ابھی علمدار روڈ پر خون میں
نہلائے گئے سو کے قریب افراد کا چہلم بھی نہیں ہوا تھا کہ اپنے آپ کو اسلام
کے علمبردار سمجھنے والے لشکر جنگلی (ایسے خونخوار بھیڑیوں کے لئے یہی نام
مناسب ہے جو ڈھٹائی سے ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں) نے کیرانی روڈ پر سو
سے ذیادہ افراد جنمیں اکثریت خواتین و معصوم بچوں کی تھی کے خون سے ہولی
کھیل کر کوئتہ میں ایک نئی کربلا برپا کردی۔اس خونریز و المناک واقعے اور
اس کے بعد لاشوں سمیت دھرنے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں باضمیر
لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑا اور مظلوموں کا یہ احتجاج عالمی توجہ حاصل کرنے
کے بعد عالمگیر و ملک گیر دھرنے کی وجہ سے سپریم کورٹ و چیف جسٹس کو بھی
ازخود نوٹس لے کر پہلی بار لشکر جنگلی کا نام لے کر مذمت کی گئی۔ اس تمام
تر صورتحال اور نسل کشی میں سب سے ذیادہ زمہ داری ریاست یا سٹیٹ کی ہوتی ہے
جس کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال عزت و ناموس کی حفاظت
کریں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان مین ریاست کا کردار بانی پاکستان کے ہم مکتب
محب وطن عوام کے لئے سوتیلی ماں سے بھی بدتر ہو چکی ہے، حفاظت تو درکنار
بلکہ سرکاری سرپرستی میں دہشت گرد اور نام کی حد تک کالعدم تنظیموں کے
خونخوار قاتلوں کے لئے مراعات اور وی آئی پی پروٹوکول کی روداد بھی دھرنے
کے دوران کوریج کے موقع پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے شائع ہوتے رہے ہیں۔۔۔۔اس
سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگی کہ اس ملک میں جو لوگ محب وطن ہو جو پاکستان کی
سالمیت کے لئے امن سے ذندگی بسر کرتے رہیں تاکہ ان کے اباواجاداد کی
قربانیوں سے بننے والا یہ ملک خراب نہ ہو، ان محب وطن افراد کو دیوار سے
لگایا جائے،،،اور جو مٹھی بھر دہشت گرد ٹولہ جس نے اٹھارہ کروڑ کے آبادی
والے ملک کو اناراکی میں تبدیل کیا ہے، مٹھی بھر دہشت گرد ٹولہ کے
آباوجاداد نے قیام پاکستان سے آج تک نہ صرف مملکت خداداد پاکستان کی دشمنی
کی بلکہ اب بھی جاری رکھے ہوئے ہین، ان مٹھی بھر دہشت گرد ٹولہ کے
آباواجداد نے بانی پاکستان قائد اعظم کو اس وقت کافر قرار دیا اور آج یہ
مٹھی بھر دہشت گرد ٹولے لشکر جنگلی، قائد اعظم کے ہم مکتب افراد کو کافر
کافر کہلوانے سے بعض نہیں آتے،،،،افسوس تو اس بات ہے کہ ماں کی مثل قرار
پانی والی ریاست ان مٹھی بھر دہشت گرد ٹولے کو لگام دینے کی بجائے اسے اپنا
اساسہ و سٹرٹیجک ڈیفٹت قرار دے کر افغانستان میں سن اسی کی دہائی میں
امریکی سی آئی اے کے زیر اہتمام لڑنے والی جہاد سے لے کر آج تک اس کی پرورش
اور وی آئی پی پروتوکول دے رہی ہے، جس کا نتیجہ نہ صرف عوام بلکہ انہی
آستین کے سانپ مٹھی بھر دہشت گرد ٹولہ کی وجہ سے پاکستان کے حساس تنصیبات
بھی نشانے پر ہیں۔
اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جب تک اس کا ضمیر زندہ رہے
تو اس کی فطرت میں ظلم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔
