حضرت مولانا محمد یوسف
کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف آیات صحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ
فرماتے ہیں کہ سردی کے موسم میں صبح کے وقت میں اپنے گھر سے نکلا بھوک بھی
لگی ہوئی تھی بھوک کے مارے برا حال تھا سردی بھی تنگ کر رہی تھی ہمارے ہاں
بغیر رنگی ہوئی کھال پڑی ہوئی تھی جس میں سے کچھ بو بھی آ رہی تھی اسے میں
نے کاٹ کر اپنے گلے میں ڈال لیا اور اپنے سینے سے باندھ لیا تاکہ اس کے
ذریعہ سے کچھ تو گرمی حاصل، گھر میں میرے کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی
اور اگر حضور ﷺ کے گھر میں بھی کوئی چیز ہوتی تو وہ مجھے مل جاتی(وہاں بھی
کچھ نہیں تھا) میں مدینہ منور ہ کی ایک طرف کو چل پڑا وہاں ایک یہودی اپنے
باغ میں تھا میں نے دیوار کے سراخ سے اس کی طرف جانکا اس نے کہا کہ اے
اعرابی کیا بات ہے (مزدوری پر کام کروگے؟)ایک ڈول پانی نکالنے پر ایک کھجور
لینے کو تیار ہو ؟ میں نے کہا کہ ہاں باغ کا دروازہ کھولو اس نے دروازہ
کھول دیا۔ میں اندر گیا اور ڈول نکالنے لگا اور وہ مجھے ہر ڈول پر ایک
کھجور دیتا رہا یہاں تک کل میری مٹھی کھجوروں سے بھر گئی اور میں نے کہا اب
مجھے اتنی کھجوریں کافی ہیں۔ پھر میں نے وہ کھجوریں کھائیں اور بہتے پانی
سے منہ لگا کر پیا پھر میں حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور مسجد میں آپ کے پاس
بیٹھ گیا حضور ﷺ اپنے صحابہ ؓ کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے اتنے میں
حضرت مصعب بن عمیرؓ اپنی پیوند والی چادر اوڑھے ہوئے آئے جب حضور ﷺ نے ان
کو دیکھا تو ان کا ناز و نعمت والا زمانہ یاد آ گیا اور اب ان کی موجودہ
فقر و فاقہ والی حالت میں نظر آ رہی تھی اس پر حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو
بہہ پڑے اور آپ رونے لگے پھر آپ نے فرمایا (آج تو فقروفاقہ اور تنگی کا
زمانہ ہے لیکن ) تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب تم میں ہر آدمی صبح ایک
جوڑا پہنے گا اور شام کو دوسرا اور تمہارے گھروں پر ایسے پردے لٹکائے جائیں
گئے جیسے کعبہ پر لٹکائے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا پھر تو ہم اس زمانے میں زیادہ
بہتر ہوں گے ضرورت کے کاموں میں دوسرے لگا کریں گے ہمیں لگنا نہیں پڑے گا
اور ہم عبادت کے لیے فارغ ہو جائیں گئے حضور ﷺ نے فرمایا نہیں آج تم اس دن
سے زیادہ بہتر ہو(کہ دین کا کام تم تکلیفوں اور مشقت کے ساتھ کر رہے ہو۔
قارئین آج کے موضوع دو حصے ہیں ایک حصہ تو ظاہری طور پر انتہائی سیدھا سادہ
ہے لیکن در حقیقت سیاست کے بے رحم کھیل اور سیاسی کھلاڑیوں کی چالوں کا
عکاس ہے اور انتہائی پیچیدگی کا حامل ہے جبکہ دوسرا حصہ اہل قلم اور اہل
سیاست جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ان کے بگڑتے ہوئے تعلقات
اور آئندہ حالات کے حوالے سے پیچیدہ صورتحال پر ایک تبصر ہ ہے۔ آج سے ایک
ہفتہ قبل ہم نے اپنے ایک کالم ”بیل آوٹ پیکج اور نیا وزیراعظم“میں ایسے وقت
میں قائدایوان کی تبدیلی کی پیش گوئی کی تھی جب کسی کے وہم و گمان میں نہ
تھا کہ آزاد کشمیر میں میگا پروجیکٹس کی بھرمار کرنے والے تعلیمی انقلاب کے
بانی وزیراعظم چودھری عبدالمجید کی کرسی اقتدار لڑکھڑا سکتی ہے اور سابق
وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری جو گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کے دوران
دیوار کے ساتھ لگا دیئے گئے تھے وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کے مضبوط ترین
