قائداعظم ؒ اور اقبال ؒ کا پاکستان

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریرکرتے ہیں حضرت ابومسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے لوگوں کو (سخت بھوک کی )مشقت اٹھانی پڑی۔ (جس کی وجہ سے )میں نے مسلمانوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار اور منافقوں کے چہروں پر خوشی آثار دیکھے جب حضور نے بھی یہ بات دیکھی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لیے رزق بھیج دیں گے جب حضرت عثمان ؓ نے یہ سنا توانہیں یقین ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات ضرور پوری ہو گی چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے چودہ اونٹنیاں کھانے کے سامان سے لدی ہوئی خریدیں اور ان میں سے نو اونٹنیاں حضور کی خدمت میں بھیج دیں۔ جب حضور نے یہ اونٹنیاں دیکھیں تو فرمایا یہ کیا ہے عرض کیا گیا یہ حضرت عثمان ؓ نے آپ کو ہدیہ میں بھیجی ہیں اس پر حضور اتنے زیادہ خوش ہوئے کہ خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر محسوس ہونے لگے اور منافقوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار ظاہر ہونے لگے میں نے حضور کو دیکھا کہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور حضرت عثمان ؓ کے لیے ایسی زبر دست دعا کی کہ میں نے حضور کو نہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی کے لیے ایسی دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ عثمان ؓ کو (یہ اور یہ )عطا فرما اور عثمان ؓ کے ساتھ (ایسا اور ایسا) معاملہ فرما۔

قارئین غم اور خوشیاں انسانی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں وہی انسان دانش مند کہلاتا ہے جو مصیبت کے وقت صبر کرے اللہ پر بھروسہ رکھے اور استقامت کے ساتھ راہ راست پر قائم رہے ایسے ہی لوگ رحمان کے بندے کہلاتے ہیں اور کامیابی بھی ایسے لوگوں کے قدم چومتی ہے ۔ ہم اپنی قومی زندگی کو بھی اگر ذرا غور سے دیکھیں تو قیادت سے لے کر عوام تک کئی کامیابیاں بھی موجود ہیں اور کئی مرحلے ایسے بھی ہیں کہ جن سے سبق ملتا ہے کہ ذرا سی غلطی کی سزا اس نوعیت کی ملی کہ قومی سطح کی ناکامیاں ہمارا مقدر بنیں۔ وہ بنگالی کہ جنہوں نے پاکستان بنانے کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، یہ وطن حاصل کرنے کے لیے جن کا کردار سب سے کلیدی نوعیت کا تھا اور کلمے کی خاطر ان بنگالیوں نے بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی اور پہلی اسلامی نظریاتی ریاست قائم کر کے اپنی قلبی وابستگی اور دینی حمیت کا ثبوت دیا تھا جب ہم نے کچھ غلطیاں کیں تو ان دوستوں کا دل کچھ ایسا ٹوٹا کہ 1971میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ کچھ لوگ غلطیوں کا تمام تر ذمہ دار اس وقت کی فوجی قیادت کو ٹھہراتے ہیں اور کچھ تجزیہ کاروں اور سیاسی مخالفین کے خیال میںپیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جذباتی سیاسی اپروچ کی وجہ سے حالات بگڑنا شروع ہوئے اور ”اِدھر ہم اُدھر تم“ جیسی دل توڑ دینے والی بات بھی ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کی گئی اپنے اس کالم کے اندر ہم نہ تو گڑے ہوئے مردے اکھاڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی فوت شدہ قائدین کے بارے میں دل آزاری پر مبنی کوئی بات کر کے نفرتوں کی فضاءکو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں پہلے ہی نفرتوں کی یہ فصلیں بوجوہ مشرومز کی طرح اگتی ہیں اورآکاس بیل کی طرح جس بھی سرسبز و شاداب کھیتی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اسے اجاڑ کے رکھ دیتی ہیں۔

