دینِ اسلام عقیدہ اور شریعت کا
نام ہے یوں وہ اپنے عقائد و احکام میں کامل ہے، دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کی
توحید و وحدانیت کا حکم دیتا ہے اور شرک سے منع کرتا ہے، سچائی کا حکم اور
جھوٹ سے منع کرتا ہے، عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور جور و ستم سے منع
کرتا ہے، امانت داری کا حکم دیتا ہے اور خیانت سے منع کرتا ہے، اسلام
جہاںوفاداری کا حکم دیتا ہے وہیں بے وفائی و غداری سے منع کرتا ہے، والدین
کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم صادر کرتا ہے تو وہیں ان کی نافرمانی سے منع بھی
کرتا ہے، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور ان سے قطع تعلق
کو منع کرتا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے اور ان سے بُرے
سلوک کو بالکل منع کیا ہے، دینِ اسلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام تمام اچھے
اخلاق کا حکم دیتا ہے اور ہر بُرے اور گھٹیا اخلاق سے منع کرتا ہے، اس کے
علاوہ تمام نیک اعمال کا حکم بھی دیتا ہے اور ہر بُرے عمل سے منع کرتا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے، مفہوم:” اللہ تبارک و تعالیٰ عدل کا ، بھلائی اور قرابت
داروں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں،
ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحت کر رہا
ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“(سورہ
النحل:90)
قرآن و حدیث اور اسلام نے تمام اچھی باتیں آپ کو بتا دی ہیں اب یہ آپ پر
منحصر ہے کہ آپ کس راستے پر چلنا پسند کریں گے؟ آپ اگر تنہا سفر کر رہے ہوں
اور چلتے چلتے آپ کے سامنے ایک دوراہا آجائے ، جہاں ایک راستہ سخت دشوار
گزار ، پہاڑ کی بلندی کی طرف جا رہا ہو اور دوسرا نشیبی قدرے آسانی سے طے
ہو جانے والا راستہ ہو تو پہلا جو دشوار گزار راستہ ہے اس میں ہر طرف پتھر
اور کانٹے بِکھرے ہوئے ہونگے، قدم قدم پر گڑھے ہونگے، جن کی وجہ سے اوپر
چڑھنا بھی مشکل ہوگا اور راہ طے کرنا بھی دشوارجبکہ اس پر ایک کتبہ نصب نظر
آئے گا جس پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ راستہ اگرچہ دشوار گزار ہے اور اس پر
چلنا تکلیف دہ ہے لیکن یہی درست راستہ ہے جو بڑے شہر کو جاتا ہے اور منزلِ
مقصود تک پہنچاتا ہے۔دوسرا راستہ ایک ہموار راستہ ہوگا جس پر پھل دار درخت
اور شگوفے سایہ فگن ہونگے دونوں جانب ہر قسم کی تفریحات جنتِ نگاہ اور
فردوسِ گوش ہونگی، جن کی وجہ سے دل کھینچا چلا جا رہا ہوگا، لیکن راستے کے
سِرے پر ایک انتباہ آویزاں کر دیا گیا ہوگا کہ یہ راستہ انتہائی خطرناک اور
مہلک ہے اور اس راستے کے آخر میں ایک ایسا نشیب ہے جس میں یقینی موت ہو
سکتی ہے ، ایسی صورت میں آپ کون سا راستہ منتخب کریں گے ؟ لازمی امر ہے کہ
انسانی طبیعت دشوار گزار راستے کے مقابلے میں آسان راستے کی طرف مائل ہوتی
ہے اور مشقت و تکلیف کی بجائے سہولت و آرام پسند کرتی ہے، نفسِ انسانی قید
و بند کے مقابلے میں آزادی کا دلدادہ ہے اور یہی وہ انسانی فطرت ہے جس پر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔اس لئے اگر انسان کو اپنی
خواہشاتِ نفس کی تکمیل کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے اور وہ ان کے پیچھے لگ
جائے تو ظاہر ہے وہ دوسرا راستہ اختیار کرے گا لیکن ایسے تمام مواقع پر عقل
