ملک کی ترقی کیلئے چینی صدر درکار ہے

چینی سرکاری میڈیا کےمطابق چینی حکومت نے سرکاری خرچ پر اعلی فوجی افسران کیلئے پرتعیش دعوتوں کے اہتمام پر پابندی عائد کردی ہے۔کیونکہ اس اقدام سے افسران عیش کوشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ملک میں بدعنوانی پروان چڑھتی ہے۔مزید بتایا گیا کہ دورے پر جانے والے افسران کو لگژری ہوٹلز اور مہنگی گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔اور ایسا ہی ایک حکم نامہ سویلین حکام کیلئے بھی جاری کیا گیا ہے۔ چین کے نو منتخب صدر شی جن پنگ نے چین کی کیمونسٹ پارٹی کے اعلی فوجی اور سول حکام پر مشتمل کمیٹی کے آٹھ نکات پر حکم نامہ جاری کیا۔ ان آٹھ نکات میںیہ باور کرایا گیا کہ افسران ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اپنے طور طریقے تبدیل کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے فوج میں بھی خوش آمدیدی بینرز، سرخ قالینوں اور پھولوں کی آرائش و زیبائش کے ساتھ ساتھ تحفے تحائف کے لین دین پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے علاوہ اخراجات میں مزید کمی کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوافسران کسی معائنے کی غرض سے دوروں پر جائیں گے ان کو بھی پر تعیش اور مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی۔اور اس دوران وہ مہنگی گاڑیاں بھی استعمال نہ کرسکیں گے اور ہوٹر اور سائرن کا بے جا استعمال بھی ممنوع ہوگا ۔ ان تمام احکامات کا پس منظر صدر شی جن پنگ کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے اگر پر تعیش طور طریقے جاری رکھے گئے تو ملک میں بدامنی پھیلے گی اورانتشار اور کشمکش بڑھے گی جو کہ ملک و قوم کیلئے کسی بھی طرح سے سود مند نہیں۔

سبحان اللہ ! واہ جی ۔چین کے صدر کی کیا بات ہے! لگتا ہے کہ وہ اپنے ملک کیلئے اور اس کی عوام کیلئے مخلص ہیں اوران کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں اور آج کے دور میں بالخصوص پاکستان میں اس قسم کی باتیں ”دیوانے کا خواب“معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ہم لوگ اور بالخصوص ہمارے حکمران تو تعیشات کے اس قدر دلدادہ و گرویدہ ہوچکے ہیں کہ اس قسم کی باتیں فضول نظر آتی ہیں کہ وزیر ہو او ر اعلی نسل کی گاڑی نہ ہو مشیر ہو اور مشورہ دینے کی غرض سے کسی مہنگے ہوٹل میں قیام نہ ہو ، ایم این اے ہو اور ان کی آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور نہ کی جائیں اور رنگیں بینرز سے ان کو ویلکم نہ کیا جائے۔ایم پی اے ہو اور ان کی آمد پر انہیں تحفے تحائف نہ دیئے جائیں ۔ کوئی سیکرٹری ہو کہ ڈپٹی سیکرٹری،ڈائریکٹر ، آر پی او، سی پی اوہو کہ ڈی سی او ،اے سی حتٰی کہ ایک پٹواری و پولیس اہلکار تک اس بات کا خواہاں اور شائق ہے کہ اگر اس قسم کے لغویات نہ کی جائیں تو ان کی شان میں گستاخی تصور کیجاتی ہے اور مرتکب فرد یا افراد کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے اور اسے جاہل ،بے ادب اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے-

لیکن! لیکن !اگر ہم اپنی ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں تو بانیان پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے کہ جنہوں نے ان فضول لغویات سے قطع نظر اپنے سامنے ملک کی حالت اور عوام کے مفاد کو رکھا اور کم سے کم وسائل کو استعمال کرکے ملک و قوم کو اپنی چادر کے مطابق پاﺅں پھیلانے کا درس دیا۔ ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ کہ پاکستان بننے کے بعد کراچی میں پہلی قومی پریڈ ہوئی اور قائداعظم محمد علی جناح نے اس پریڈ کی سلامی لی۔تو وہاں پر پروٹوکول کی مجبوریوں،اعلٰی ملبوسات کی نمائش اور مصنوعی چکاچوند کے بغیر بانی پاکستان کیلئے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر اینٹوں کی مدد سے سلامی کیلئے چبوترا بنایا گیا اور اس پر ایک میلی سی دری بچھائی گئی جس سے ایک چھوٹا سے سٹیج بن گیا۔ اور اس استقامت کے پیکر نے آہنی ارادوں کے ساتھ ملک پاکستان کی ترقی اور قوم کی بہتری اور خوشحالی کا عزم کیا۔ لیکن ان کا عزم اور ارادے آج کی اس نام نہاد گورنمنٹ اور ان کے چیلے چمچوں نے خاک میں ملادی ہے۔ اور مکار لومڑی کی طرح اپنے حصے کی خاطر اندھے اور بہرے بے حس حکمرانوں کو شکار کے نئے نئے طریقے متعارف کراتے رہتے ہیں۔

آج قائد اعظم کی روح ہم میں سے پرواز کرچکی ہے ۔حکمرانوں کیلئے ملک و قوم کسی کھاتے میں نہیں سوائے اس کو لوٹنے اور زیر بار کرنے کے۔ انہیں صرف اور صرف اپنے کروفراور گردن میں سریے کی فکر ہے۔ انہیں نہ تو ملک کی عزت و وقار سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عوام سے کوئی مطلب ہے۔بیرون ملک کے دوروں پر کروڑوں روپے ایسے فضول میں خرچ کردیئے جاتے ہیں جیسے کہ ان کے باپ کا مال ہو یا حرام کی کمائی ہو۔ان کے نخرے ہیں کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتے ۔مظلوم عوام بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی ان کے اللے تللے برداشت کرتی ہے۔

کسی جلسے میں جاتے ہیں تو عذاب میں بھی پھر عوام آجاتی ہے سڑکیں بلاک کردی جاتیں ہیں گلیوں کو کیموفلاج کردیا جاتا ہے گھروں اور حتٰی کہ مساجد میں لوگ باجماعت نماز تک ادا نہیں کرسکتے ۔کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے ؟ بالکل نہیں ۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کیلئے بھی قائداعظم یا پھر چینی صدر شی جن پنگ کی ضرورت ہے جو کہ صرف اور صرف ملک و قوم کیلئے سوچے۔کاش میرے اختیار میں ہوتا تو میں اپنے ملک کی صدارت چین کے صدر کے حوالے کردیتا کیونکہ جب پہلے بھی امپورٹڈ صدر اور وزیراعظم پاکستان پر حکومت کرسکتے ہیں اور اس کی قسمت کا فیصلہ کرکے اسے پستی و تنزلی میں دھکیل سکتے ہیں تو پھر ہمسایہ دوست ملک کے صدرکو عوام و ملک کے بہترین مفاد میں اپنا صدر بنالینا کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے اس حکم نامے پر عمل درآمد کروانا جانتے ہیں-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 212086 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More