ایک منصوبہ بندی کے تحت جال بچھایا جاتا ہے ،انہیں آئندہ الیکشن
کیلئے پارٹی ٹکٹ اورمرکزیاصوبوں میںوزارت سمیت مختلف مراعات کی پیشکش کی
جاتی ہے۔اس وقت دونوںبڑی پارٹیاںمحض پوائنٹ سکورنگ کیلئے ایک دوسرے کے ہاں
نقب لگانے اورایک دوسرے کے منتخب نمائندوں کوتوڑنے میں مصروف ہیں جبکہ
انہوں نے اپنے کئی منجھے ہوئے ساتھیوں کودیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے ۔دوسری
پارٹیوں سے آنیوالے نمائندے جوزندگی بھر تنقیداورتوہین کرتے ہیںانہیں
توسینے سے لگایاجاتا ہے جبکہ اپنی پارٹی کے وہ لوگ جو کسی بات پرقیادت سے
ناراض یابدگمان ہوتے ہیں انہیں دیوارمیں چنوادیاجاتا ہے۔
جس حلقہ سے منتخب نمائندہ پارٹی بدلتا ہے وہاں اس پارٹی کے نمبرٹوکی سنی
جاتی ہے اوروہ ایک دم نمبرٹوسے نمبرون کی پوزیشن پرآجاتا ہے اوراس کی پارٹی
کے لوگ اسے مبارکباد پیش کرتے ہیںکیونکہ وہ پارٹی ٹکٹ کیلئے فیورٹ ہوجاتا
ہے جبکہ دوسری طرف وہ منتخب نمائندہ جس پارٹی میں جاتا ہے وہاں اس کے
مقابلے میں ہاراہواٹکٹ ہولڈراس کے آنے سے پریشان اورمایوس ہوجا تا ہے
کیونکہ آئندہ انتخابات میں اس بیچارے کی ٹکٹ مشکوک ہوجاتی ہے اوریوں اس کے
حلقہ احباب میں سوگ منایا جاتا ہے یوں کسی کواس نمائندے کے سابقہ پارٹی سے
جانے کارنج ہوتا ہے اورنہ نئی جماعت میں آنے کی خوشی ہوتی ہے ،تاہم اس کی
سیاسی قلابازی سے اسمبلیوں کے اندر نمبر گیم ضرور بدل جاتی ہے۔ حکمران
سیاسی پارٹیوںمیں اپنے کارکنان کی اشک شوئی اوردلجوئی کرنے کی بجائے دوسری
پارٹی سے آنیوالے ارکان کی پذیرائی کاخاص اہتمام کیا جاتا ہے جس طرح ماروی
میمن کے مسلم لیگ (ن) میں آنے پردیکھا گیا تھا،اب ماروی میمن تومسلم لیگ
(ن) کی ٹکٹ پرخواتین کی مخصوص سیٹ کے تحت پارلیمنٹ میں آجائے گی مگر مسلم
لیگ (ن) کی کئی دیرینہ اوروفادارخواتین رہنما محروم رہ جائیں گی ۔فوجی
آمرپرویز مشرف کے ساتھی امیرمقام کے پاس مسلم لیگ (ن)میں آج جومقام ہے وہ
شایدصابر شاہ اورسردارمہتاب عباسی کے پاس بھی نہ ہوجوپرویزی آمریت کے
دورمیں میاں نوازشریف کی قیادت میں ثابت قدم رہے۔
اب نہ توسیاستدان کسی اصول کے تحت دوسری پارٹی میں جاتے ہیں اورنہ انہیں
وہاں کسی اصول کی بنیاد پرقبول کیا جاتا ہے بلکہ یہ سب نظریہ ضرورت کے تحت
ہورہا ہے ۔ہماری قومی سیاست سے اخلاقیات اور نظریات کاجنازہ اٹھ گیاہے،اب
سیاستدان صرف اورصرف اپنامفاددیکھتے ہیں اورسودے بازی اورضمانت کے بعد کسی
دوسری جماعت میں جانے کااعلان کرتے ہیں ،تاہم سیاستدانوں کی شمولیت مقبولیت
یاکامیابی کی ضمانت نہیں ورنہ تحریک انصاف کاگراف اس وقت زوال پذیرنہ ہوتا
۔ پاکستان میں انتخابات کیلئے مقبول پارٹیوں کے ٹکٹ نیلام ہوتے ہیں
جوسرمایہ دارزیاہ بولی لگاتا ہے اسے ٹکٹ ایشوکردیا جاتا ہے ۔اب انتخابی
سیاست ایک منفعت بخش تجارت بن گئی ہے ۔امیدواراپنی قابلیت کی بجائے دولت کے
زور پرمیدان میں اترتے ہیں اورووٹربھی اپنافائدہ دیکھ کرووٹ دیتا بلکہ
بیچتا ہے،کوئی نقدقیمت پرتوکوئی نالی یانوکری کیلئے ،ہمارے ہاں زیادہ تر
ہونیوالے فیصلوں اورجوڑتوڑکاقومی مفادات سے دوردورکابھی کوئی تعلق نہیں
ہوتا۔
میں سمجھتا ہوںپانی سے بھرے جگ میں مزید پانی ڈالنا سراسرنادانی اورحماقت
ہے ۔اگرایک سیاسی جماعت اپنی مخالف پارٹی کے دوچاراہم افراد کوتوڑنے میں
کامیاب ہوجاتی ہے تواس کے نتیجہ میں اس کے اپنے بیسیوں لوگ مایوس ہوجاتے
اوران میںسے کئی احتجاجاً پارٹی چھوڑدیتے ہیں لہٰذاءسیاسی طورپریہ خسارے
کاسوداہے ۔کیونکہ پارٹی ٹکٹ پرمنتخب ہونیوالے ارکان کااپنا ذاتی ووٹ بنک
نہیں ہوتا،زیادہ سے زیادہ ان کے اپنے دوتین ہزارووٹ ہوسکتے ہیں ہاں اگر
آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی کسی پارٹی کے شریک سفربنتے ہیں