آڑے آتی ہے اور یہ موازنہ کرنے پر بضد ہوتی ہے کہ وقتی اور فوری لذت و راحت
جس کا انجام طویل رنج و غم اور تکالیف ہے، اچھی ہے یا وہ عارضی اور وقتی
تکلیف و مشقت جس کے بعد نہ ختم ہونے والی راحت و لذت ہو بہتر ہے اور بالا
ٓخر انسان پہلا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
اور توبہ کے لئے بھی اسلام نے بہت واضح اشارے دیئے ہیں۔ صحابی رسول حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کر
لے گا ‘ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔“ (صحیح مسلم، جلد
05، باب 35، حدیث 6525)
اس کا فائدہ اس طرح ہوگا کہ توبہ کے لغوی معنی تو رجوع کرنے کے ہیں۔ انسان
جب گناہ کرتا ہے تو اللہ سے دور ہو جاتا ہے‘ پھر توبہ کرتا ہے تو گویا اس
دوری سے اللہ کی طرف رجوع کرکے اس کے قرب اور مغفرت کی خواہش کرتا ہے۔ اسی
رجوع الیٰ اللہ کا نام توبہ ہے۔ اور تَابَ اللّٰہُ عَلَیہِ کا مطلب ہے ،
اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔
دینِ اسلام میں احادیث و درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات کا بھی
ذکر بہت واضح کر دیا گیا ہے۔حضرت ابو بردہ دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا جو امتی خلوصِ دل
سے مجھ پر صلوٰة بھیجے گا اللہ رب العزت اس پر دس صلوٰتیں بھیجتا ہے اور اس
کے صلہ میں اس کے دس درجات بلند کر دیتا ہے۔ اور اس کے حساب میں دس نیکیاں
لکھتا ہے اور اس کے دس گناہ محو فرما دیتا ہے۔ (سنن نسائی، معارف
الحدیث)اسی طرح حضرت کعب بن انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک
دن رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا میرے پاس
آجاﺅ۔ ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ (آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد
فرمانا تھا فرمایا۔ پھر آپ منبر پر جانے لگے تو) جب منبر کے پہلے درجے پر
قدم رکھا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ آمین،پھر جب دوسرے
درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، اسی طرح جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو
پھر فرمایا آمین۔ پھر جب آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے تو ہم لوگوں نے عرض
کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آج ہم نے آپ سے ایک ایسی چیز
سنی جو ہم نے پہلے نہیں سنی۔ (یعنی منبر کے ہر درجے پر قدم رکھتے وقت آج آپ
آمین کہتے تھے یہ نئی بات تھی) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جب میں منبر پر چڑھنے لگا تو جبرائیل علیہ السلام آگئے تو انہوں نے کہا کہ
: برباد و ذلیل ہو وہ محروم جو رمضان المبارک پائے اور اس میں بھی اس کی
مغفرت کا فیصلہ نہ ہو تو میں نے کہا آمین، پھر جب میں نے منبر کے دوسرے
درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: برباد و ذلیل ہو وہ بے توفیق اور بے
نصیب جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو اور وہ اس وقت بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے تو میں نے کہا آمین، پھرجب میں نے
منبر کے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا : برباد و
ذلیل ہو وہ بدخبت شخص جس کے ماں باپ یا ان دو میں سے ایک اس کے سامنے بوڑھے
ہو جائیں اور وہ (ان کی خدمت کرکے اور ان کو راضی اور خوش کرکے) جنت کا
