پاک فوج کی جانب سے آخر کار"
انتخابی پالیسی "سامنے آگئی کہ مسلح افواج انتخابات کا التوا نہیں چاہتی ،
فوج کے ترجمان کیجانب سے حالیہ رویہ ، جمہوری قوتوں کےلئے ایک حوصلہ افزا
بیان کی صورت میں آیاہے ، جس کے بعد ملکی سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے
سے اپنے لائحہ عمل پر مرتکیز ہوچکی ہیں اور نئے سیاسی اتحاد سمیت ، پارٹی
منشور کے بجائے شخصی بنیادوں پر مختلف سیاسی جماعتوں میں با اثر افراد کی
شمولیت تیزی سے جاری ہے تو سندھ میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ سیاسی تبدیلیاں
رونما ہورہی ہیں،ایم کیو ایم حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے
اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی نے اچانک سندھ پیپلز لوکل
گورنمنٹ آرڈیننس بل واپس لے لیا۔گورنر سندھ ڈاکٹر عشر العباد کے لندن جاتے
ہی قائم مقام گورنر نثار کھوڑونے بل کی توثیق کردی ۔بلدیاتی نظام کے حوالے
سے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی کور کمیٹیوں کا اجلاس مسلسل کئی
سالوں سے اپنے سرد و گرم مزاج کےساتھ ہوتا رہا لیکن ساڑھے سال کی مشاورت ،گیارہ
منٹ میں دھواںہوگئی ۔ ایم کیو ایم اپنے تحفظات کے حوالے سے پیپلز پارٹی
کےساتھ مسلسل رابطے میں رہی اور جو ان کی پارٹی کا موقف تھا انھوں نے اپنے
منشور کے مطابق کیا ۔پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی بار بار حکومت سے
علیحدگی اورانھیں اپنے ساتھ اتحادی قائم رکھنے کےلئے جو جتن اگرکئے وہ
انھوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق کئے ، یہ تو رہا پی پی پی اور ایم کیو
ایم کا اتحادی سفر ، جس میں روٹھنا منانا شامل حال رہا اور بالاآخر دونوں
اتحادیوں کی راہیں اپنے اپنے پارٹی منشور کے مطابق الگ ہوگئیں ۔ بلدیاتی
نظام کے حوالے سے احتجاج ہو یا کسی بھی معاملے پر اختلاف رائے ، یہ سب کا
جمہوری حق ہے ۔ سندھ کے لوگ ، آئے دن کی قانون سازیوں کی بنانے اورواپسی
لینے کی خبروں کے عادی ہوچکے ہیں ۔ ساڑھے چار سال قوم کے ضائع گئے اور شب
وروز ہونے والے اجلاسوں میں ہونے والے فیصلے ، محض پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے
۔ پنجاب ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان میں بھی دوہرا نظام چل رہا ہے لیکن کسی
کو کوئی اعتراض نہیں ۔بلکہ بے چارے سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کو تو یہ
بھی معلوم نہیں ہوگا کہ سندھ میں اب کس نظام کے تحت ان پر حکم چلائے جائیں
گے۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ انھیں جو وڈیرا، سائیں کہتا ہے ، وہی کافی
ہے ،پولیس ہو ، سرکاری ملازم ہو ، یا عام آدمی ہو ، انھیں صرف یہ معلوم ہے
کہ اندرونِ سندھ میں صرف وڈیروں کا حکم چلتا ہے اسلئے کمشنر ہو یا ڈپٹی
کمشنر ، جب تک وڈیرے کی دہلیز پر سر نہ جھکائے وہ کام تو کیا کرے گا ، زندہ
سلامت بھی نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کے قائم مقام گورنر نثار
کھوڑونے ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے مستعفی ہونے کے بعد
کمشنری نظام کی بحالی کے فوری احکامات جاری کردئے تھے تو اب وہی صورتحال ہے
جو کل تھی ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اکثریت ہونے کے
باوجود بھی بلدیاتی نظام کے حوالے سے کبھی بھی درست فیصلہ نہیں کیا گیا
