مودی اور وزارت عظمیٰ ---- چند حقائق

1950ء کی دہائی کے آخری سالوں میں جن اصحاب کو ملکی سیاست سے ذرا بھی دلچسپی تھی انہیں یاد ہوگا کہ اس زمانے میں یہ سوال کہ ’’نہرو کے بعد کون؟‘‘ فکر و سوچ ہی نہیں بلکہ گفتگو کا موضوع رہا کرتا تھا کیونکہ اس وقت ملک بھر میں پنڈت جواہر لال نہرو جیسی قدر آور شخصیت یا ان سے کسی قدر کم کا بھی دور دور تک وجود نہیں تھا لیکن نہرو کے بعد ان کی صاحبزادی نے لال بہار شاستری کے مختصر دور وزارت عظمیٰ کے بعد پنڈت جی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہنگامی حالات کے بعد مرارجی دیشائی کا مختصر دور بھی برانہ تھا۔ اندر ا گاندھی کی ہلاکت کے بعد ملک کا کوئی شخص ان کی کمی پوری نہ کرسکا 2014ء (یا اس سے قبل بھی اگرانتخابات ہوتے ہیں تو دور دور تک نہرو اور اندرا گاندھی جیسا نہ سہی ) وزیر اعظم بننے کے لیے کسی جماعت کا کوئی موزوں امیدوار بھی نظر نہیں آتا ہے۔

گوکہ وزارت عظمیٰ کے امیدواروں میں نریندر مودی کے بڑے چرچے ہیں مودی کے بعد راہول گاندھی کا نام دوسرے نمبر پر ہے۔ قطع نظر اس کہ ان دونوں میں کوئی وزیر اعظم بن سکتا ہے یا نہیں؟ نہ صرف یہ دونوں بلکہ ان کے علاوہ جو نام ممکنہ امیدوار کی حیثیت سے لیے جارہے ہیں ان (سشما سوراج، ملائم سنگھ، چدمبرم یا نتیش کمار وغیرہ) میں سے بھی کوئی بہت زیادہ موزوں و مناسب ہرگز نہیں ہے۔ گویا جو سوال پنڈت نہرو کے زمانے میں اٹھایا جاتا پھر ایک بار ہمارے سامنے ہے بلکہ خاصہ پریشان کن بنا ہوا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اگر مودی یا راہول میں سے کوئی وزیر اعظم بن ہی جائے تو اس ملک کا کیا ہوگا؟

نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی سے زیادہ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور وہ میڈیا (ذرائع ابلاغ) ہیں جو نہ صرف خاصی حدتک اپنے طور پر سنگھ پریوار کے زیر اثر ہیں بلکہ بیشتر اخبارات اور ٹی وی چیانلزمناسب و پرکشش قیمت لگائے جانے پر بک جاتے ہیں اور مودی کے حامی سرمایہ دار ذرائع ابلاغ کو اپنا ہمنوا بنانے میں دل کھول کر خرچ کررہے ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مودی ہی ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ مودی کا وزیر اعظم بن جانا اتنا آسان نہیں ہے لیکن میڈیا اور ان کے حامی اسے نہ صرف آسان بتانے بلکہ بنانے میں مصروف ہیں۔ مودی کے حامی فرقہ پرستوں اور سرمایہ داروں کے لیے مودی کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں نہ صرف کٹھ پتلی بننے بلکہ انہیں خوش کرنے کا ہنر مودی کو آتا ہے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ مودی کے لیے ’’دلی اتنی قریب‘‘ نہیں ہے جتنی کہ دکھائی جارہی ہے۔