مستحق نہ ہو جائے اس پر بھی میں نے کہا آمین۔ (جامعہ ترمذی، معارف الحدیث)
صدقہ کے فضائل کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! ”
مسکین پر صدقہ کرنے کا ایک صدقے کا ثواب ہے اور رشتہ دار پر صدقہ کرنے کا
دُہرا ثواب ہے۔ ایک صدقے کا اور ایک صلہ رحمی کا۔“ (مشکوٰة شریف، ص171)
حدیثِ پاک سے واضح ہوا کہ اپنے رشتہ داروں کو جو غریب و مسکین ہوں ان کو
صدقہ دینا اور ان پر خرچ کرنا اور ان کو کھانا کھلانا دُہرا ثواب ہے۔ مگر
اکثر اوقات لوگوں کے خاندان میں دیکھا گیا ہے کہ غریب و نادار و حقدار لوگ
موجود ہوتے ہیں اور وہ مبتلائے فقر و فاقہ کے مرتے ہیں مگر رشتہ دار
اغنیاءان کی طرف خیال نہیں کرتے اور دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ کیونکہ
اخباروں میں ان کی تصویریں بنتی ہیں جس پر وہ زیادہ دیتے ہیں مگر قرابت
داروں کا خیال بھول کر بھی نہیں کرتے۔ اللہ رب العزت ان کو ہدایتِ کاملہ
عطا کرے کہ وہ پہلے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کریں تاکہ دُہرے ثواب کے مستحق
گردانیں جائیں۔ اللہ رب العزت ایسے تمام لوگوں کو ریاکاری اور تصنع و بناوٹ
سے محفوظ فرمائے، آمین۔
اسلام کیا ہے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر اس کی شگفتگی آج بھی
نئی لگتی ہے۔ اسلام کیا ہے؟ گزشتہ دنوں جکارتہ میں قائم قرآنی تعلیمات کے
انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹر نکولاﺅس وان ڈیم (جکارتہ میں ہالینڈ کے سفیر ہیں)نے
”عالمی سیاست، رجحانات اور اسلام کا کردار مسلم اسکالرز کی عالمی ذمہ داری“
کے موضو ع پر ایک لیکچر دیا تھا جس کا کچھ حصہ قلم بند کر رہا ہوں۔ ” صرف
یہ وضاحت کر دینا کافی نہیں ہے کہ اسلام در حقیقت کیا ہے بلکہ یہ تفریق
کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ کون سی باتوں کا اسلام سے تعلق ہے اور کون سی
غلط طور پر اس سے منسوب کی گئی ہے۔اسلام اور مسلم عقیدے پر عمل کرنے والوں
کے افعال کے درمیان کیا تعلق ہے؟ میری رائے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن
کا بطورِ مذہبِ اسلام کے ساتھ بہت کم واسطہ ہے لیکن بہرحال انہیں اس سے
منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کا ان چیزوں سے تعلق ہے وہ اتفاق سے
مسلمان ہیں۔تفصیل تو بہت کچھ ہے مگریہاں اس کا ذکر اس لئے کیا جانا ضروری
تھا کہ ایک انگریز ہمارے مذہب کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے کہ وہ اس
موضوع پر تقریر کرنے کھڑا ہوگیا مگر ہم مسلمان ہوکر اپنے دین سے کتنے دور
ہوتے جا رہے ہیں۔اور لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم لوگ اب بھی توبہ کا
دروازہ کھٹکھٹانے میں پیچ و تاب سے کام لے رہے ہیں۔ افسوس! یہ وقت ہم سب کے
لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔
دنیا میں قرآنِ پاک کے معجزے نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم ناخواندہ تھے لیکن وہ دنیائے انسانیت کے بے مثال معلم ہیں۔
اس بے مثال معلم کے فیضِ صحبت ہی کا نتیجہ ہے کہ عرب کے قدیم وحشی بدو فاتح
عالم بن گئے اور سر زمین حجاز کے صحرا میں معلم صدق و وفا سے درس لینے والی
تہذیب ناآشنا قوم دنیا کی لیڈر بن گئی۔ یہ صرف خدائی ہدایت (قرآنِ پاک) کا
معجزہ تھا جس نے تاریخ کا مکمل دھارا بدل دیا اور دنیا کو نورِ علم سے منور
کر دیا۔ آپ کے نصاب میں صرف یہی ایک کتاب قرآنِ مجید رہی۔ فریضہ معلمی کی
