کیا سیکورٹی ایجنسیوں کا کام صرف اطلاع ہی دینا ہے ؟

وزارت داخلہ کی جانب سے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ خفیہ ایجنسیوں نے 27 جنوری کو خطرے کی نشاندہی کردی تھی ۔اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پوچھا کہ کیا سیکورٹی ایجنسیوں کی ڈیوٹی صرف اطلاع دینا ہی ہے دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے ۔یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ابھرتا ہے -

اس میں شک نہیں کہ پانچ سالہ بدترین جمہوری دور میں دہشت گردی ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے ۔ کوئٹہ میںپے درپے سانحات رونما ہورہے ہیں اسکے علاوہ ملک کا وہ کونسا شہر یا قصبہ ہے جسے محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے کراچی شہر میں تو کوئی دن ایسانہیں جاتا جب آٹھ دس افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی نہیں ہارتے ۔ اب لاہور جیسے شہر میں بھی ڈاکٹر علی حیدر جیسے فرشتہ صفت انسان اور عظیم معالج کو دن کی روشنی میں جس بے رحمی سے شہید کردیا گیا مجھ سمیت ہر درد مند دل آنسو بہا رہا ہے ۔ اس لمحے نہ عوام کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی سیکورٹی ادارے اور ان کے اہلکار کہیں محفوظ دکھائی دیتے ہیں بحریہ ، فضائیہ اور جی ایچ کیو جیسے حساس ترین ادارے اور ائیرپورٹس بھی سیکورٹی کی ناکامی کی بدولت کھربوں روپے کا نہ صرف نقصان اٹھا چکے ہیں بلکہ درجنوں جوان شہید بھی ہوچکے ہیں ۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا تعلق چاہے فوج سے ہو یا پولیس سے کوئی ایک بھی اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہاجبکہ دہشتگردوں کو حساس ترین مقامات سمیت ہر نازک مقام کا بخوبی علم ہے دہشت گردی کیسے کرنی ہے اور وہاں کیسے پہنچنا ہے ہر چیز از بر ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں کیا ہمارے سیکورٹی اداروں میں دہشت گردوں کے مخبر بھی شامل ہیں یا یہ سب لوگ نااہل اور بزدل ثابت ہوچکے ہیں پولیس کی بات تو چھوڑ ہی دیں یہ تو صرف شریف شہریوں کو حیلے بہانوں سے تنگ کرنے اور ڈاکووں کی سرپرستی کرنے میں نہایت مستعدی دکھاتی ہے لیکن اگر کہیں کسی دہشت گرد سے سامنا ہوجائے تو سب سے پہلے اپنی جان بچا کر رفوچکر ہوجاتی ہے ۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ لشکر جھنگوی نے سانحہ کوئٹہ کا اعتراف کرلیا ہے اور دھماکہ خیز مواد پنجاب سے کوئٹہ لے جایا گیا ہے کےا ےہ بات واقعی درست تسلیم کی جاسکتی ہے ہرگز نہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک میں جتنی دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں ان میں صرف لشکر جھنگوی کو ذمہ دار قرار نہیں دیاجاسکتا ہے کیونکہ بلوچستان میں بلوچ لبرشن آرمی کے وجود سے انکار کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے جس نے اسلحے کے زور پر بلوچستان کے تمام شہروں میں وارداتیں کرکے خود کو تسلیم کروایا ہے پھران کو امریکی سفارت خانے اور افغانستان میں بھارتی سفارت کاروں کی مادی ، اسلحی اور مالی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔گوادر کی بین الاقوامی اہمیت کے پیش نظر امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا مفاد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے افسوس تو اس بات کاہے کہ وزیر داخلہ اور سیکورٹی ادارے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی خاد کا نام لینا بھی گناہ تصور کرتے ہیں اس کے برعکس افغانستان اور بھارت میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی واردات کا الزام بھی پاکستان پر لگادیا جاتاہے ۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانہ ایک چھاونی کا روپ دھار چکا ہے جس کے توسط سے پورے ملک میں سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں نے مقامی شہریوں کو خرید کر نہایت کامیابی سے نٹ ورک بھی بنا لیا ہے اس لیے اب پاکستان میں براہ راست کسی امریکی کو بم دھماکہ یا دہشت گردی کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس کے پاکستانی ایجنٹ ہی یہ کام کامیابی سے کرتے ہیں ۔