کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن

ہمارےآزاد اور سیکولر ملک کا المیہ یہ ہے کہ صرف ملک میں قیام امن و شانتی اوربھائی چارہ جیسے الفاظ سے محض کھیلا جا رہا ہے اس لیے کہ اب تک اس کے لیے نہ ہی کو ئی مستحکم وموثر قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی اس لفظ امن و شانتی اور اخوت و یکجہتی کا بھرم رکھا گیا ہے ۔

افضل گروہ کی پھانسی کی خبراس ملک کے ہر شخص کے لیے بالخصوص سیاست سے جڑے افراد وحزب کے لیے مسرت بخش ثابت ہو ئی تو دوسری طرف ہر منصف اور امن پسند صاحب علم افراد کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے کہ کیااس کام سے ملک سے دہشت گردی ،ہنگامہ آرئی ،فرقہ واریت ،قومی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا ؟کیا اب اس دھرتی ماتا پر ظلم و بربریت،بہمیت و درندگی ختم ہو گئی ؟کیا اب اس ملک میں دہشت کا سد باب ہو گیا؟؟

یہ ایسے سوال ہیں جن پر ہر صاحب انصاف کو غیرجانبدارانہ طور پر مذہب کے حصار سے نکل کر غور و خوض کرنا چاہئیے ۔ان سوالات کے پیش نظر یہ کہاجا سکتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اس لیےکہ جب تک حکومت ہند عدلیہ کے آئین کی پابندی کرتے ہو ئے حقوق انسانی جیسے قانون کا تتبع اختیار نہیں کرتی ان مشکلات میں یونہی گھری رہے گی ۔اس کے نفاق کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف دہشت کے خاتمہ کا نعرہ بلند کرتے ہو ئے اکثر بے جرم و خطا افراد کو مورد الزام ٹہراتی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرست افراد و مشن کو فرقہ واریت اور مذہب کے نام پرفساد پھیلانے کی کھلی آزادی دے رکھا ہے ۔

حکومت یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک میں خوف و دہشت اوردین و دھرم کے نام پر ملک میں نفرت کی آگ بھڑکانے والے افضل اور قصاب سے بھی زیادہ خونخوار اور خطرناک موجود ہیں لیکن انھیں اپنی سیاسی منافع کی خاطربے پدر و مادر آزاد چھوڑ رکھا ہے ۔

یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ان کی گرفت نہ ہو ئی تووہ دن دور نہیں ہے کہ یہ اپنے ہوس اقتدار میں ملک کےغریب و مفلس اور بے روزگار عوام کی صفوں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی سعی ناسعید کریں گے اور اس طرح سیاسی نفع کی بلند و بالا عمارتیں زمیں بوس ہو کر رہ جا ئیں گی ۔یہ بات تو ہر صاحب علم و فہم کے لیے طے ہے کہ ایک دھماکہ سے اگرمالی اور جانی نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف قومی عصبیت ایسی بری شے ہے جس سے مالی اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سماجی نقصان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔جیسا کہ ہم ساٹھ برس کی گزشتہ تاریخ میں دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ملک میں تقریباً تیس سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہو ئے جس میں مالی ،جانی اور سماجی نقصان ہوا اور اقلیت ایسی پچھڑی کہ ابھی تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل نہ کر سکی ۔مزید یہ کہ ملک کو ترقی کے جس میدان میں ہونا چاہئیے تھا وہ اس سے کوسوں دور بھی ہے جس کا سبب ملک میں نفرت و عصبیت کی فضااور روز روز کی داخلی ہنگامہ آرئیاں اس کی راہ میں رکاوٹیں بن رہی ہیں ۔

ملک میں جہالت وبےروزگاری نےعوام کو ہر برائیوں پر مجبور کردیا ہے ۔نہ ہی اس ملک میں تعلیم کا صحیح بندو بست ہے اور نہ ہی بے روزگار کو صحیح اور مناسب روزگار فراہم کرنے کا مرکز۔کچھ خاص طبقہ ہے جس کے لیے ساری چیزیں موجود و مہیاہونے کے باوجود وہ بھی لوٹ مار،رشوتبد عنوانی، اور کرپشن کا شکار ہے ،تو ملک میں بسنے والے ان غریب و مفلس اور نادار طبقے کی بات ہی کرنا لغو و بے سود ہے ایسے پر آشوب ماحول میں جہاں ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہو وہاں جاہل اور بے روزگار عوام سے اچھائی اور وفا کی امید جو شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

یہ بات کوئی انوکھی نہیں ہے جسے ہم نے صفحہ قرطاس کے حوالہ کیا ہے حکومت ہند اسے خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک کا اقلیتی طبقہ کی حالت زار کیا ہے اور ہندوستان میں بسنے والے غریب و مفلس شہری کے حقوق کیا ہیں لیکن اس کے باوجود اس پر کوئی موثر قدم نہیں اٹھاتی ۔۔۔۔۔۔
هر شاخ په الو بيٹھا ہے انجام گلستان كيا هوگا

غربت و جہالت کے ساتھ ساتھ جرائم کی شرحیں آسمان کی بلندی پر نظر آتی ہے ،یہ ہمارے ملک المیہ ہے کہ مجرم جرم کے باوجود آزاد گھومتا ہے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایسے بے گنا ہ افراد ہیں جن کے دامن جرم سے بالکل پاک ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن وہ چونکہ اقلیت میں اس لیے ان کا مقدر قید و بند ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ایسے بے گناہ افراد کوسیاسی منافع کی خاطردہشت گردی سےمنسلک کرکے تختہ دار پر چڑھا دیا جا تا ہے۔اور اصل دہشت،اور دہشت گرد کے فروغ دینے والےماسٹر ماینڈ کو بہادری اورقومی ہیرو کے نام پر تغموں سے نوازا جاتا ہے ۔کیا ملک کے حکمراں کے پاس دہشت گردوں کی فہرست نہیں ہے ؟کیا حکومت نہیں جانتی ہے کہ دہشت گرد اور دیش دروہی کون ہے ؟کیا وہ یہ نہیں جانتی ہے کہ فرقہ پرستی اور دہشت گردی اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے ؟ کیا اس سیکولر ملک میں جہاں سینکڑوں اقوام و ملل اپنی زندگی کی شاہراوں پر محنت و مشقت میں مشغول ہو وہاں ایک انتہا پسندگروہ اپنے ٹرنیگ یافتہ گماشتوں کے ہمراہ قومی عصیبت کی بے سرکی راگنی بجاتا پھرے اور ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو کر خوف و دہشت کا علی اعلان بازار گرم کرے ،کیا ایسا کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟؟؟کیا امریکی و اسرائیلی زیر نظر آر ایس ایس ،وی ایچ پی یا اس جیسی شدت پسند تنظیمں دہشت گرد نہیں ہیں ؟؟کیا صرف اس دیش میں وہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں جنہوں نے اس دیش کو بچانے کی خاطر اپنا سارا سرمایہ حیات لٹا دیا ؟دہشت گرد اور دیش دروہی کا نقاب مالیگاوں ،گجرات،جبل پوروغیرہ جیسے ریاست میں ہونے والے فسادات کے بعد ہی تارتار ہو کر رہ گیا تھا علاوہ ازایں سشیل کمار شندے کا انتہا پسند تنظیموں کو بے نقاب کرنے کے بعد بھی حکوت نے دانستہ اس صورتحال سے اغماض کرتے ہو ئے صرف اور صرف اپنے سیاسی مفاد کی خاطر آنکھیں بندکر رکھی ہیں ۔
اندھی نگری چوپٹ راج
پھر بھی ہماری زبان یہ کہتے کہتے نہیں تھکتی
میرابھارت ماہان
Taqi Razavi
About the Author: Taqi Razavi Read More Articles by Taqi Razavi: 11 Articles with 11850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.