لیکن بعض بھیڑیا نما انسان ظلم و جبر کی حدیں پھلانگ کر و حشی درندوں سے
بھی دو قدم آگے نکل جاتے ہیں۔ جس کی بہترین مثال مملکت عزیز پاکستان میں
اسلام کے نام پر اسلام اور انسانیت کے دشمن مٹھی بھر دہشت گرد ٹولہ عناصر
کی طرف سے عوامی مقامات سے لے کر سکولوں ہسپتالوں میلاد و عزا کے جلوسوں
مساجد امام بارگاہوں و زیارات گاہوں حتی کہ جنازوں پر فائرنگ ٹارگٹ کلنگ
دھماکے و خودکش حملے کرکے خواتین و معصوم بچوں تک کو بھی نہیں بخشتے، اور
پھر نام بھی اسلام کا نعرہ بھی تکبیر کا لگاتے ہیں۔ ۔حکیم الامت علامہ
اقبالؒ نے انہی دہشت گردوں کی نشاندہی کرکے ایک شعر کے زریعے سمندر کو کوزے
میں بند کرکے فرمایا تھا ۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی شمشیر نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ظلم کرنے والے دہشت گرد اور ان کے سرپرست شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا
کوئی محاسبہ نہیں ہوگا، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نظام قدرت میں مظلوم
کی آہ کا اتنا اثر ہے کہ یہ براہ راست عرش الہی تک پہنچتی ہے،مظلوموں کی
دادرسی کی بجائے حکمران اتنے بے حس و بے شرم اور قاتلوں کے سرپرست بن جائے
،جب سابق وزیراعلی بلوچستان کے آبائی علاقے مستونگ میں بارہا زائرین کا
ناحق قتل عام اور علمدار روڈ پر دہشت گردوں کا رقص ابلیس جاری رہنے
پرصحافیوں نے سوال کیا تو رئیسانی نے بے شرمی کی انتہا کرکے جواب دیا کہ
تیس چالیس افراد کے قتل ہونے سے کروڑوں کے آبادی والے بلوچستان پر کوئی فرق
نہیں پڑتا اسی طرح جب صحافی نے سوال کیا کہ آپ کیا اقدامات کریں گے تو مزید
بے شرمی سے مظلوموں کے لہو کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں دو ٹرک ٹشو پیپر
علمدار روڈ رونے والوں کے لئے بھجواؤں گا۔ اسلم رئیسانی ہر وقت شراب کے نشے
میں دھت تھا لیکن اسے اقتدار اور شراب کے نشے میں شاید اندازہ نہیں تھا کہ
امیر المومنین حضرت امام علی کے فرمان کے مطابق ـ حکومت کفر سے تو چل سکتی
ہے لیکن ظلم سے نہیں۔ـ۔۔ یہ حکومت و ریاست کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے
کہ عوام کے جان و مال عزت و ناموس کی حفاظت کریں۔ اسی طرح نواسہ رسول ص سید
الشہدا حضرت امام حسین کا یہ فرمان کہ ، ظلم کے خلاف خاموش رہنا ظلم میں
شریک ہونے کے برابر ہے یا با الفاظ دیگر دنیا میں دہشت گردی و فساد کی وجہ
آچھے و نیک لوگوں کی ظلم پر خاموشی کی وجہ سے ہی ہے۔یا پھر نواسہ رسول ص
سید الشہدا امام حسین نے مظلوموں کی ہدایت و رہنمائی ہی کے لئے فرمایا تھا
کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھاؤ گے۔ اب عوام
اور کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے کے شرکا کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ جو
ریاست اپنے بجٹ کا اسی فیصد حصہ سیکورٹی کے نام پر خرچ کرتی ہے اور آئین کے
مطابق اپنے شہریوں کی سیکورٹی اور جان و مال عزت و ناموس کی حفاظت نہ کریں،،،،،اگر
خون کی ہولی اور نسل کشی کا یہ بدترین سلسلہ جاری رہا تو اس طرح کے خون