پنجاب کی تقسیم کا معاملہ ہو یا کراچی میں قتل و غارت کا ۔ بلوچستان میں بم دھماکوں کی بات ہو یا کے پی میں فوجی قافلوں اور چیک پوسٹوں پر حملوں کی بات ہر جگہ امریکہ ، بھارت اور افغان ایجنسیوں ہی ملوث دکھائی دیتی ہیں جبکہ کارکردگی کے اعتبار سے پاکستانی ایجنسیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں ۔ حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ مرنے والے سو ہوں یا دو سو وہ تو اپنی سیاسی چالبازیوں میں مصروف ہیں وزیر داخلہ رحمان ملک فرماتے ہیں کہ دہشت گردوں کا گڑھ پنجاب ہے اگر حکومت پنجاب نے ایکشن نہ لیا تو پھر وفاق ایکشن لے گا ان سے کوئی یہ پوچھے کہ وفاق نے باقی ماندہ چاروں صوبوں میں تو مثالی امن کرلیا ہے جو پنجاب پر یلغار کا اعلان کیا جارہا ہے یہ درست ہے پنجاب میں بھی چوری ڈاکے اور اغوا کی وارداتوں نے جینا حرام کررکھاہے لیکن یہ پھر دیگر صوبوں سے بہتر ہے ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس ملک کے حکمران اور پولیس افسران خود قلعہ بند ہوکر بڑی بڑی فصیلوں اور حفاظتی حصار میں قیدہوجائیں وہاں کی عوام کاواقعی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ انگریز دور میں لاہور جیسے شہر میں سیکورٹی کا انچارج صرف ایک تھانیدار ہوا کرتا تھاکہاجاتاہے کہ اس دور میں زیوارات سے لدی ہوئی عورت رات کے کسی بھی پہر ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جا سکتی تھی لیکن آج پولیس افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے اور ہر پولیس افسرکی حفاظت کے لیے درجنوں جوان مورچہ بند ہیں ۔یہی عالم سرکاری افسروں ، وزیروں اور عوامی نمائندوں کا ہے جب ہزاروں کی تعداد میں سیکورٹی اہلکار صرف افسران اور حکمرانوں کی حفاظت پر ہی مامور ہوں گے تو دہشت گردوں کو کون پکڑے گا یہی وجہ ہے کہ ایک شہر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے شہر میں دہشت گرد جدید ترین اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سمیت آسانی سے آجارہے ہیں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیکورٹی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ناکام ریاست کی دہلیز پر آکھڑا ہوا ہے لوگ پکار پکار فوج کو بلا رہے ہیں لیکن ان حالات میںجبکہ فوج قبائلی علاقوں ،مغربی اور مشرقی سرحدوں میں دفاع وطن کے تقاضوں میں الجھی ہوئی ہے اس لیے اندرون ملک فوج کو بلانا اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکورٹی ایجنیسیوں کی کارکردگی کو نہ صرف بہتر بنایاجائے بلکہ حکمرانوں سرکاری اور پولیس افسروں سے سیکورٹی واپس لے کر ان جوانوں کو دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا جائے اور تھانہ وار ایسا تحقیقی نظام قائم کیاجائے کہ کسی بھی تھانہ کے علاقے میں کوئی ایک فرد بھی شناخت کے بغیر داخل نہ ہوسکے جبکہ تمام شہروں میں داخلے اور باہر نکلنے کے راستوں پر ڈنگ ٹپاﺅ اقدامات چھوڑ کر ایسے جمپر لگائے جائیں تاکہ اسلحہ اور گولہ بارود کی نقل و حرکت روکی جا سکے۔میں پھر کہوں گا کہ سیکورٹی اداروں کا کام صرف اطلاع دینا ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کو ان کی پناہ گاہوں میں ہی ختم کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی وار داتوں میں غیرملکی ہاتھ اور ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کرنا اشد ضروری ہے چاہے امریکہ ناراض ہو یا بھارت یا افغانستان ۔ پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجانا چاہیئے۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126880 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.