امیدوار کے طور پر سامنے آ جائیں گئے لیکن ایسا ہی ہوا اور آنے والے
72گھنٹے ان دونوں شخصیات کے مستقبل کا فیصلہ کر دیں گے۔
قارئین سیاست بہت بے رحم کھیل ہے جس کسی کے سر پر ھما کا پرندہ بیٹھتا ہے
اور اسے اقتدار نصیب ہوتا ہے تو تاریخ کے صفحات کھول کر دیکھیں تو پتا چلتا
ہے کہ منصب پر بیٹھنے والے ہر شخص کے قریب خوشامدیوں اور چاپلوسوں کا ایک
لشکرا کٹھاہو جاتا ہے اور یہ لوگ قصیدے پڑھ پڑھ کر صاحب اقتدار کو یقین
دلاتے ہیں کہ جب سے حضور عزت مآب آپ جناب اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں سورج
نے پہلے کی نسبت زیادہ چمکنا شروع کر دیا ہے۔ بارشیں بہتر ہونا شروع ہو گئی
ہیں ہواﺅں میں خوشگوار لہریں بہنا شروع ہو گئی ہیں اور دنیا جہان کے روایوں
نے چین کی بانسریاں بجانا شروع کر دی ہیں ۔ جھوٹی تعریفوں کے ایسے پل
باندھے جاتے ہیں جو اچھے خاصے باشعور انسان کی ”مت “مار کے رکھ دیتے ہیں
اور ایسا انسان فیصلے کرتے وقت ایسی ایسی غلطیاں کرتا ہے کہ جو اس کے لیے
گڑھا کھود کر اس کی تدفین کا بندوبست کر دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید کے ساتھ ہوا۔ چوہدری عبدالمجید نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے
کے بعد بلا مباغلہ کئی کارنامے سرانجام دیئے، میڈیکل کالج کا ایشو آزاد
کشمیر کے تینوں ڈویژنز کے درمیان نفرتوں کی خلیچ کو بڑھا رہا تھا چوہدری
عبدالمجید نے تینوں ڈویژنز میں میڈیکل کالجز قائم کر کے ”اختلافات کا
ٹنٹا“ہی ختم کر دیا ۔ آزاد کشمیر کے طول وعرض میں یونیورسٹیز اور میگا
پروجیکٹس کا انبار لگا کر بلا مبالغہ چوہدری عبدالمجید نے آزاد کشمیر کے
روشن مستقبل کی بنیاد رکھی ، انٹر نیشنل ایئر پورٹ اہل میرپور کا دیرینہ
مطالبہ تھا اس مطالبے کوبھی پورا کرتے ہوئے میرپور میں انٹر نیشنل ایئر
پورٹ کا اعلان سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے چوہدری
عبدالمجید کی درخواست پر کر دیا اور اس ایئر پورٹ پر کام شروع ہو چکا ہے یہ
تمام کام بلا شک و شبہ چوہدری عبدالمجید کی کوششوں اور مخلصانہ مصاعی کی
وجہ سے ہوئے۔ یہ سب باتیں ان کے کریڈٹ میں جاتی ہیں سوچنے کی بات ہے کہ آخر
ان سے ایسی کیا غلطی ہوئی ہے کہ جس کی سزا ان کی وزارت عظمیٰ پر سوالیہ
نشان بن کر کھڑی ہو گئی ہے تو جناب جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ
اقتدار اتنی بے رحم چیز ہے کہ جس کو بھی یہ نصیب ہوتا ہے اس کے اردگرد
جھوٹے،مکار اور چاپلوس مشیر اکھٹے ہوکر اس کا ستیاناس کرتے ہیں۔ چوہدری
عبدالمجید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کے اردگرد حواریوں کا ایسا ٹولہ
اکٹھا ہوا کہ جس نے انتہائی ذہین اور معاملہ فہم وزیراعظم کو حالات کے
تجزیے سے محروم کر دیا ان حواریوں میں سے کئی خود ساختہ طور پر وزیراعظم کے
فرنٹ مین بن گے۔ میرپور میں مبینہ طور پر ادارہ ترقیات میرپور کے ذریعے
کروڑوں اربوں روپے کی اراضی خریدنے اور بیچنے کے معاملات میں ان یار لوگوں
نے اندھے پیسے کمائے اور نام کس کا استعمال ہوا چوہدری عبدالمجید وزیراعظم
آزاد کشمیر کا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اس تمام گیم میں انتہائی کامیابی
کے ساتھ اپنے پتے کھیلتے رہے اور انہوں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری تک
اپنی بات پہنچانے کے لیے وزیرامور کشمیر میاں منظور وٹو کا ٹریک استعمال
کیا اور جناح ماڈل سکینڈل ، ایم ڈی اے اراضی سکینڈل، میرپور یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سکینڈل اور دیگر مالیاتی کرپشن کے معاملات اس انداز
میں وفاقی شخصیات کے سامنے اجاگر کیے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے فرار
کے لیے ایک راستہ بھی نہ بچا۔ محترمہ فریال تالپور جو صدر پاکستان آصف علی
زرداری کی ہمشیرہ ہیں اور آزاد کشمیر کے سیاسی معاملات کی سربراہ بھی ہیں
وہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی سب سے بڑی حامی تھیں اور ابھی تک حامی ہیں
انہوں نے چند ہفتے قبل انہی مالیاتی سیکنڈلز اور آزاد کشمیر حکومت کے
وزراءکے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید پر عدم اعتماد کے معاملات کی تحقیقات کے
لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلوایا تھا اور اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ اس
اجلاس میں بھی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے تمام الزامات آڈیو، ویڈیو
اور تحریری ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اسی میٹنگ
میں یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان میں عبوری سیٹ اپ قائم ہونے سے
پہلے قائد ایوان یا پیپلز پارٹی کے صدر کی تبدیلی یا دونوں تبدیلیاں عمل
میں لائی جائیں گی۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے متعلق ایک اور بڑی دلچسپ
بات زبان زدِ عام ہے ۔ سیاسی حلقے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اگر پاکستان
پیپلز پارٹی کے ذمہ داران نے یہ دونوں فیصلے نہ کیے اور آزاد کشمیر میں
قائد ایوان اور پیپلز پارٹی کی صدارت کی تبدیلی کا عمل نہ ہوا تو مسلم لیگ
ن ، مسلم کانفرنس اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا حامی پیپلز پارٹی کے
اراکین قانون ساز اسمبلی کا ایک طاقتور دھڑا مل کر موجودہ حکومت کا دھڑن
تختہ کر دے گا اور تبدیلی اس صورت میں بھی آ سکتی ہے۔
قارئین ہم نے اپنے استاد اور آزاد کشمیر کے غیر جانبدار ترین سینئر صحافی
راجہ حبیب اللہ خان کے ساتھ مل کر گزشتہ چھ ماہ کے دوران ریڈیو آزاد کشمیر
FM93کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “میں درجنوں
سیاستدانوں کے انٹرویوز میں ہلکے پھلکے انداز میں یہ جاننے کی کوشش جاری
رکھی کہ اندرون خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے اس حوالے سے خضر راہ استاد مکرم
راجہ حبیب اللہ خان نے یہ تبصرہ پہلے ہی کر دیا تھا کہ پاکستان کے انتخابات
سے پہلے آزاد کشمیر میں سیاسی تبدیلی اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان
کے انتخابات میں پارٹی کو بھاری فنڈنگ کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے انہوں
نے ”پاﺅنڈ پالیٹکس“ کی ایک انتہائی زبردست ٹرم بھی ایجاد کی جس کا مطلب یہ
تھا کہ ایک مرتبہ پھر آزاد کشمیر میں وزارت عظمیٰ کی بولی لگنے والی ہے اور
جو پارٹی زیادہ بھاری بولی لگائے گی وہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پائے گی۔ اگر
یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو بلاشبہ یہ ریاست اور سیاست کی بہت بڑی توہین
ہو گی۔
قارئین یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون سی تبدیلی آنے والی ہے اور اس تبدیلی
کے نتائج کیا کیا نکلیں گے لیکن ہماری دعا ہے کہ آزادی کے بیس کیمپ میں وہ
حکومت برسراقتدار آئے جو سات لاکھ کشمیری شہداءکے خون کی درست وارث اور
امین ہو۔ (آمین)
قارئین یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمارے بے لوث ، بے لاگ اور ذاتی منفعت
سے بالا تر تمام سیاسی تجزیوں کے متعلق سننے میں آیا ہے کہ کافی سارے مقتدر،
معتبر اور انتہائی طاقتور طبقات کافی برہم ہیں اور انہوں نے اپنے مشیروں کو
