فیض پہنچاتے رہو سب کو شجر کی صورت

بجٹ اجلاس سے چار روز قبل برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ہندوستانی دورے کو اگر کوئی حسنِ اتفاق سمجھتا ہے تو وہ تجارت اور حکومت کے گہرے تعلق سے ناواقف ہے نیز اگر کسی کا خیال ہے کہ بجٹ اجلاس کی اولین رات کو حیدرآباد میں ہونے والے دھماکے محض اتفاق ہیں تو وہ بیچارا نہیں جانتا کہ سیاست اور دہشت کے درمیان کیا رشتہ ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ فی الحال تجارت ، حکومت،سیاست اور دہشت نے آپس میں ایک ایسی سانٹھ گانٹھ کر لی ہے کہ ان سب کے درمیان چولی، دامن ،پایل اورکاجل کو سا تعلق قائم ہو گیا ہے کہ یہ سب مل جل کر ایک دوسرے کے تعاون سے قہر برساتے ہیں۔

ڈیوڈ کیمرون نے۱۰۰ افراد پر مشتمل وفد کے ساتھ اقصادی دارالخلافہ ممبئی سےاپنے دورے کاا ٓغاز کیا ۔ اسی ہفتہ چونکہ برطانوی معیشت کا درجہ موڈی نامی بین الاقوامی اقتصادی تنظیم نے گھٹا دیا تھا اس لئے معیشت کی بابت ان کی فکرمندی بجا ہے ۔کیمرون کے وفد میں صرف ۱۳ سیاستداں اور بقیہ ۸۷ تاجر تھے۔ اس سے پہلے جب فرانس کا درجہ گھٹا تھا تو اس کے صدر نے بھی ہندوستان کا رخ کیا تھا ۔ یہ ستم ظریفی بھی خوب ہے کہ خستہ حال یوروپین ممالک ہندوستان جیسے ماضی کے غلام کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ برطانیہ کے اندر سب زیادہ زیرملازمت افراد جگوارلینڈ کروزر میں ہیں جسے ٹاٹا نے خرید لیا ہے۔ لوہے کی برطانوی صنعت متل اسٹیل بھی ایک ہندوستانی کی ملکیت ہے۔ عالمی اقتصادی نقشے پر فی الحال برطانیہ کا چھٹا نمبر ہے اور ہندوستان کا دسواں ہے لیکن یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ جلد ہی ہندوستان اسے پیچھے چھوڑ دے گا اور ؁۲۰۵۰ تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جائیگا اس لئے ہر کوئی اس کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔

ممبئی میں سرمایہ داروں کے ساتھ تجارت کرنے کے بعد کیمرون حکومت کے ساتھ سودے بازی کرنے کیلئے دہلی پہنچے ۔ وہاں ان کے پیش نظر دو کام تھے ایک تو برطانوی کمپنی وڈافون پر ۱۲۰۰۰ کروڈ کے ٹیکس میں سہولت حاصل کرنا اور فرانس کے ساتھ زیر غوررافلے فائٹر جیٹ کے سودے کو منسوخ کروا کر اپنے طیارے فروخت کرنا ۔ برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان آئندہ دوسالوں میں ۱۵۰۰۰ کروڈ کی تجارت کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں بھارت۶۵ لاکھ کروڈ روپئے اپنے بنیادی ڈھانچے(انفراسٹرکچر)کو بہتر بنانےپر خرچ کرنا چاہتا ہے اور برطانیہ کی نظر اس کے بڑے حصے ہے۔ اسی لئے چڑھتے سورج کے پجاری کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان اس صدی کی ابھرنے والی کامیاب ترین معیشت میں سے ایک ہوگا اور ہم چاہتے ہیں کہ اس ترقی اور کامیابی میں برطانیہ اس کاسب سے بڑا ساجھی دارہو ۔ ہندوستان کے ساتھ اشتراک کیلئے جن خصوصی رشتوں کے الفاظ برطانوی وزیراعظم نے استعمال کئے ہیں وہ اس سے قبل صرف امریکہ کیلئے مختص ہوا کرتے تھے۔

تجارت اور حکومت سے فارغ ہونے کے بعدکیمرون سیاست کرنے کیلئے امرتسر پہنچے ۔ مئی ؁۲۰۱۵ میں انہیں دوبارہ انتخاب لڑنا ہے اور برطانیہ میں پندرہ لاکھ ہندوستانی رائے دہندگان ہیں ۔ ان کی خوشامد کیلئے کیمرون نے جلیان والا باغ کا دورہ کیا۔ وہاں ننگے پیر گئے گھٹنوں پر جھک کر گلہائےعقیدت نذر کے اور زائرین کی بیاض میں اسے برطانوی سامراج کا سب سے شرمناک واقعہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ۔ لوگ ان سے توقع کررہے تھے وہ معافی مانگیں گے لیکن ایسا کرنے سے انہوں نے گریز کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معافی مانگنی نہیں تھی تو وہاں گئے کیوں تھے ؟ اس سوال کا جواب ہے ہندوستانیوں اور سکھوں کو خوش کرنے کی خاطر۔ اور پھر معافی کیوں نہیں مانگی؟ تواسکی وجہ اپنے گورے رائے دہندگان کو ناراض نہ کرناہے۔

انگریزحکمرانوں سے ان کے غلام سیاستدانوں نے یہ فن بہت اچھی طرح سیکھا ہے ۔ اس کی بہترین مثال اسی ہفتہ وزیرداخلہ سشل کمار شندے نے پیش کی ۔ جے پور میں انہوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے اور بی جے پی کو مشکل میں ڈالنے کی خاطر زعفرانی دہشت گردی سے قوم کو متنبہ کیا تھا ۔ چونکہ جے پور اور اجمیر دھماکوں میں ہندو دہشت گردوں کا ملوث ہونا تقریباً ثابت ہوچکا ہے اس لئے وزیرداخلہ کا یہ بیان مبنی برحقیقت تھا لیکن اس سے بی جے پی کو حکومت کی مخالفت کا ایک موقع ہاتھ آگیا ۔ ان لوگوں نے وزیرداخلہ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا ۔ بجٹ اجلاس سے قبل بی جے پی کو منانے سمجھانے کی خاطر شندے نے بھی کیمرون کی مانند افسوس کا اظہار کیا۔ نہ تو بیان واپس لیا اور نہ معافی مانگی ۔ اس سے بی جے پی کی خوشامد بھی ہوگئی اسے اپنا احتجاج واپس لینے کا بہانہ بھی مل گیااور جو ہندو ووٹرشندے کے بیان سے ناراض ہوگیا تھا وہ بھی مطمئن ہوگیا ۔

ڈیوڈ کیمرون کو تو دوسال بعد مگر کانگریس کو تو آئندہ سال مئی میں انتخاب لڑنا ہے اس لئے اس کیلئے یہ بجٹ اجلاس غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ اپنے سارے چندہ دہندگان کو خوش کرنے کا یہ آخری موقع ہے تاکہ اگلے الیکشن کیلئے ان سے مزید سرمایہ حاصل کیا جاسکے اور اس کام میں حزب اختلاف کا تعاون غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے ۔ بی جے پی کو بھی ساہوکاروں سے دولت حاصل کرنی ہے اس لئے وہ بھی ان کو ناراض کرنا نہیں چاہتی اس لئے دونوں کے اندر بڑی آسانی سے من مٹاو ہوگیا لیکن اس بار کےبجٹ میں کانگریس کو سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ ترقی کی شرح کم ہوکر ؁۲۰۰۳ کی سطح پر پہنچ گئی ہے ۔ایسے میں معیشت کی مضبوطی کی خاطرکئے جانے والے اقدامات عوامی فلاح وبہبود کی جانب سے توجہات ہٹاتے ہیں۔ دن بدن مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پسنے والی عوام کیلئے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
بجٹ اجلاس کے دہانے پر تمام مزدور یونینوں نے متحد ہوکر ایک بھارت بند کا اعلان کیا جسے غیر معمولی کامیابی ملی ۔ اس ملک گیرہڑتال نےعوام کے ان بنیادی مسائل کوابھارا جن سے حکومت اور سیاسی جماعتیں صرف نظر کررہی تھیں ۔ان مسائل کازعفرانی دہشت گردی اور اس پر کی جانے والی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اس لئے شندے کی معذرت کافی نہیں تھی سو دھماکہ ہوگیا ۔ حیدرآباد کے دھماکے نے ذرائع ابلاغ کی ساری توجہعوام کے بنیادی مسائل اور ملک گیر ہڑتال ہٹاکر دہشت گردی کی جانب مبذول کروادی اور لوگ بھول گئے کہ احتجاج کیوں کیا جارہا تھا ۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے بجٹ اجلاس سے ایک روز قبل سیاسی جماعتوں سے جس تعاون کا مطالبہ کیا تھا اور اتحاد و یکجہتی کی توقع کی تھی وہ انہیں با آسانی حاصل ہوگئی ۔ بجٹ اجلاس کےدوسرے دن ساری پارلیمان حیدرآباد ھماکے کے خلاف نہ صرف متحد بلکہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔

حزب اختلاف کی رہنما سشما سوراج نے وزیر داخلہ کی نا اہلی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا اطلاع ہونے باوجود یہ دھماکے کو کیوں نہیں روکا جاسکا؟اور معصوم لوگوں کی جانیں کیوں ضائع ہوئیں؟ہمیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا چاہئے؟ یہ تو گویا کانگریس کی من مراد تھی جو پوری ہوگئی ۔ سشما نے پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نہ اسکی کوئی ذات اور نہ رنگ ہوتا ہے ۔جب تک ہندودہشت گرد گرفتار نہیں ہوئے تھے یہ بات سنگھ پریوار کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ ملائم سنگھ یادو جو کبھی کانگریس کے لئے سخت تو کبھی نرم ہوتے رہتے ہیں بولے سارا ملک اور ایوان حکومت کے ساتھ ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے ساری قوم متاثر ہوتی ہے اور خوف کے ما حول میں زندگی بسر کرتی ہے ۔ اس طرح بجٹ اجلاس سے قبل حکومت نے ایک دھماکے کی مدد سے اپنے حلیفوں اور حریفوں دونوں کو دام فریب میں گرفتارکرلیا ۔ اس کیلئے چند معصوموں کا خون کا نذرانہ اورکچھ بے گناہ نوجوانوں کو قیدو بندکسی بھی سفاک اقتدار کیلئےمہنگا سودہ نہیں ہے ۔

اس دھماکے سے وزیرداخلہ شندے نے گویا اپنے سارے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ۔اس لئے کہ دھماکے کے دوسرے دن انہوں نے اپنے اندیشے کااظہار کرتے ہوئے فرمایا یہ افضل گرو اور اجمل قصاب کی پھانسی کا ردعمل ہو سکتا ہے ۔ان کے مطابق وہ ان پھانسیوں کے ردعمل کی توقع کررہے تھے اور اسی لئے سارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو چوکنا کردیا گیا تھا ۔انہوں نے کولکتہ میں یہ اعلان کیا کہ کئی ریاستیں اس کی مخالفت کے باوجود اب انسدادِ دہشت گردی کا قومی مرکز قائم کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ اس ایک دھماکے کی مد دسے شندے نے ہندو رائے دہندگان کو پھر ایک بار یاد دلایا کہ افضل گرو اور اجمل قصاب کو پھانسی دینے کا کارنامہ ان کی جماعت نے کیا ہے اس لئے انہیں بی جے پی کے بجائے کانگریس کا احسانمند ہونا چاہئے۔ انہوں نےدھماکوں کا تعلق افضل اور اجمل سے جوڑ کر شک کی سوئی کو مسلمانوں کی جانب موڑ دیا حالانکہ حیدرآباد میں اس سے قبل مکہ مسجد دھماکے کے ذمہ دار ہندو دہشت گرد پائے گئے تھے ۔

شندے جو کچھ کہا اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا ان کی پولس دھماکے کے بعد تین تین گھنٹے کے اندر اس نتیجہ پر پہنچ گئی تھی ۔ وہ رات ۱۱ بجے سے قبل لشکر طیبہ،جیش محمد اور حزب المجاہدین کے ساتھ انڈین مجاہدین کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کرچکی تھی۔ اسی کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے اندر اس نے سید مقبول اور عمران خان کے نام ظاہر کردئیے جو اکتوبر سے پولس حراست میں ہیں ۔ یہ دلچسپ بات ہے جن لوگوں کو پولس گرفتار کرکے رکھے ہوئے ہے وہ دھماکہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ریاض بھٹکل کے اشارے پر ان دھماکوں کے ہونے کا الزام بھی ذرائع ابلاغ میں آگیا گویا ساری ذمہ داری مسلمانوں کےسر منڈھ دی گئی حالانکہ اس وقت تک فارنسک تجربہ گاہ کی رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی ۔ کانگریس نے اس دھماکے کی مدد سے اپنےقومی انسدادِ دہشت گردی کے مرکزکا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کی بھی سعی شروع کردی جس کی مدد سے مرکزی حکومت کوریاستی حکومت کے کام کاج میں دخل اندازی کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں۔