ادائیگی وحی اوّل سے شروع ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم میں درج ہدایات کی روشنی میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی ریاست قائم کی۔ اور یہ سب کام بحیثیت
معلم کیا۔ اہلِ یورپ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں سے
اسپین اور اٹلی میں روابط کے ذریعے ان اصولوں کو اپنا لیا لیکن بعد میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل وارثوں نے تعلیم کے ان بنیادی اصولوں
کو بھلا دیا علم کے بغیر آدمی نہ دنیا سمجھ سکتا ہے نہ ہی دین کی گہری
معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے علم کو سب سے زیادہ اہمیت
دی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمایا: طلب علم
ہر مسلمان مرد و زن کا فریضہ ہے۔ انسان کے لئے سب سے قیمتی زیور تعلیم کا
ہے۔
نیکی کرنا اس کی اصل روح اللہ کی محبت ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے،
مفہوم:تم میں سے جو نیکی کار ہیں اللہ نے ان کے لئے بڑا اجر مہیا کر رکھا
ہے۔ (سورة الاحزاب ، آیت29) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: نیکی کا بدلہ
نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ (سورہ رحمٰن، آیت 60)
اعمال کی درستگی کے لئے ہم دین پر عمل پیرا ہو کر اپنی اور اپنے بہی خواہوں
کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔یوں لوگ آپ کی شائستگی و پاکیزگی ، ایمانداری،
پڑوسیوں سے احسن سلوک، رشتہ داروں پر مہربانی، اسلام سے محبت و چاہت، حلال
رزک کا استعمال ، نماز کی باقاعدگی ، قرآن شریف کی تلاوت کا معمول ، درود
شریف کا گردان،(غرض یہ کہ ہمارا دینِ اسلام ہمیں جو کچھ کہتا ہے اس پر
خلوصِ دل سے عمل داری کرنا ہماری اوّلین ذمہ داریوں میں سے ہے جس پر عمل
کرکے ہم سب اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے
قریب ہوجائیں ، اسی میں ہم سب کی بھلائی کارفرما ہے)کو دیکھتے ہوئے ضرور
تقلید کریں گے۔ اگر آپ کی دیکھا دیکھی کوئی اور بھی بلکہ بہت سے بھی آپ کی
تقلید پر آمادہ ہو جائیں تو سمجھئے کہ آپ نے کتنا بڑا کارہائے نمایاں سر
انجام دیا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تُو میرے جسم میری روح کو اچھا کر دے
یہ حالت اپنی جو میں نے خود بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے
میرے ہر فیصلے میں تیری رضا ہو شامل
جو تیرا حکم ہو وہ میرا ارادہ کرے
دین اور اسلام کی باتیں اور اس پر عمل پیرا ہونا یہاں پر ختم نہیں ہوتا ۔
یہ تو چنیدہ چنیدہ باتیں تھیں جو مضمون کی تمہید کے لئے اس کے پہلو کو
اُجاگر کیا گیا ہے۔ ورنہ تو اس پر لکھتے چلے جاﺅ مگر موضوع اپنے اختتام کی
جانب رواں ہی رہے گا۔ آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے مگر اس کی انتہا ممکن
نہیں ہو سکتی۔
لمحہ موجود ہی انسان کی اصل زندگی ہے اسی کو احکامِ الٰہی کے مطابق بہتر
بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کتنی طویل ہے۔ یا
کئی سالوں پر محیط ہے ، دوسری سانس تک کی مہلت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم میں
سے کون ہے جو اپنے اعمال سے مطمئن ہے ۔ جس زندگی نے دنیا کو آگے اور آخرت
کو پیچھے رکھا ہے وہ برباد ہے۔ آیئے ہم دونوں جہا ویران و برباد ہونے سے
بچائیں اور اللہ رب العزت کے بارگاہ میں توبہ کریں تاکہ ہم سب کی زندگی
سنور جائے۔ |