بلغاریہ کے وزیر اعظم بویئکو
بوریسوف نے عوامی احتجاج سے تنگ آکر آخر کار خو د ہی استعفی دے دیا۔ وجوہات
کو دیکھاجائے توہمارے حکمرانوں کیلئے لحاظ سے نہایت ہی معمولی اور غیر
سنجیدہ ہیں لیکن بلغاریہ کے عوام اور وزیرا عظم کیلئے یہ ایک ہاٹ ایشو تھا
اسی لئے وہ مستعفی ہوگئے یقینا ان کے وزیروں مشیروں نے انہیں لازمی طور پر
روکا ہوگالیکن وہ یقینا پاکستانی وزیراعظم نہیں تھے
مستعفی ہونے کی و جوہات میں کفایت شعاری اور بچت اقدامات کے ساتھ ساتھ بجلی
کے نرخوں میں اضافہ تھا جس کی وجہ عوام نے احتجاج کیا اور عالمی اقتصادی
بحران کی وجہ سے بلغاری کی حکومت بھی بچت پالیسیاں سا پامنے لانے پر مجبور
ہوگئی تھی جس کے نتیجہ میں مہنگائی بڑھی اور بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں
کرنے لگے تب حکومت کے حلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ بلغاریہ کے وزیراعظم بوریسوف
نے سوچا اور کہا کہ و ہ کسی ایسی حکومت کا حصہ نہیں رہنا چاہتے جس کے دور
میں پولیس عوام کو تشدد کا نشانہ بنائے اور مسائل کو حل کرنے کیلئے بات چیت
کا راستہ اختیار نہ کیا جائے ۔ بوریسوف نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ عوام نے ہی انہیں اس منصب کا اہل جان کر بٹھایا تھا اور اب انہوں نے یہ
حق واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے تو میں یہ حق واپس کررہا ہوں ۔ بلغاریہ میں
بے روزگاری سے پریشان حال دو افراد نے خود سوزی کی کوشش یھی کی جن میں سے
ایک ہلاک ہوگیا تھا جبکہ دوسرا زیر علاج ہے -
واضح رہے کہ بلغاریہ کا شمار پورپی یونین کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے
یہاں اوسطا ماہانہ تنخواہ 350 یورو ہے صوفیہ کی حکومت کے مطابق ملک میں
بیروزگاری کی شرح تقریبا12 فیصد ہے لیکن یورپی یونین کا اندازہ ہے کہ اصل
شرح 17 سے 18 فیصد ہے ۔ گزشتہ ایک برس کے دوران بلغاریہ میں بجلی کی قیمتوں
میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ بلغاروی عوام پر ایک واضح بوجھ تھا اور
وزیر اعظم نے اپنی نااہلی سمجھتے ہوئے استعفی دے دیا-
پاکستان میں معاملہ یکسر الٹ ہے یہاں معاملہ یہ ہے کہ پچاسیوں افراد روزانہ
دہشت گردی کا شکارہورہے ہیں کراچی جل رہا ہے اور مسلسل جل رہا ہے ۔ بم
دھماکے ٹارکٹ کلنگ کھلے عام فائرنگ بوری بند لاشوں کا ملنا راہزنی ڈکیتی کی
وارداتوں کا عام ہونا عدم تحفظ کا احساس کراچی کی پہچان بن چکے ہیں کوئٹہ
میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعات نے پوری امت مسلمہ کو دہلا کر رکھ دیا ہے
۔ لاقانونیت اور اقربا پروری و لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔خوشیاں خواب بن کر
رہ گئیں ہیں۔گھر سے نکلنے والا ہر شخص بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس لئے
ہوئے ہوتا ہے کہ شاید ہی وہ صحیح سلامت اپنے گھر کو واپس لوٹ سکے-
یہ سب کچھ بے حسی کا ثبوت ہے حکمران بے شرمی کی دوائی کھاکر بے غیرتی کی
نیند سو رہے ہیں۔بلغاریہ میں مہنگائی سے تنگ دو افراد کی خود سوزی نے بوئکو
بوریسوف کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااور انہوں نے اس معاملے کو اپنی نااہلی
گردانتے ہوئے عنان حکومت سے مستعفی ہونا ہی بہتر خیال کیا۔ لیکن اسلامی
جمہوریہ پاکستان میںہمارے صدر سے لیکر ایک ایم پی اے اور سیکرٹری سے لیکر
ایک کلرک تک تمام لوگ نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل کرنے کے کہیں نہ کہیںکسی
نہ کسی طرح ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ لیکان بے حسی کی چادر اوڑھے اور ڈھٹائی کے
لباس میں ملبوس ذہنیت کے یہ لوگ مکروہ ہنسی ہنستے دکھائی دیتے ہیں-
ہمارے پڑوسی ملک میں اگر ٹرین کا حادثہ ہوجاتا ہے اور کچھ لوگ لقمہ اجل بن
جاتے ہیں تو وزیر ریلوے اسے اپنی نااہلی نالائقی اور ذمہ داری مانتے ہوئے
مستعفی ہو جاتا ہے حالانکہ اس میں اس کا قصور کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان میں ریلوے کا محکمہ پورا کا پورا تباہ ہوجاتا ہے اور وزیر ریلوے کو
”بلور“ تک محسوس نہیں ہوتا ۔ لوگ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے
اسے اقتدار سے الگ کیا جائے اس کا محاسبہ کیا جائے لیکن بے بس عوام کی آواز
نقار خانے کی طوطی کی آواز کی مانند دب جاتی ہے اسے زبان خلق نقارہ خدا
نہیں سمجھا جاتا اور اگلے دن پھر کچھ نیا الٹ اور غلط ہوجاتا ہے -
جمہوروں کے ملک میں صرف اور صرف سیاسی کھیل چمکانے کیلئے انسانی جانوں اور
لاشوں کو بطور سیڑھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی مدد سے اعلی سے اعلی
منصب تک فائز ہونے کی کوشش میں تمام اخلاقی و قانونی حدیں پھلانگ لی جاتی
ہیںاور گناہوں کا کیچڑ دوسروں پر اچھال کر تمام معاملات سے اپنے آ پ کو بری
الذمہ کرلیا جاتا ہے ۔ جی ہاں یہی تو ہے پاکستانی حکمرانوں کی پہچان اور
یہی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان- |