گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
نمازِ غوثِیَّہ کا طریقہ
حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابوالحسن علی خبازرحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کو جب گمشُدہ
اونٹوں والا واقِعہ بتایا گیا تو اُنہوں نے فرمایاکہ مجھے حضرت شیخ
ابوالقاسم رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے بتایاکہ میں نے سیِّدُنا شیخ محیُ الدّین
عبدُالقادر جیلانیقُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیکو فرماتے سنا ہے :’’جس نے کسی
مصیبت میں مجھ سے فریا د کی وہ مصیبت جاتی رہی، جس نے کسی سختی میں میرا
نام پکارا وہ سختی دور ہوگئی ، جو میرے وسیلے سے اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ
میں اپنی حاجت پیش کرے وہ حاجت پوری ہوگی ۔ جو شخص دو رَکعت نفل پڑھے اور
ہر رکعت میں اَلْحَمْد شر یف کے بعد قل ھو اﷲ شریف گیارہ گیارہ بار پڑھے ،
سلام پھیرنے کے بعد سرکارمدینہ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر
دُرود وسلام بھیجے پھر بغدادشریف کی طرف گیارہ قدم چل کر میرا نام پکارے
اوراپنی حاجت بیان کرے ان شآء اﷲ عَزَّوَجَلَّ وہ حاجت پوری ہوگی ۔
(بہجۃ الاسرارومعدن الانوار،ص۱۹۴۔۱۹۷، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
آپ جیسا پیر ہوتے کیا غَرَض دَر دَرپھروں
آپ سے سب کچھ ملا یا غوثِ اعظم دسْتْ گیر
اللّٰہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگنا
محترم قارئین کرام!ہوسکتاہے کسی کے ذِہن میں یہ خیال آئے کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ
کے سوا کسی سے مدد مانگنی ہی نہیں چاہیے کیونکہ جب اﷲعَزَّوَجَلَّ مدد کرنے
پر قادر ہے تو پھر کسی اورسے مدد مانگیں ہی کیوں ؟ جواباً عرض ہے کہ یہ
شیطان کا خطرناک ترین وار ہے اوراس طرح وہ نہ جانے کتنے لوگوں کو گمراہ
کردیتاہے ۔ جب اﷲعَزَّوَجَلَّ نے کسی غیر سے مد د مانگنے سے منع نہیں
فرمایا تو پھر کسی کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہہ دے کہ اﷲ
عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے مدد مت مانگو ۔ دیکھئے قرآن پاک میں جگہ بہ جگہ
اﷲعَزَّوَجَلَّ نے دوسروں سے مدد مانگنے کی اجازت مَرحمت فرمائی ہے بلکہ ہر
ہر طرح سے قادرِمُطْلَق ہونے کے باوُجُو د بذا تِ خود اپنے بندوں سے مدد
طلب فرمائی ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتاہے :
اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ۔
(پ۲۶،محمد:۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اگر تم دینِ خدا (عزوجل) کی مد د کروگے اﷲ (عزوجل)
تمہاری مدد کرے گا ۔
حضرتِ عیسٰی نے دوسروں سے مدد مانگی
حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اﷲعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلامنے اپنے حواریوں سے مدد طلب فرمائی،چُنانچِہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی
اللّٰہِط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ
(پ۲۸،الصّف:۱۴)
kترجمۂ کنزالایمان: عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم(رضی اﷲ عنہا)نے حواریوں سے
کہا تھا ، کون ہیں جو اﷲ (عزوجل) کی طرف ہوکر میری مدد کریں ؟حواری بولے ہم
دینِ خدا(عزوجل)کے مدد گار ہیں ۔
حضرتِ موسٰی نے بندوں کا سہارا مانگا
حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ روحُ اﷲعَلی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلام کو جب تبلیغ کے لیے فرعون کے پا س جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے
بندے کی مدد حاصل کرنے کے لیے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:
وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَھْلِیْ 0 ھٰرُوْنَ اَخِی 0 اشْدُدْ بہٖٓ
اَزْرِیْ 0
(پ۱۶،طٰہٰ:۲۹،۳۱)
„رجمۂ کنزالایمان : اورمیرے لئے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ وہ
کون ،میرا بھائی ہارون (علیہ السلام)،اس سے میر ی کمر مضبوط کر ۔
نیک بندے بھی مددگا ر ہیں
ایک اورمقام پر ارشاد باریعَزَّوَجَلَّ ہے :
فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰـہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ج
وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ0
(پ۲۸،التحریم:۴)
ترجمۂ کنزالایمان : تو بے شک اﷲ (عزوجل) ان کا مدد گار ہے اور جبریل (علیہ