کیونکہ انھوں نے جمہوریت کے نرسری ، بلدیاتی نظام کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے
۔وڈیروں ، سرداروں کے خاندان میں ہر شخص" پی ایچ ڈی"ِسیاست اور اقتدار کو
اپنا مورثی حق سمجھتا ہے ، اگر گلی کوچوں سے عوام سے لیڈر پیدا ہونے لگ گئے
تو یہ بچارے کیا کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی کسی حکومت میں
بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد غیر
فطری تھا ، پیپلز پارٹی ، بنیادی طور پر وڈیروں ، جاگیرداروں ، سرداروں اور
صنعت کاروں کے سیاسی اثر رسوخ رکھنے والی جماعت ہے اور دیہی علاقوں میں ان
اشرافیہ کے اثر ورسوخ کی بنا پر ہمیشہ کامیاب ہوتی رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم
، سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا ایک اثر رکھتی ہے اس لئے سندھ میں دو
طبقاتی نظام فطری طور پر رائج ہیں اور کوشش کے باوجود بھی ان سے چھٹکارا
نہیں پایا جاسکتا۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے پھر
عجلت میں کئے گئے فیصلے سے سندھ طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوگا اور دیہی و
شہری آبادیوں میں تفریق بڑھے گی اور شہری علاقوں سے جنوبی سندھ صوبہ کی صدا
اٹھنے میں اب وقت نہیں لگے گا۔یہ منصوبہ طشت ازبام ہوچکا ہے کہ عام
انتخابات کو ملتوی کرانے اور قومی اسمبلی سے اضافی وقت آئین کے تحت لینے کی
منصوبہ بندی تھی تاہم فوج کی جانب سے حالیہ بیان کے بعد تھوڑے بہت جو شکوک
و شہبات تھے انھیں اب رفع ہوجانا چاہیے ، گو کہ سپریم کورٹ کی جانب سے
قادری کیس کے تابوت میں جو کیل ٹھونکی گئی تھی وہ ہی کافی تھی کیونکہ مسئلہ
سیاسی جماعتوں کے لئے یہی ہے کوئی حکمران جماعت ایسی نہیں جو ووٹ کےلئے
عوام کے پاس فخر سے جا سکے کہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کارنامے وہ
انجام دے سکی ہے ، سندھ کی جماعتوں سے صرف اپیل کی جاسکتی ہے کہ سندھ کو
مفادات کی سیاست کا اکھاڑہ نہ بننے دیں ، قوم پرست سندھ قومی یکجہتی اور
اتحاد کی بحالی کےلئے اپنا کردار ادا کریں ۔نفرتوں کو پروان چڑھانے کی تمام
سازشوں کو ناکام بنائیں ، شہری علاقوں کی عوا م کو دیہی علاقوں کی عوام سے
بدظن نہ ہونے دیں ۔ انھیں گمراہ کرنے سے صرف شہری و دیہی تفریق میں مزید
اضافہ ہوگا ۔عوام تو اس وقت بھی تھے جب سندھ میں انگریزوں کا نظام تھا ،
یہی عوام اس وقت بھی تھے جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام بلدیاتی
ادارے بنا کر دس سال آمریت کی ، یہی عوام اب بھی ہیں جب ضیا الحق اور پھر
پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام جمہوری ادوار سے زیادہ چلے لیکن کبھی احتجاجی
بیان تک جاری نہیں کیا ،اب دوبارہ ضیا الحق کا دیا گیا بلدیاتی نظام
نافذکردیا گیا ہے ، پیپلز آرڈیننس کل تک جو نسخہ کیمیا ءتھا آج یکدم سندھ
کی عوام کے زہر ہوگیا ، منظوری کے وقت بھی تالیاں اور قصیدے اور واپسی کے
وقت بھی قصیدے اورشور شرابا۔ یہ کون سی سیاست فروشی ہے کہ سندھ کی عوام میں
نفرتوں کو پروان چڑھانے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔سندھ کے حکمرانوں کو اس
تفریق پیدا کرنے کے نتائج سے شائدآگاہی نہیں یا دانستہ اس حقیقت کو نظر
انداز کررہے ہیں کہ سیاست فروشی سے صرف عوام کو نقصان پہنچے گا۔ خدشہ ہے کہ
آرڈیننس کی واپسی نے کہیںجنوبی سندھ صوبہ کی بنیاد تو نہیں رکھ دی ؟؟۔ |