تویقینا یہ اس پارٹی کیلئے سیاسی طورپرسودمندہوگامگردوسری پارٹیوں کے ارکان
کواپنے ساتھ ملانے کیلئے اپنوں کوپرایا بناناانتہائی درجے کی حماقت
ہے۔منتخب ارکان اسمبلی کوقبول اورویلکم کرتے ہوئے ان ان حلقوں سے اپنے ہارے
ہوئے ٹکٹ ہولڈرز کی کمٹمنٹ ،قربانیوں اورامیدوں کاخون کردیاجاتا ہے۔ان
دنوںسیاسی قیادت کوسیاسی اورمعاشی طورپرمضبوط امیدواروں کی تلاش ہے ۔امیداروں
کے ذاتی کردار،کاروباراوران کی شہرت سے زیادہ حلقہ میں ان کاسیاسی اثرورسوخ
اورکامیابی کاامکان دیکھا جاتا ہے ۔قوم کواخلاقیات کادرس دینے والے پارٹی
قائدین نے بدعنوانوں اورجعلی ڈگری کے تحت اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے
والوں کوٹکٹ جاری کردیے ہیں اوران میں بیشتر اپنے اپنے حلقہ میں الیکشن مہم
شروع کئے ہوئے ہیں۔
سیاست میں بھی ہرایکشن کا ری ایکشن ضرورہوتا ہے ۔میں نے پہلے بھی لکھاتھا
کہ میاں منظوروٹوکوپیپلزپارٹی پنجاب کاصدرنامزدکرکے صدرزرداری نے درست
اوردوررس فیصلہ نہیں کیا ،اس فیصلے کا ری ایکشن آئے گا کیونکہ جیالے انہیں
بحیثیت صدرقبول نہیں کریں گے اورنتیجتاً پیپلزپارٹی کے نوارکان پنجاب
اسمبلی جن میں واہنڈو کے حلقہ پی پی 99 سے منتخب ہونیوالے ممبرپنجاب اسمبلی
اوربااثرنوجوا ن سیاستدان قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ،نشاط خان ڈاہا ،جمیل شاہ
،عباس ظفر ہراس، رانامنورغوث ،رانابابر،جاویدعلاﺅالدین ،عظمیٰ بخاری
اورکامل گجر کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری وسابقہ
ممبر پنجاب اسمبلی سمیع اللہ خان اورواہنڈوسے پیپلزپارٹی کے نوجوان اورفعال
رہنما عرفان گل بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے ہیں
اورابھی پیپلزپارٹی کے مزید ارکان وعہدیدارا ن کے چھوڑ جانے کی شنید
اورامیدہے مگرآفرین ہے چودھری عظمت علی نے ابھی تک اپنے کمزورہاتھوں سے
پیپلزپارٹی کاپرچم نہیں چھوڑااوربھٹوخاندان سے اپناچاردہائیاں پراناروحانی
رشتہ نہیں توڑا،وہ اس بار بھی بینظیر بھٹو کی برسی پرگیا
اورمزارپرزاروزاررویا۔مشہورہے پیپلزپارٹی والے اپنے جیالے کارکنوں کو
سرکاری نوکریاں دیتے ہیں جبکہ چودھری عظمت علی کے بیٹے اعتزازاحسن سے
فرزانہ راجہ نے ملازمت چھین لی ہے مگربوڑھاچودھری عظمت علی پھربھی
صدرزرداری کی کارکن اور کسان دوستی کے گیت گاتا اورگلی گلی کہتا پھرتا ہے
کہ صدرزرداری کی اصلاحات سے پاکستان گندم میں خودکفیل ہوالہٰذاءکسانوں
کوایوان صدرمیں مدعوکیا اورانہیں سرکاری اعزازات سے نوازاجائے ۔میں حیران
ہوںجس پیپلزپارٹی کے پاس بابراعوان اور چودھری غلام عباس کی صورت میں منجھے
ہوئے سیاستدان موجود ہیں اس کے شریک چیئرمین نے میاں منظوروٹومیں کیا
دیکھااورانہیںنامزدکرکے اپنے دیرینہ ساتھیوں کوناراض اورباغی کیوں کرلیا
۔چودھری غلام عباس ایک زیرک سیاستدان ہیں ،انہوں نے بینظیر بھٹو کی زندگی
میں پیپلزپارٹی کے اہم عہدوں پرکام اورپرفار م کیا ہے تواب کیوں
نہیں۔بابراعوان سے یادآیا ،عدالت عظمیٰ نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف
حسین کوتوہین عدالت میں معاف کردیا جبکہ طاہرالقادری کوسرعام توہین عدالت
کاارتکاب کرنے کے باوجود نوٹس تک ایشونہیں کیا گیا توپھرقانو ن دان
بابراعوان کوبار بار معذرت کرنے کے باوجود معاف کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
وکالت کرنابابراعوان کاپیشہ اورآمدنی کااہم ذریعہ ہے لہٰذاءانسانی حقوق کی
روسے انہیں وکالت کرنے کی اجازت دی جائے ۔دوسروں کی طرح بابراعوان بھی نرمی
اورصلہ رحمی کے مستحق ہیں۔ملک میںسیاسی اورجمہوری استحکام کیلئے لوٹوں کی
حوصلہ شکنی کرناہوگی ۔جوسیاستدان اپنی سابقہ پارٹی کاوفادار نہیں رہتاوہ
نئی جماعت اورقیادت کے ساتھ کس طرح مخلص ہوسکتا ہے۔ |