آلود لاشوں سمیت دھرنے پاکستان کا مستقبل میں بھی مقدر بنیں گے،،،اسلئے
ریاست کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ پاکستان اور بانی پاکستان قائد اعظم
کے دشمن مٹھی بھر دہشت گرد ٹولے کو عبرت ناک سزا دے کر دوسروں لوگوں کو
دہشت گردی سے دور رہنے کا سبق دیکھیں وگرنہ آگ و خون کا یہ کربلا آئے روز
برپا ہوگا۔
آخر کار ظلم و جبر کے شکار کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے کے باسیوں نے
بلوچستان کی نااہل اور قاتلوں کی سرپرست رئیسانی حکومت اور اس کے بعد
موجودہ انتظامیہ کے خلاف خون جمانے والی شدید سردی و بارش میں اپنے پیاروں
کے خون آلود لاشوں کے سامنے چار دن مسلسل بیٹھ کر ظالم و نااہل حکمران کا
خاتمہ کر ہی لیا، حالانکہ علمدار کوئٹہ میں بے گناہوں کے لہو کی طاقت اور
درجنوں شہدا کے لاشوں سمیت مثالی پرامن و منظم ترین دھرنہ و احتجاج کو ختم
کرنے کے لئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کئی افرد بشمول رحمان ملک نے
مظاہرین سے التجا کی کہ لاشیں دفن کردیں پھر چاہے جتنی دیر دھرنا دیں۔ لیکن
بارہا زبانی جمع خرچ وعدوں سے تنگ علمدار روڈ کے باسیوں جس سے متاثر ہو کر
نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں و دیہات بلکہ دنیا کے درجنوں ممالک میں
پاکستان کے سفارتخانوں اور اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے کوئٹہ کے مظلومین
سے یکجتی کے لئے یہ دھرنا چار دن تک مسلسل جاری رہ کر ظلم کے خلاف عالمی
احتجاجی علامت بن گیا۔
اس دھرنے نے پاکستان میں مظلوموں کی طرف سے منظم و پر امن اورباوقار ملک
گیر احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کردی، بیک وقت ملک کے درجنوں شہروں میں
لاکھوں عوام نے سڑکوں کا رخ کرکے احتجاج کیا جس کے منظم اور بہترین ہونے کو
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اینکرز و کالم نگاروں نے بھی بھرپور سراہا اور
کوریج بھی دی۔ اگر چہ گزشتہ سال اسلام آباد میں پاراچنار کرم ایجنسی کے
قبائلی عوام نے لشکر جنگلی اور طالبان دہشت گردوں کے مظالم اور چار سال سے
ٹل پاراچنار روڈ کی بندش پر یہ موقف اختیار کرکے احتجاجی دھرنا دیا تھا کہ
ٹل پاراچنار شاہراہ طالبان اورحکومت و سیکورٹی فورسز دونوں کے لئے کھلی
ہے۔۔۔، لیکن گزشتہ چار سالوں سے صرف پاراچنار کرم ایجنسی کے عوام کے لئے
بند اور مقتل گاہ بنی ہوئی ہے ،اس ظلم کے خلاف اسلام آباد میں ایک سو دس دن
تک یعنی چار ماہ شدید ترین گرمی میں ایک منظم و پرامن دھرنا دے کر ایک نئی
تاریخ رقم کی تھی۔ پاراچنار کے عوام کے اسلام آباد میں منعقدہ دھرنے حمایت
میں بھی کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنےکی طرح بیک وقت ایک ہی دن میں
پاکستان کے کئی شہروں کی شاہراوں پر احتجاجی اجتماعات و دھرنے ہوئے تھے،
لیکن اس کی بازگشت میڈیا پر نہ ہونے کے برابر تھی، شاید اس وقت میڈیا کی
ترجیات میں نہیں تھا یا پھر کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے کی طرح شہدا کی
لاشیں ہمراہ نہیں تھی، الغرض شہدا کی لاشوں اور لہو کی قوت نے کیرانی روڈ و