السلام)اورنیک ایمان والے اوراس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔
انصار کے معنٰی مددگا ر
محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے! قرآنِ پاک بالکل صاف صاف لفظوں میں بہ
بانگِ دُہُل یہ اعلان کر رہا ہے کہ اﷲعَزَّوَجَلَّ تو مددگار ہے ہی مگر
باِذْنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ ساتھ ہی ساتھ جبریل امین علیہ الصَّلٰوۃ
والسَّلام اور اﷲ عَزَّوَجل کے مقبول بندے( اَنبِیائے کرام علیہم الصلٰوۃ
السلام اوراولیائے عظام رحمہم اﷲ تعالیٰ) اورفرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اب تو
ان شآء اﷲ عَزَّوَجَلَّ یہ وسوسہ جڑ سے کٹ جائے گا کہ اﷲعَزَّوَجَلَّ کے
سواکوئی مدد کر ہی نہیں سکتا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو مسلمان مَکّۂ
مکرَّمہسے ہجرت کر کے مدینۂ منوَّرہ پہنچے وہ مہاجر کہلائے اوران کے مددگار
انصار کہلائے اوریہ ہر سمجھ دار جانتاہے کہ’’ انصار‘‘ کے لُغوی معنی
’’مددگار‘‘ ہیں ۔
اللّٰہ کرے دل میں اُتر جائے مِری بات
اھل اللّٰہ زندہ ہیں
اب شاید شیطان دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ زندوں سے مدد مانگنا تو دُرُست ہے
مگر بعدِ وفات مد د نہیں مانگنی چاہیے ۔ آیتِ ذَیل اوراس کے بعد والے مضمون
پر غور فرمالیں گے تو ان شآء اﷲعَزَّوَجَلَّ اس وسوسے کی جڑ بھی کٹ جائے گی
چُنانچِہ ارشاد ہوتاہے :
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط
بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ0
(پ۲،البقرۃ:۱۵۴)
ترجمۂ کنزالایمان:اورجوخدا (عزوجل) کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرد ہ نہ
کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
انبیاء حیات ہیں
جب شہداء کی زندگی کا یہ حال ہے تو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام جو شہیدوں
سے مرتبہ وشان میں باِلْاِتِّفاق اعلیٰ اور برترہیں ان کے حیات ہونے میں
کیوں کرشُبہ کیا جاسکتاہے ۔ حضرت سیِّدُناامام بیہقی علیہ رحمۃ اﷲ القوی نے
حیاتِ انبیا ء کے بارے میں ایک رسالہ اور ’’ دلائلُ النَّبوۃ ‘‘میں لکھا ہے
کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃو السلام شہداء کی طرح اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے
پاس زندہ ہیں ۔(الحاوی للفتاوٰی للسیوطی،ج۲،ص۲۶۳،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اولیاء حیات ہیں
بہرحال انبیاء کِرام علیہم الصلوٰۃ السلام اوراولیائے عِظام رحمہم اﷲ
تعالیٰ حیات ہوتے ہیں اورہم مُردوں سے نہیں بلکہ زندوں سے مدد مانگتے ہیں
اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے انہیں حاجت روا اورمشکِلکُشامانتے ہیں ۔ ہاں
اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی
عطا کے بِغیر کوئی نبی یا ولی ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتا نہ ہی کسی کی مدد
کرسکتاہے ۔
امامِ اعظم نے سرکار سے مدد مانگی
حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے’’ قصیدۂ نعمان
‘‘میں عرض کرتے ہیں:
یَا اَکْرَمَ الثَّقَلَیْنِ یَا کَنْزَ الْوَرٰی
جُدْلِیْ بِجُوْدِکَ وَاَرْضِنِیْ بِرِضَاکَ
اَنَاطَامِعٌ بِالْجُوْدِ مِنْکَ لَمْ یَکُنْ
لِاَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْاَنَامِ سِوَاکَ
یعنی اے جنّ وانس سے بہتر اورنعمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کے خزانے !اﷲ
عَزَّوَجَلَّ نے جو آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے مجھے بھی عطا فرمائیے
اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو جو راضی کیا ہے آپ مجھے بھی راضی فرمائیے۔میں
آپ کی سخاوت کا اُمیدوار ہوں ۔ آپ کے سوا ابوحنیفہ کا مخلوق میں کوئی نہیں
۔
امام بوصیری نے مدد مانگی
حضرتِ سیِّدُنا امام شَرَفُ الدین بُوصیری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ سرکارِ
مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اپنے شہرۂ آفاق ’’قصیدۂ بردہ‘‘
میں مددکی درخواست کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں
یَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ مَا لِیْ مَنْ اَلُوذُ بِہٖ
سِوَاکَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمٖ
اے تمام مخلوق سے بہتر ،میرا آپکے سواکوئی نہیں
جس کی میں پناہ لوں مصیبت کے وقت
(قصیدہ بردہ ، ص۳۶، ضیاء القرآن ،لاہور)