دھماکوں کی دھول میں ملک گیر ہڑتال کے ان مطالبات کو حکومت سمیت قوم نے یکسر بھلا دیا جن کا تعلق عام آدمی سےہے ۔ دورحاضر میں ذرائع ابلاغ پر جس طبقہ کو عام آدمی کا نام دیا جارہا ہے وہ دراصل متوسط طبقے کے لوگ ہیں جو امیروں کے مقابلےبدحال ضرور ہے لیکن غریب عوام سے بہت زیادہ خوشحال ہے اور سرکاری سہولتوں کا سب سے زیادہ مستفید ہورہے ہیں ۔ اس بند میں اول تومہنگائی کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر لگام لگانے میں حکومت پوری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔بیروزگاری کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی تھی گوکہ صدر مملکت نے آئندہ دس سالوں دس کروڈ نیا روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ دس سال کافی طویل مدت ہےملک کے نوجوان جاننا چاہتے ہیں مستقبلِ قریب میں کیا ہوگا ؟ ہندوستان میں محنت کشوں کیلئے بے شمار قوانین ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اسلئےاس جانب بھی توجہ مبذول کروائی گئی ۔

حیرت کی بات یہ ہے بجٹ پر ہونے والے مباحث میں شاذو نادر ہی ان مسائل پر گفتگو ہوتی ہے ۔ زیادہ تر گفتگو خسارے کو کم کرنے یا ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے کے بارے میں ہوتی ہے۔ حکومت کو اپنی ۳۴ نشستوں میں ۷۱ دستوری ترمیمات کو منظور کروانے کی فکر لاحق ہے اور اسی کے ساتھ قومی بجٹ کے ساتھ ساتھ ریلوے بجٹ کا بھی مسئلہ ہے۔دستوری ترمیمات میں سے تین کا تعلق خواتین سے ہے اور دو دہلی عصمت دری کے واقعہ کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں۔ جسٹس ورما کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی تعذیرارتی قوانین میں تبدیلی ، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا قانون اور خواتین کیلئے ایوان میں محفوظ نشستوں کا قانون ۔اس کے علاوہ دلتوں کیلئے ریزرویشن کا معاملہ ، شکایات درج کرانے کا قانون، لوک پال بل ،لازمی تعلیم اور غذا کی یقین دہانی کا قانون اہم ہیں ۔

اقتصادی میدان میں گزشتہ دہائی کو ہندوستان کا سنہرہ دور کہا جاتا ہے اس لئے کہ عالمی کسادبازاری کے باوجود جبکہ یوروپ اور امریکہ ۱یا ۲ فیصد کی شرح سے ترقی کررہے تھے ۔فرانس صفر پر خوش تھا اور پولینڈ ،اسپین ۔اٹلی ویونان جیسے ممالک کا دیوالیہ پٹ رہا تھا ہندوستان کی ترقی شرح ۹ فیصدر تک پہنچ گئی تھی ۔لیکن گزشتہ سال ہندوستان کی ترقی کی شرح ۵ سے کم ہوگئی اوراب انڈونیشیا ہندوستان سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سنہری دور میں بھی غریبوں کی حالت زار میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا ۔ ان کی آمدنی میں اضافہ مہنگائی کی شرح سے کم رہا اور چین کے مقابلے یہ رفتار ۷ گنا کم تھی ۔ ملک کے ۲۰ کروڈ لوگ بجلی سے محروم رہے اور ۶۰ کروڈ کی شامیں بجلی کی کٹوتی کے باعث تاریک رہیں ۔

وزیر اعظم منموہن نے بھی یہ تسلیم کیا کہ بچوں کی ناقص غذائیت یا قلت کا باعثِ شرم ہونا تسلیم کیا لیکن اس جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی۔ صحت عامہ پر چین نے اپنی مجموعی پیداوارکا ۷ء۲فیصد خرچ کرکے عوام کیلئے صحت کی سہولت کو یقینی بنایا لیکن ہم نے صرف ۲ء۱ فیصد خرچ کرنے پر اکتفا کیا ۔ اس دوران بدعنوانی میں بے شمار اضافہ ضرور ہوا اور سوئس بنکوں میں ہندوستانی کالا دھن سب سے زیادہ ہوگیا ایسے میں ایک خوش کن خبر عظیم پریم جی کی جانب سے اخبارات میں آئی جنھوں نے ۱۲ ہزار تین سو کروڈ روپئے اپنے خیراتی ادارے عظیم پریم جی فاونڈیشن میں اعانت کے طور پر جمع کرادئیے تاکہ اس کا استعمال عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیا جاسکے ۔اس سے قبل ؁۲۰۱۰ میں وہ ایک خطیر رقم اس کارخیر کیلئے وقف کرچکے ۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک جانب ملک کے سیاسی رہنماعوام میں تفریق و عداوت کے بج ڈال کر قومی خزانے لوٹ رہے ہیں دوسری جانب ایک بے لوث تاجر افتخار راغب کے اس شعر کی مصداق اپنی دولت غریب عوام پر لٹا رہا ہے
کوئی تفریق نہ مطلب نہ عداوت نہ حسد
فیض پہنچاتے رہو سب کو شجر کی صورت
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449471 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.