مودی کو بڑے سرمایہ داروں کی تائید کا ثبوت تو مکیش امبانی، رتن ٹاٹا اور دوسروں کے وہ بیانات ہیں جو انہوں نے مودی کی حمایت میں دئیے ہیں۔ میڈیا کی حمایت تو ٹی وی کے ناظرین دیکھ ہی رہے ہیں ایک خاص بات یہ ہے کہ دہلی کے شری رام کالج میں مودی نے حال ہی میں جو تقریر کی تھی اسے بیشتر اہم ٹی وی چیانلز نے جس اہتمام سے راست دکھایا اور اس تقریر کو اہمیت دی ساتھ ہی کالج کے باہر مخالف مودی کا ذکر بھی سرسری طور پر کیا گیا وہ میڈیا کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ بی جے پی مودی کے علاوہ شائد ہی کسی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنائے۔ مودی کی کمزوریوں کے قطع نظر مودی کے وزیر اعظم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بی جے پی یا این ڈی اے پارلیمانی انتخابات میں حکومت بنانے کا موقف حاصل کرے نیز یہ بات بھی یقینی ہے کہ بی جے پی شائد ہی تن تنہا حکومت بناسکے این ڈی اے میں اس وقت جو جماعتیں شامل ہوں وہ بھی مودی کو وزیر اعظم بنانے پر راضی ہوں۔ نتیش کمار، نوین پٹنائک اور جیۂ للیتا شائد ہی مودی کو قبول کریں اگر ممتا بنرجی، مایاوتی اور چندرا بابو نائیڈو بھی اگر این ڈی اے میں شامل بھی ہوں تو وہ خود یا مودی کے علاوہ ان کے اپنے آدمی کو وزیر اعظم بنانا پسند کریں۔

مودی کو وزیر اعظم بنانے کے دعوے کو مضبوط کرنے کے لیے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ان تین لگاتار کامیابیوں ، گجرات میں ہوئی ترقی (نام نہادر) اور یورپی یونین کے سفیروں سے ملاقات کے بڑے چرچے کئے جارہے ہیں اس کے ساتھ ہی بڑے طمطراق سے بی جے پی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اب گجرات کے مسلمانوں کی بھی مودی کو تائید حاصل ہے اس سلسلے میں مولانا محمود مدنی جیسے مفاد پرست رہنماؤں نے مودی کی تائید میں بیان دے کر جو فاش ہی نہیں بلکہ ناقابل معافی غلطی کی ہے اس کا بی جے پی پور ا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے اسے زبردست مبالغے کے ساتھ پیش کررہی ہے۔ غیر مسلموں سے زیادہ مسلمانوں کو گجرات کے مسلمانوں کے تعلق سے نہ صرف گمراہ بلکہ بدگمان کررہی ہے۔ گجرات کے مسلمانوں کی مودی کو تائید کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ان ہی کالموں میں نہ صرف ہم نے بلکہ دوسروں نے بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس سلسلے میں مختصراً یہ عرض کردوں کہ مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے اور جنہوں نے اپنا یہ حق استعمال کیا۔ انہوں نے ڈراور خوف سے مودی کو ووٹ دیا یا محض کسی متبادل نہ ہونے کے سبب یا کانگریسی کی مخالفت میں کیونکہ کانگریس نے بھی ہندوووٹ بینک کی خاطر مسلمانوں کو بری طرح نظر انداز کرتی رہی ہے۔ اسی سلسلے میں یو پی کے ممتاز بی جے پی قائد کلر راج مشرا کا بیان اردو اخبارات کے حوالے سے فیس بک پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ ایک بزرگ سیاسی تجزیہ نگار کی اس رائے سے شائد ہی کوئی انکار کرسکے کہ اگر گجرات کے تمام مسلمان مودی کی تائید کریں تو بھی انگلیوں پر گنے جانے والے مسلمانوں (از قسم شاہنواز حسین و مختار عباس نقوی) ملک بھر میں کہیں بھی مودی کو مسلمانوں کی تائید و حمایت نہیں مل سکتی ہے۔