امدادُ اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ’’ نالۂ امداد‘‘ میں عرض گزار ہیں
لگا تکیہ گناہوں کا پڑا دن رات سوتا ہوں
مجھے اب خواب غفلت سے جگادو یا رسول اﷲ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
شاہ ولی اللّٰہ کا اِعتِقاد
حضرتِ شاہ ولیُّ اﷲ محدّثِ دِہلوی علیہ رحمۃ اﷲ القوی ’’ہمعات‘‘ کے ہَمعہ
میں گیارہویں والے غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی شانِ عظمت نشان بیان
کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں :۔
حضرت محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اند ولہذا گفتہ
اندکہ ایشاں در قبرِ خود مثل اَحیاء تَصَرُّف می کُنَند۔
ترجمہ: وہ شیخ محی الدّین عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیہیں
لہٰذا کہتے ہیں کہ آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی قبر شریف میں زندوں کی طرح
تصرّف کرتے ہیں(یعنی زندوں ہی کی طرح باختیار ہیں )
( ہمعات، ص ۶۱، اکادیمیۃ الشاہ ولی اﷲ الدھلوی ،بابُ الاسلام حیدر آباد)
(۷)لوٹا قِبلہ رُخ ہوگیا
ایک بار جِیلان شریف کے مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ تَعالٰی کا ایک
وَفْد حُضور سیِّدُنا غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کی خدمتِ سراپا عظمت
میں حاضِرہوا ، اُنہوں نے آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے لوٹے شریف کو غیر قبلہ
رُخ پایا(تواسکی طرف آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی توجُّہ دلائی اس پر ) آپ
رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنے خادِم کو جلا ل بھری نظر سے دیکھا ۔ وہ آپ
رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے جلال کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک دم گرا اورتڑپ تڑپ کر
جان دے دی۔ اب ایک نظر لوٹے پر ڈالی تو وہ خود بخود قبلہ رخ ہوگیا۔ (ایضاً
،ص۱۰۱)
خدارا! مرہَمِ خاکِ قدم دے
جگر زخمی ہے دل گھائل ہے یا غوث
لوٹا قِبلہ رُخ رکھا کیجئے
سرکارِبغدادحُضورِ غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے دیوانو!یقینامحبَّت کا
اعلیٰ دَرَجہ یہی ہے کہ اپنے محبوب کی ہر ہر ادا کو خوش دِلی کے ساتھ اپنا
لیا جائے ۔ لہٰذا ہوسکے تو لوٹے کی ٹوُنٹی ہمیشہ قبلہ رُخ رکھاکیجئے ۔حُضور
محدث اعظم پاکستان حضر ت مولانا سرداراحمد صاحِب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ لوٹے
کے علاوہ اپنی نَعلین مُبارکین بھی قبلہ رُخ ہی رکھا کرتے ۔ الحمدﷲ سگِ
مدینہ عفی عنہ ان دونوں اولیائے کرام رحمۃ اﷲ علیہما کی اِتِّباع میں حتَّی
الامکان اپنے لوٹے اورجُوتیوں کا رُخ قبلہ ہی کی طرف رکھتاہے ۔ بلکہ خواہش
یہی ہوتی ہے کہ ہر چیز کا رُخ جانبِ قبلہ رہے ۔
قِبلہ رُو بیٹھنے والے کی حکایت
محترم قارئین کرام!دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا چِہرہ بھی مُمکِنہ
صُورت میں قِبلہ رُخ رکھنے کی عادَت بنانی چاہئے کہ اِس کی بَرَکتیں بے
شُمار ہیں چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہانُ الدّین ابراہیم زَرنوجی
رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،دو طَلَبہ علمِ دین حاصِل کرنے کیلئے
پردیس گئے،دو سال تک دونوں ہم سبق رہے ،جب وطن لوٹے تو ان میں ایک فَقِیہ
(یعنی زبردست عالم ومُفتی ) بن چکے تھے جبکہ دوسرا عِلم و کمال سے خالی ہی
رہا تھا ۔اُس شہر کے عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعالٰی نے اِس
اَمْر پر خوب غَور و خَوض کیا،دونوں کے حُصولِ علمِ کے طریقۂ کار ،اندازِ
تکرار اور بیٹھنے کے اطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی تو ایک بات نُمایاں
طور پر سامنے آئی کہ جو فَقِیہ بن کرپلٹے تھے اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ
سبق یاد کرتے وَقْت قِبلہ رُو بیٹھا کرتے تھے جبکہ دوسرا جو کہ کَورے
کاکَورا پلٹا تھا وہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھنے کا عادی تھا ۔چُنانچِہ
تمام عُلَماء و فُقَہاء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعالٰی اِس بات پر مُتَّفق
ہوئے کہ یہ خوش نصیب اِستِقبالِ قِبلہ (یعنی قبلہ کی طرف رُخ کرنے ) کے
اِہتِمام کی بَرَکت سے فَقِیہ بنے کیوں کہ بیٹھتے وقت کعبۃُ اللّٰہ شریفکی
سَمْت مُنہ رکھنا سنّت ہے ۔
(تعلیم المتعلّم طریق العلم ،ص ۶۸)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |