سیاست ‘ جمہوریت اور انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

دہشتگردی ‘بد امنی ‘ قتل و غارت ‘ لاقانونیت ‘جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ‘ ہر سطح پر پر پھیلائی کرپشن ‘ استحصال و نا انصافی کے نظام اور تباہ حال معیشت سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار و حکمرانی ایسے لوگوں کے پاس ہو جو اہل ‘ دیانتدار ‘ ثابت قدم ‘ عوام دوست اور پاکستان سے حقیقی محبت کرنے والے محب وطن ہو ں کیونکہ ایسے حکمرانوں و قیادت کے انتخاب کے ذریعے ہی ملک میں پائیدار جمہوریت قائم ہوسکتی ہے بصورت دیگرمارچ میں قائم ہونے والی نگراں حکومت اگرجون کے اواخر تک انتخابات کرانے میں کامیاب ہوتی ہے تو انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی عوامی نمائندگان ستمبر تک حکومت سازی میں کامیاب ہوسکیں گے اور یہ وہی وقت ہوگا جب چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف دونوں ہی یکے بعد دیگرے اپنے اپنے منصبوں سے رخصت ہوجائیں گے( عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کی سربراہی کیلئے بھی نیا نام سامنے آجائے گا)جبکہ کرپشن میں ملوث ‘ قرضے معاف کرانے ‘ اختیارات سے تجاوز کرنے ‘ عوامی و قومی مفادات کو نقصان پہنچانے ‘ انتشار ‘ تعصب ‘ صوبائیت ‘ لسانیت ‘ مذہبی اور مسلکی منافرت کو فروغ دینے والے عناصر پر مشتمل کمزور ترین حکومت قومی و عوامی مفادات یقینی بنانے کی بجائے اپنی سلامتی کیلئے سرگرداں ہوگی تو حالات یقیناآج سے زیادہ دگرگوں و تشویشناک ہوں گے۔ اس وقت سربراہ عساکر کا حلف اٹھانے والے کے اعصاب موجودہ آرمی چیف جتنا ساتھ نہ دے سکے یااس وقت کی عدلیہ آج کی عدلیہ جیسا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی تو پھر جمہوریت کی دلہن شاید سہاگن کی حیثیت سے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہ مناسکے اور 2014ءکا سال پاکستان میں جمہوریت کی رخصتی کے حوالے سے پہچانا جائے ۔اسلئے محض انتخابات کے انعقاد کے ذریعے جمہوریت کو لاحق خطرات کو دور کیا جاسکتا ہے نہ ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالا جاسکتا ہے بلکہ مو ¿ثر اصلاحات کے ذریعے جانبداری سے پاک ‘ شفاف ‘ منصفانہ انتخابات کے زریعے پر امن ماحول میں عوام کو صاف ستھرے نمائندگان میں سے اپنے لئے آئندہ قیادت کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کرکے ہی خطرات کو دور کیا جاسکتا ہے ۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں پہلی بار چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان حقیقی معنوں میں منصفانہ اور مفید انتخابات کے انعقاد کیلئے دیانتدار و فعال دکھائی دے رہا ہے اور جس قسم کی انتخابی اصلاحات کی جانب قدم بڑھارہا ہے وہ اس بات کی امید دلارہی ہیں کہ اگر واقعی ا ن اصلاحات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے تو پاکستان کی سیاست سے موجود غلاظت بڑی حد تک صاف ہوجائے گی ۔ اصلاحات کی چھلنی سے گزرنے کے بعد جو نمائندے انتخابات میں حصہ لیں گے وہ موجودہ پارلیمنٹرینز سے حد درجہ بہتر ہوں گے۔ ان بہتر افراد میں سے مزید ستھرے افراد کا انتخاب کرکے پاکستان کے عوام ایک ایسی پائیدار جمہوری حکومت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو ملک وقوم کیلئے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں سے بہتر پالیسیاں مرتب کرکے ملک و قوم کو بہتری و اصلاح اور آگے کی جانب لیکر چلیں گے۔

پاکستان کے اختیار واقتدار پر قابض استحصالی عناصرجو پاکستان کو اپنی ملکیت ‘ عوام کو غلام اور اقتدار کو لونڈی سمجھتے ہیں ان کیلئے الیکشن کمیشن کا دیانتدارانہ کردار نا قابل قبول ہے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ”انتخابی اصلاحات “ کی چھلنی میں سے ان میں سے بھی کوئی گزر نہیں پائے گا اور انتخابات سے قبل ہی ہر ایک روایتی سیاستدان ‘ سیاسی خاندان اور سیاسی قائد اقتدار سے دور ہوجائے گا اسلئے عرصہ دراز سے پاکستان کو باری باری لوٹنے اور ان لٹیروں کو مضبوط بناکر لوٹ کے مال میں اپنا حصہ وصول کرنے والے الیکشن کمیشن کے خلاف یکجا ہوچکے ہیں اور الیکشن کمیشن پر سیاسی دبا ¶ بڑھانے کیلئے مختلف پتے کھیلے جارہے ہیں تاکہ انتخابات کو اصلاحات سے پاک کرکے اقتدار کی منزل تک پہنچا جاسکے یا پھرانتخابات کو ہی سبوتاژ کیا جاسکے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ اقتدار پرست وہ تمام حلقے پاکستان ‘ جمہوریت ‘ عوام اور انتخابات اور الیکشن کمیشن کے خلاف اس سازش میں برابر کے حصہ دار و ذمہ دار ہیں جو الیکشن کمیشن کی انتخابی اصلاحات کو من و عن تسلیم کرنے میں حیل و حجت ‘ مخاصمت اور احتجاج کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔

پاکستان سے فوج کے طویل اقتدار کو ختم کرکے عوامی جمہوریت قائم کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے جب پاکستان کو دستور کا تحفہ دیا تونہ صرف پاکستان کو انگریز کی نمک خواری کی صلے میں ملنے والی جاگیر اور عوام کو اپنی رعایا سمجھنے والے جاگیردار ‘ وڈیرے ‘ سرمایہ دار اور مذہبی بازیگر ان سے ناراض ہوگئے بلکہ پاکستان دشمن قوتیں اور ریاستیں بھی ان کی مخالف ہوگئیں اور پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے متحدہ اسلامی بلاک بنانے کیلئے عملی جدوجہد کی اور پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے کے عمل کے ساتھ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مزید پورٹ بنانے کے کام کا آغاز کیا تو وہ معتوب قرار پائے اور پٹرول کی نعمت کے ذریعے دنیا کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی و منشاءپر امریکی و یورپی ممالک کو چلانے والوں نے سامراجی ممالک کی مددسے اقتدار پرست جرنیلوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کی مددسے ذوالفقار علی بھٹو کو عدلیہ کے ہاتھوں شہید کرادیا اور ان کی مدد کو کوئی دوست ملک آیا نہ ہی بیرونی سرمائے کے استعمال سے ان کیلئے کوئی عوامی تحریک چلی جبکہ یلوکیب اسکیم کے ذریعے گوادر منصوبے کو وقت کی دھول میں دبانے کی سازش کے ذریعے پٹرول مافیا کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے جب فوج جیسے منظم ادارے کو تباہ کرنے کی جرم میں پابند ِ سلاسل ہوئے اور ان پر جرم ثابت ہونے کی صورت سیاست سے ان کا کردار ہمیشہ ختم ہوتا دکھائی دیا تو دوست ان کی مدد کو آگئے اور اپنا شاہی مہمان بناکر لے گئے کیونکہ وہ وفاداری کے قدر شناس ہی نہیں بلکہ کارآمد پتوں کو بچاکر رکھنے اور مناسب وقت پر کھیلنے کے ماہر بھی ہیں اور جب پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستان کو مستحکم اور عوام کو خوشحال بنانے کے بعد اس خوشحالی کو مزید وسعت دینے کیلئے گوادر پر توجہ دی تو گوادر منصوبے کی سزا میں بھٹو کو لٹکانے والے مشرف کے خلاف کمربستہ ہوگئے اور طویل عرصہ آمر کی حیثیت سے کامیابی سے حکمرانی کرنے والے پرویز مشرف کو ایسے وقت میں عوام کی حمایت سے محروم ہونا پڑا جب وہ وردی بھی اتارکر جمہوری صدر بن چکے تھے اور انتخابات کے ذریعے جمہوریت بھی بحال کرچکے تھے یہ وقت تو ان کی عوامی مقبولیت و حمایت میں اضافے کا وقت تھا مگر گوادر کی تعمیرو ترقی کی حماقت انہیں بھاری پڑگئی اور وہ بھی بھٹو کی طرح پٹرول کی نعمت سے دنیا کو بلیک میل کرنے اور اپنی دولت سے غریب اسلامی ممالک کو اپنی منشاءپر چلنے پر مجبور کرنے والے دوستوں کی سازش کا شکار ہوئے اور عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا گناہ انہیں اس قدر مہنگا پڑا کہ انہیں اقتدار ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی چھوڑنا پڑا اور پانچ سال سے وہ دیارِ غیر میں رہنے پر مجبور مشرف خواہش کے باوجود وطن واپسی سے قاصر ہیںکیونکہ حالات ان کے سازگار نہیں اور لگتا ایسا ہے کہ شاید سازگار ہوںگے بھی نہیں اور وہ وطن واپس نہیں آپائیں گے کیونکہ گوادر پورٹ بنانے کے منصوبے کی کاغذی تیاریوں کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف شروع ہونے والی سازشوں کے تحت پاکستان میں فروغ دیئے جانے والی مسلکی منافرت سے جب سوفیصد نتائج نکلتے دکھائی نہیں دیئے تو لسانی و صوبائی تعصب پھیلایا گیا اور جب تعصب سے بھی کام نہیں بنا تو عسکریت پسندی کو فروغ دیا گیا اور اب گوادر پورٹ کو چائنا کے حوالے کئے جانے کا عمل پاکستان کو مزید مہنگا پڑتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ کوئٹہ میں بم دھماکوں اور ہزارہ برادری کے احتجاج و آہ و زاری کی منظم صورت کے نتیجے میں ملک بھر میں پھیلنے والا اشتعال ‘ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی اور اس کاروائی کے نتیجے میں بگڑتے ہوئے حالات کے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ بہت آگے تک جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان و ایران کے درمیان ایسی فصیل پیدا کردی جائے جو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی التوا یا خاتمے کا سبب بنے یا پھر گوادر کو تخریب کا ری کا نشانہ اور شاہراہ قراقرم سے چین میں تخریب کاروں کی آمد ورفت اور چینی مفادات کو پہنچنے والا نقصان پاک چائنا تعلقات کی کشیدگی پر منتج ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ساری صورتحال میں آئندہ چند ماہ امن وامان کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ ایک جانب گوادر کے مخالفین پاکستان کو نشانہ بنانے کیلئے اپنے آلہ کاروں کو استعمال کریں گے تو دوسری جانب انتخابی اصلاحات کی مخالف سیاسی قوتیں حالات خراب کرنے کی کوشش کریں گی اور تیسری جانب جمہوریت مخالف اپنا وار تو کریں گے ہی مگر بھارت ‘ افغانستان اور امریکہ بھی اپنی کارگزاری سے باز نہیں آئیں گے یہ صورتحال انتخابات کے انعقاد کیلئے موزوں دکھائی نہیں دیتی اور لگتا ایسا ہے کہ نگراں حکومت تشکیل پائے گی انتخابات کیلئے کی تاریخ دے گی تیاریاں ہوں گی جلسہ و جلوس ہوں گے مگر ساتھ ہی بم دھماکوں ‘ خود کش حملوں اور معصوم عوام کے ساتھ قتل کئے جانے والے سیاستدانوں کا نوحہ انتخابات کیلئے امن و امان کی صورتحال سازگار نہ ہونے کا جواز فراہم کرکے نگراں حکومت کی مدت میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے سب سے پہلے تو سیاستدانوں کو الیکشن کمیشن کی انتخابی اصلاحات کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کے یقینی انعقاد کیلئے مکمل تعاون کرنا چاہئے ‘ دوئم معراج محمد خان جیسے کہنہ مشق مگر غیر جانبدار و غیر متنازعہ سیاستدانوں پر مشتمل نگراں حکومت بنوانی چاہئے تاکہ خدشات و خطرات کے پیش نظر اگر انتخابات بروقت منعقد نہ ہوپائے اور نگراں حکومت طول پکڑ گئی تو ملک و قوم کا نقصان نہ ہو بلکہ نگراں حکومت جمہوری تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات کو بھی یقینی بنائے اور عوام کو ریلیف کی فراہمی کیلئے پالیسیاں تشکیل دینے کی اہلیت کے ساتھ حالات سازگار ہوتے ہی انتخابات کرانے کیلئے بھی دیانتدار ہو کیونکہ پاکستان کو انتخابی عمل و جمہوریت سے دور رکھ کر فوج ‘ سیاستدانوں اور قوم کے درمیان خلیج حائل کرنے کی سازش کرنے والے اپنی سازش کی کامیابی کیلئے عام عوام کو ہی نہیں بلکہ سیاسی ‘ سماجی ‘ عدالتی ‘ قانونی ‘ عسکری اور مذہبی شخصیات کو بھی نشانہ بناسکتی ہیں اسلئے چیف الیکشن کمشنر و چیف جسٹس سمیت تمام شخصیات کی سیکورٹی کو بھی فول پروف بنانے کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے انتخابات کراکر ملکی سلامتی اور قوم کی زندگیوں کو خطرات میں ڈالنے کی بجائے تین سال کیلئے ایسی ”قومی حکومت “ کی تشکیل کا فارمولہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت مناسب دکھائی دیتا ہے جو پاکستان کے تمام عوامی و سیاسی حلقوں کیلئے قابل قبول ہو اور اپنے دورِ اقتدار میں دہشت گردی و اس کے اسباب پر قابو پاکر امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ معاشی و انتخابی اصلاحات پر بھی کام کرے اور عوام کو ریلیف کی فراہمی کے ساتھ آئین و قوانین کی پاسداری کو یقینی بنائے کیونکہ دہشت گردی اور بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے پاکستان کو محفوظ بنانے کیلئے سخت ترین رویئے کی ضرورت ہے جبکہ سیاسی مفادات کی زنجیروں میں بندھی ‘ ہر ایک حلیف کی خوشنودی کیلئے قومی مفادات پر سودے بازی کرتی جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں اور لٹیروں پر مشتمل جمہوری حکومت کبھی بھی یہ کام نہیں کرسکتی ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147252 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More