علمدار روڈ دھرنے کو ایک نئی جہت و عالمی توجہ دی۔
کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے کی ایک اور اہم ترین پہلو اپوزیشن کی تمام
اہم پارٹیوں سمیت برسراقتادار حکومتی پارٹی کے بعض وفاقی عہدیداروں کا بھی
برملا مظلومین کی حمایت اور حتی کہ کھلم کھلا پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم
لشکر جنگلی کا نام لے کر مزمت کرنا ہے، اس سے ایک بات واضح ہو گئی کہ
پاکستان کی اکثریت چاہے کسی بھی مکتبہ فکر و سیاسی پارٹی سے ہو وہ اس ناسور
مٹھی بھر دہشت گرد ٹولے لشکر جنگلی اور اس کا ساتھ دینے والی نام کی حد تک
کالعدم تنظیموں کے خلاف پاکستانی عوام نے ایک تاریخی فیصلہ کرکے ریاستی
اداروں کے سامنے رکھ دیا ہے کہ کیا اب بھی وہ ان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ
کن کاراوئی کریں گے۔۔۔۔یا پھر زبانی جمع خرچ نشستا گفتا برخساتن کے مصداق
پاکستان کے دشمن عناصر کی طرف سے مھب وطن پاکستانیوں کے کون کی ہولی اور
رقص ابلیس کا نظارا کرکے محض زبانی جمع خرچ بیانات دے کر عوام کی آنکھوں
میں دھول جھونکیں گے، اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
ظلم کے خلاف احتجاج ابتدا ہی سے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف انداز میں
میں ہوتا رہتا ہے لیکن بعض احتجاج ایسے منفرد ہوتے ہیں، جس کی دنیا بھر میں
لوگ تقلید کرکے آئیڈیل بنا کر نقل اتارنا شروع کرتے ہیں اور وہ احتجاج کی
ایک علامت بن جاتے ہیں۔ ان منفرد احتجاجوں میں سے ایک عراق میں امریکی صدر
بش پر منتظر ذیدی کی طرف سے پھینکنے والا جوتا، جس کی بعد میں نہ صرف عراق
بلکہ پوری دنیا میں احتجاجی جوتے کو آئیڈیل بنا کر جوتا پھینکنے کے احتجاج
کی بارہا تکرار ہوئی۔ اسی طرح کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے بھی پاکستان
میں احتجاج کی ایک علامت بن گیئے، اور یوں آنے والے ادوار میں بھی کیرانی
روڈ و علمدار روڈ دھرنےکی طرزپر منتظر ذیدی کے جوتا پھینکنے کی طرح بارہا
تقلید اور نقل اتاری جائیگی، لیکن شاید نہ ہی منتظر ذیدی جیسا منفرد انداز
میں کوئی پھر جوتا پھینک سکتا ہے اور اسی طرح نہ ہی کیرانی روڈ و علمدار
روڈ دھرنے جیسے منظم پرامن اور استقامت سے بھرپور دھرنے کی نظیر ملنا مشکل
ہے۔ علمدار روڈ دھرنے نے طاغوت شکن امام خمینی کی اس پیغام کی ایک بار پھر
تائید کروادی کہ دنیا ہمیں رونے والا قوم کہہ کر مذاق اڑاتی تھی، لیکن انہی
آنسوؤں و احتجاج سے ہم نے صدیوں سے برسراقتدار شاہی نظام کو نابود
کردیا۔۔۔۔ اسی طرح کیرانی روڈ و علمدار روڈ دھرنے کے مظلومیں اور دنیا بھر
میں ان کے حامی باضمیر افراد نے بھی مظلومیت آنسو اور احتجاج سے حکومت کو
گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کرکے حکومت و ریاست کے ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا
اور یوں تلوار پر خون کی طاقت کا غلبہ ہو کرمظلومیت ایک با پھر جیت گئی اور
ظلم و ظالم بے نقاب ہو گئے، یہ کوئی عام بات نہیں بلکہ وعدہ الہی اور نظام
قدرت کا اصول ہے۔
( شکریہ The end) |