ان خبروں نے کہ ’’مودی کی تیسری کامیابی الکٹرانک ووٹنگ مشین یا ووٹس کی گنتی کرنے والی مشین Counting Machineمیں مرہون منت ہے۔ مودی کی شاندار کامیابی پر شکوک و شبہات کے سائے ڈال دئیے ہیں ۔ مودی کے حامی سرمایہ دار اس قسم کی تکنیکی دھاندلی کرنے والے انجینئرس اور تکنیکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرسکتے ہیں اس قسم کے شبہات کااظہار پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔
گجرات کی ترقیات وخوشحالی کا بڑا چرچا رہا ہے۔ گجرات میں شروع ہی سے نہ صرف اعلیٰ طبقہ بلکہ درمیانی طبقے کا اعلیٰ طبقہ بھی خوش حال رہا ہے۔ خوش حال مسلمانوں اور خوشحال گجراتیوں کے مابین اوسطاً (300) فیصد کا فرق ہے اور یہ فرق بی جے پی راج میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔ خوش حال مسلمانوں کا مسلم آبادی میں بھی گھٹ رہا ہے ۔ عمومی ترقی کا پول تو جسٹس کاٹجو نے کھولا تھا اور بتایا تھا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست مدھیہ پردیش میں درحقیقت ترقیات کا گراف گجرات سے بہتر ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں میں مسلمانوں کی غربت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مقابلے میں 800فیصد زیادہ ہے۔ نئی دہلی کے تحقیقاتی ادارے CRDTPکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی تمام ریاستوں میں گجرات ہی وہ ریاست ہے جہاں پر فاقہ کشی اور بھوک سے ہلاک ہونے والوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ایک طرف بے شک خوش حالی ہے اور فی کس آمدنی بھی گجرات میں زیادہ ہے تاہم دوسری طرف صحت مند غذا کی کمی یا ناقص غذا کے سبب بچوں کی اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے (دودھ اور دودھ سے تیار ہونے والی اشیاء کی مشہور کمپنی امول AMULکا ذکر مودی نے بڑے فخر سے حال ہی میں کیا تھا) گجرات میں ترقی کے دعوے؁ کسی حدتک سچ بھی ہیں مندرجہ بالا رپورٹ کے مطابق گجرات میں غربت اور فاقہ کشی بھی بہت زیادہ ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہے۔ ریاست کا بڑا علاقہ بجلی اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔

کچھ ہفتے قبل تک امریکہ، برطانیہ اور یوروپی یونین کے رکن ممالک میں مودی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ امریکہ میں تو یہ اب تک برقرار ہے لیکن یوروپی ممالک میں اب مودی کا داخلہ ممکن ہوگا کیونکہ گجرات کے 2002ء کے فسادات میں مودی نے اپنے شرم ناک رول کے لیے یوروپی یونین کے سفیروں سے 2002ء کے واقعات پر اظہار افسوس کیا اور آئندہ اس قسم کی باتوں کے نہ ہونے کا یقین دلادیا ہے۔ اس سلسلے میں یقین کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی اور یوروپی یونین کے ممالک کو اپنی تجارت بڑھانے ہندوستان میں اپنی مصنوعات تیار کرکے ہندوستان کی وسیع و عریض منڈیوں میں فروخت کرنا ہے۔ نریندر مودی گجرات میں قیمتی زمین کوڑیوں کے مول دیتے ہیں اور کئی مراعات اور بے شمار سہولتیں دیتے ہیں۔ اس سے مہنگا فروخت کیا جانا والا مال سستے میں تیار ہوتا ہے۔ یہ مراعات کسی بھی سرمایہ دار کو مودی کی طرف مائل کرسکتی ہیں۔ پہلے ملک کے سرمایہ داروں کو مودی نے اپنا حمایتی بنایا اور اب یوروپ والوں کو اپنا بنالیا ہے۔ گجرا ت کے سرمایہ داروں اور ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اداروں سے وابستہ زیادہ آمدنی والوں کی وجہ سے گجرات میں فی کس آمدنی خاصی زیادہ ہے۔ شہری زندگی کی آسائشوں کو ترقیات کا نام دیا جارہا ہے ورنہ گجرات کے دیہات دوسری ریاستوں سے مختلف نہیں ہیں۔ سرمایہ داروں سے مودی کے تعلقات کی وجہ سے ہی مودی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
2002
ء میں مسلمانوں سے ظالمانہ سلوک، قتل عام کی سرپرستی اور ان کو شہری و دیہی علاقوں میں معاشی طور پر تباہ کرنے کے واقعات کا مودی نے بھلے ہی اعادہ نہ کیا ہو لیکن ان کے نقصانات کے ازالے کے سلسلے میں مودی نے کچھ نہیں کیا۔ مظلوموں سے انصاف کرنے ، مجرموں کو سزادینے میں مودی کی عدم دلچسپی کے سبب ہی سپریم کورٹ نے بار بار مداخلت کی۔ مودی کو ’’نیرو‘‘ سے تشبیہ دی ، جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ مارے گئے۔ مودی کو ان پر کی جانے والی تنقیدوں و اعتراضات کی کبھی بھی پرواہ نہیں رہی نہ ہی عدالتوں اور عدالت عظمیٰ کا احترام مودی نے نہیں کیا۔ چند دن قبل ایس آئی ٹی کی رپورٹ ذکیہ جعفری کو حوالے کرنے اور مرکزی حکومت کی جانب سے اقلیتی طالب علموں کے لیے دئیے گئے تعلیمی امداد اور وظائف کی تقسیم نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے مودی کی سرزنش کی ہے۔ اگر عدلیہ بار بار مداخلت نہ کرتی تو اﷲ جانے مودی کیا کرتے؟

مودی نے اپنی درندگی پر کبھی بھی اظہار معذرت یا اظہار افسوس تک نہیں کیا نہ ہی وہ اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہے۔ مودی نے کچھ یوروپی یونین کے سفیروں کے آگے وہ اگر مسلمانوں سے کہتے تو کوئی بات بھی تھی یوروپ کے سفیروں کے آگے ان کے اظہار تاسف کا مقصد مسلمانوں یا ہندوستانی عوام کو خوش کرنا نہ تھا بلکہ وہ یوروپی ممالک کے سفیروں کو خوش کرنا تھا۔ مودی کے حامی اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ عوام اور خاص طور پر مسلمان گجرات 2002ء کو بھول جائیں بلکہ یہ نفسیاتی حربہ استعمال کیا جارہا ہے کہ مسلمان گجرات 2002ء کو بھول رہے ہیں یا بھولا رہے ہیں اور مودی کے ترقی کے کاموں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یہ بنیادی نفسیاتی نکتہ بھول گئے ہیں۔ انسان کسی کو اس کی خطامعاف کرسکتا ہے لیکن اس خطا سے پہنچنے والی اذیت کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا ہے اور نہ ہی بقول جسٹس کاٹجو ’’فسادات میں نریندر مودی کا ملوث نہیں ہونا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کو کوئی تسلیم کرہی نہیں سکتا ہے۔ جسٹس کاٹجو کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کا تمام عطر بھی نریندر مودی پر لگے گجرات 2002ء کے داغ کو صاف نہیں کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی اس سے اٹھنے والی بدبو کو دور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف مودی اسے داغ نہیں بلکہ طرۂ امتیاز مانتے ہیں وہ مسلمانوں سے ووٹ مانگتے ہیں لیکن کسی اسمبلی حلقے سے ایک مسلمان کو بھی بی جے پی کا امیدوار نہیں بناتے ہیں۔ وہ گجرات کے غیر مسلم ووٹرس کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ کانگریس جیت گئی تو احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنائے گی۔ ہندوؤں کے ووٹ کے لیے وہ سادھو سنتوں کو استعمال کرسکتے ہیں۔

سابق مرکزی وزیر اور دانشور منی شنکر ائیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جس طرح آج سرمایہ دار اپنی غرض کی خاطر مودی کا ساتھ دے رہے ہیں اسی طرح 1930ء کی دہائی میں جرمنی کے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے محض اپنی غرض کے لیے ہٹلر کے مظالم نظر انداز کرکے ہٹلر کی مدد کی تھی۔

بظاہر مودی کی کامیابی کے امکانات کم ہیں لیکن سرمایہ دار، میڈیا، سادھو سنتوں اور فرقہ پرستی کا جذبہ مودی کے کام آسکتا ہے۔ کانگریس کی نااہلی، کرپشن اور عوام کی زندگی اجیرن کردینے والا طرز حکمرانی اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی مسلمانوں کی کانگریس سے دوری اور ناراضگی اور مودی کے مقابلے میں راہول کی کمزوریاں اور علاقائی جماعتوں کی ہوس اقتدار مودی کو وزیر اعظم کی کرسی حاصل کرنے میں کامیابی دلواسکتے ہیں جو ملک کی بدبختی کی انتہا ہوگی۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.