ہمیں ”فکس“ کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔ اللہ ہماری بھی حفاظت فرمائے
آمین۔
اس حوالے سے ہم چچا غالب کے یہ اشعار ضرور آپ کی نذر کریں گے
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بھس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
رنج رہ کیوں کھینچے ؟ واماندگی سے عشق ہے
اُٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ شور قیامت کس کی آب و گل میں ہے
ہے دل شوریدہ غالب طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر ، کہ کس مشکل میں ہے
قارئین اب چلتے ہیں کہ کالم کے دوسرے حصے کی جانب ۔آزاد کشمیر میں ریاستی
اخبارات انتہائی کٹھن حالات میں کام کر رہے ہیں۔ ان ریاستی اخبارات میں بلا
مبالغہ سینکڑوں کارکن کام کرتے ہیں اور ان اخبارات کی وجہ سے ہزاروں
خاندانوں کا روز گار چلتا ہے۔ یہ اخبارات کافی عرصے سے غلط حکومتی پالیسیوں
کی وجہ سے شدید مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر سرکاری اشتہارات
کا زیادہ تر کوٹہ غیر ریاستی اخبارات کو ایشو کرتی ہے اور ریاستی اخبارات
کو جو تھوڑے بہت اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ ان کے بلات کافی عرصے سے واجب
الادا ہیں آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی کے ذمہ داران عامر محبوب، سردار
زاہد عباسی، چودھری امجد، جاوید ہاشمی، چوہدری خالد، الطاف وانی اور دیگر
نے حکومت کو وارننگ دی کہ ناانصافی پر مبنی رویہ ترک کیا جائے اور ریاستی
اخبارات کی میرٹ پر مدد کی جائے۔ ورنہ ریاستی اخبارات سول سوسائٹی کے ساتھ
مل کر حکومت کے خلاف شدید احتجاج کریں گے۔ شاید وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کو دوسری آہ ان ریاستی اخبارات میں کام کرنے والے غریب کارکنان کی لگی ہے۔
ہم مقتدر شخصیات سے اپیل کرتے ہیں کہ قلمی مجاہدوں کے حال پر رحم کیا جائے
اور ان ریاستی اخبارات کے تمام جائز مطالبات کو فی الفور تسلیم کیا جائے۔
اس سے پہلے کہ یہ درخواست ہم نئے قائد ایوان سے کریں ہمیں امید ہے کہ
موجودہ قائد ایوان ہی اس عاجزانہ درخواست کو قبول کریں گے ویسے بھی مشہور
کہ اگر مصیبت آئے تو اسے صدقہ دے کر اسے ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ امید ہے
کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید انصاف کی ہلنے والی زنجیر اور بجنے والی
گھنٹی پر توجہ دیں گے اور غریب قلمی مجاہدوں کی دعائیں لیں گے۔ شاید یہی
دعائیں کام آ جائیں اور ان کے اقتدار پر منڈلانے والے تبدیلی کے سائے دور
ہو جائیں۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جج نے انتہائی بلند آواز میں ملزم سے پوچھا ”ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم نے
برسوں سے اپنی بیوی کو ڈرا دھمکا کر غلام بنا کر رکھا ہوا تھا “
ملزم نے ڈرتے ڈرتے ہوئے ہکلاتے ہوئے کہا ”جی جی ، حضور بات کچھ یوں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔“
جج نے بات کاٹ کر کہا ”بس بس زیادہ صفائی دینے کی ضرورت نہیں صرف اتنا بتا
دو تم نے اتنا بڑا کارنامہ کیسے انجام دیا“۔
قارئین آنے والا وقت تو بتائے گا کہ اقتدار پر بیٹھے ہوئے جانے والے ہیں یا
گئے ہوئے لوگ آنے والے ہیں لیکن ہمیں صرف اتنی حیرانگی ہے کہ اتنی اچھی
کارکردگی کے باوجود خوشامدی چاپلوسوں نے کتنی مہارت کے ساتھ وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید کے اچھے کارناموں کو بھی داغ لگا دیا۔ اگر قسمت نے انہیں
ایک موقع دیا تو انہیں چاہیے کہ وہ ان لوگوں سے ضروراپنی جان چھڑائیں۔ |