قارئین عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا تھا ان کی وفات کے فوراً بعد ایسی جھوٹی اور ڈمی قیادت نے اس ملک کو ٹیک اوور کر لیا کہ جس نے نظریہ پاکستان، فکری تصورات، اقبال کے خواب، قائد کی سوچ اور قیام پاکستان کی روح کو مسخ کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ کے کلام کو بھی اپنی مرضی کا شرعی پاجامہ پہنا دیا، ایسا شرعی پاجامہ کہ جو علامہ اقبال ؒ کی انقلابی اور اجتہادی سوچ اور فکر سے کوسوں دور تھا اور جس کا نتیجہ ان انگاروں کی شکل میں نکلا کہ جس کی زد میں آ کر لاکھوں پاکستانی متاثر ہو چکے ہیں۔ شیعہ، سنی ، اہلحدیث، بریلوی ،دیوبندی اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ پہلے بھی اس معاشرے میں رہتے تھے اور برداشت اور باہمی احترام کے ساتھ اختلاف رائے موجود تھا۔ لیکن ایک خاص طبقے نے اپنی روٹیوں کی خاطر اور اپنی چوہداہٹ قائم کرنے کے لیے دین کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور مصور پاکستان جنہوں نے اس وطن کا خواب دیکھا اور قوم کو اس ملک کا خواب دیا ان کی فلاسفی کو اپنی مرضی کے مطلب پہنا کر کروڑوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کا استحصال کیا یقین جانیے کہ استحصال کی یہ قسم شاید غلیظ ترین قسم ہے کہ انسان کو مذہب کے نام پر جذباتی کرتے ہوئے فساد کو فروغ دیا جائے حالانکہ دین کا سبق اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسی طریقے سے فوجی آمروں کے دور میں صحافتی حلقوں کا یہ تجزیہ ہے کہ لسانی بنیادوں پر مسلح تنظیمیں قائم کی گئیں اور مسلکی اختلافات کوخون بہانے کا ذریعہ بناتے ہوئے لشکر کے لشکر قائم کیے گئے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے عاری نہ ہو گی کہ سات آزادیوں کے علمبردار اور دنیا میں امن کی بانسری بجانے والے دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ ایکسپورٹ کرنے والے پیارے ملک امریکہ نے لسانی اور مذہبی تقسیم کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی اور اور بالواسطہ طریقے سے دو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ممالک کو استعمال کرتے ہوئے مذہبی لشکروں کو فنڈنگ مہیا کی اور ڈائریکٹ ایکشن کرتے ہوئے لسانی بنیادوں پر بننے والے مسلح جتھوں کو ہر طرح کی امداد دی ۔ کبھی ہم نے سوچا کہ اس کامقصد کیا تھا، کبھی ہم نے غور کیا کہ امریکہ بہادر کے پیٹ میں ان مذہبی اور لسانی بنیادوں پر بننے والی تنظیموں کے لیے درد کیوں جاگا۔۔۔۔۔؟ ان سوالوں پر غور کرنا بہت ضروری ہے ایک وقت تھا کہ جب دنیا میں امریکہ کے مقابلے میں روس موجود تھا دنیا دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اور معیشت سے لے کر فوجی حکمرانی کے مفادات کے لیے یہ دو ممالک اپنی جنگیں دنیا کے دیگر ممالک میں لڑتے رہے ایران عراق جنگ ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی، کیوبا کا ناطقہ بند کرنا اور اسی طرح کے دیگر درجنوں محاز ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جہاں امریکہ بہادر نے روس کے ساتھ پنجہ آزمائی جاری رکھی اور عالمگیریت کی اس جنگ میں یقین جانیے کہ کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے ۔ سوچا جائے کہ اس بڑے منظر نامے یا وسیع کینوس کے اوپر پاکستان کی کیا حیثیت ہے اور پاکستان کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کا مقصد کیا ہے ؟کیونکہ ایک خاص قسم کا لکھاری طبقہ ہمیشہ سے یہ مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان تیسری دنیا کا ایک پسماندہ ترین ملک ہے جہاں کا ہر شعبہ کرپشن، جہالت، اقربا پروری سے لے کر دیگر سماجی برائیوں کا شکار ہے تو آخر پاکستان کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی تو جناب سب سے پہلے آپ سے یہ بات عرض کرتے چلیں کہ پاکستان ہر گز ایک معمولی حیثیت رکھنے والا ملک نہیں ہے پاکستان کا خواب علامہ اقبال ؒ نے دیکھا ، اسے معرض وجود میں لانے کے لیے مسلمانان برصغیر نے لاکھوں شہداءکا خون دیا، اس کی فکری اور نظریاتی اساس کلمے پر رکھی گئی اس کی خاطر علماءکرام نے بڑی قربانیاں دیں وہ قربانیاں کہ جن کے ڈانڈے 1857کی جنگ آزادی سے جا ملتے ہیں کہ جس کے دوران ہزاروں علماءکرام کو توپ دم کر دیا گیا تھا ۔ علماءحق نے اجتہاد کرتے ہوئے ایک طرف تو مولانا ابوالکلام آزاد کی صورت میں یہ موقف پیش کیا کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے مسلمانوں کی متحدہ قوت بکھر جائے گی اور مسلمان فیصلہ سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں گے اور ایسا بھی ہو گا کہ وہ مسلمان کہ جن کی اکثریت ہندوستان میں پیچھے رہ جائے گی ان کےلئے مشکلات پیدا ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ وہاں دوسری طرف مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی شکل میں وہ علماءدین بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سوچ کو درست قرار دیتے ہوئے پاکستان کے قیام کو ناگزیر قرار دیا۔ جب یہ مملکت وجود میں آ گئی تو خطے میں ایک دلچسپ قسم کی جغرافیائی تقسیم دیکھنے میں آئی پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جہاں سونے سے لے کر تیل تک ہر طرح کی قدرتی وسائل کی دولت فراوانی کے ساتھ موجود ہے ہم ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک وند جنید انصاری “میں اپنے رہبر اور آزاد کشمیر کے سینئر جرنلسٹ راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ چند تاریخی انٹرویوز کیے ہم نے پاکستان اور امت مسلمہ کے دورِ حاضر کے سب سے بڑے محسن ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ جناب یہ پاکستان کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے آنسوﺅں سے بھری آواز میں بتانا شروع کیا کہ آپ لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کیا ہے یہ پاکستان وہ ملک ہے جس کی قدر میں اور میری نسل کے لوگ جانتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ میٹرک کرنے کے بعد ریگستان کی تپتی ریت پر ننگے پیر کئی کلو میٹر پیدل سفر کر کے میں پاکستان داخل ہوا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ میں نے ہندوستان سے پاکستان آنے والی مہاجرین کی وہ ریل گاڑیاں دیکھیں کہ جن میں کوئی زندہ مسافر نہ تھا اور ان سے بے گناہ مسلمانوں کا خون ٹپک رہا تھا جن کا جرم یہ تھا کہ وہ آزادی چاہتے تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب یہ داستان سنانا شروع کی تو یقین جانیے کہ سننے والوںکی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ اس موقع پر ہمارے استاد راجہ حبیب اللہ خان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سوال کیا کہ کیا پاکستان کی ایٹمی طاقت محفوظ ہے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مضبوط آواز میں یہ بات کہی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام انتہائی ذمہ دارعسکری قیادت کی تحویل میں ہے اور سوفیصد محفوظ ہے اور پاکستان کو اب سرحدوں کے اوپر دنیا کی کوئی طاقت پچھاڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر عوام نے شعور کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے اگر دیانتدار، اہل اور ملک کی فکری اساس سے وابستہ قیادت کو موقع نہ دیا اور کوئی ضمیر فروش دوبارہ اس ملک کا سربراہ بن گیا تو پاکستان کی عسکری طاقت اور ایٹمی قوت کو نیوٹرالائز کیے جانے کا اندیشہ موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح ہم نے پاکستان کے ایک محسن اور جدید تعلیم یافتہ پاکستان کے تصور کے بانی ڈاکٹر عطا الرحمن سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ گفتگو کی ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا ان منفرد ممالک میں سے ایک ہے کہ جہاں قدرت کی عطاکردہ ہر نعمت وافر مقدار میں موجود ہے لیکن فرق ہے تو صرف اور صرف پاکستانیت پر یقین رکھنے والی اہل اور دیانتدار قیادت کا۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کے ان منفرد ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے کہ جہاں 65%آبادی 15سے 35سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے ۔ یہ افرادی قوت اتنی بڑی دولت ہے کہ اگر اس کا درست استعمال کر لیا جائے اور انہیں جدید تعلیم ، ٹیکنیکل تعلیم اور دیگر مہارتوں کے ساتھ آشنا کر دیا جائے تو یہ ملک کو ترقی کے ایک ایسے ٹریک پر لے جا سکتے ہیں کہ جو کامیابی کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کا خیال تھا کہ اگر ایسی درست قیادت سامنے آ جائے تو دس سال میں پاکستان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔

قارئین درج بالا تمام بحث اور گزارشات کا ایک خاص مقصد ہے کہ وہ طبقہ جو بیس کروڑ کے قریب پاکستانیوں کو فکری سطح پر شکست خوردگی سے دو چار کرنا چاہتا ہے ان کی نفی کی جائے اور دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان ایک معمولی ملک نہیں ہے پاکستان دنیا کی قیادت کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے پاکستان میں تمام قدرتی خزانے بھی موجود ہیں اور افرادی قوت بھی جو دنیا کی ذہین ترین نوجوان نسل پر مشتمل ہے جس کے متعلق ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا تھا کہ پاکستانی نوجوان طلبائ، طالبات دنیا کے تمام مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہیں اور ان کی ذہانت عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔ انکل سام اور ان کے دیگر حواری اور گماشتے دراصل پاکستان کی اس طاقت سے آگاہ ہیں جس سے پاکستانی خود ناآشنا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پہلے پاکستان کو ایک منصوبہ بندی کے تحت کمزور کرنے کے لیے مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا ایک عمل شروع کیا گیا اور اس کے بعد ان دنوں ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“کے عنوان سے افواج پاکستان ایک بے معنی اور بے مقصد جنگ میں الجھایا گیا ہے۔ یہاں لکھاریوں ، صحافیوں اور قوم کو فکری بنیادوں پر تربیت دینے والے اداروں کا کام بنتا ہے کہ وہ حمید نظامی مرحوم ، مجید نظامی اور ان جیسے دیگر نظریاتی قلمی قائدین سے سبق سیکھیں اور قوم کو سچ سے آگاہ کریں یہی وقت کا تقاضا ہے۔ بقول غالب
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمد فصل لالہ کاری ہے
قبلہ مقصد نگاہ نیاز
پھر وہی پروہ عماری ہے
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدارِ ذوق خواری ہے
وہی صدرنگ نالہ فرسائی
وہی صد گونہ اشکباری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشر ستاں بیقراری ہے
جلوہ پھر عرض ناز کرتا ہے
روز بازارِ جاں سپاری ہے
پھر اسی بے وفاپہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر کھلا ہے در عدالت ناز
گرم بازار فوج داری ہے
پھر دیا پارہ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ وزاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکار ی ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

قارئین اس وقت انکل سام کی گریٹ گیم کا آخری راﺅنڈ شروع ہو چکا ہے اورہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ آخری فتح اہل حق کی ہو گی یہاں بیس کروڑ مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسے ٹھیکیداروں سے بچیں جو دین کو اپنے مطلب اور مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کے عمل کو فروغ دیتے ہوئے قیام پاکستان کو وسیع تر مقاصد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیںاور ایسے قائدین اور نیم حکیموں سے بھی پرہیز کریں کہ جو کلمے کی فکری اساس کی نفی کرتے ہوئے لسانی بنیادوں پر نفرتوں کی کانٹوں بھری فصل ارض پاک پر اگانا چاہتے ہیں اسی میں پاکستان کی بقاءہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

آخر میں خلاف روایت لطیفہ کی جگہ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے
کہتے ہیں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ ایک روحانی شخصیت کے پاس تشریف فرما تھے اس روحانی شخصیت کا ایک دیہاتی مرید وہاں پر آیا اور آ کر پیر صاحب کے ہاتھ چومتے ہوئے کہنے لگا ”سرکار مجھ پر ایک سو روپے کا قرض ہے دعا کریں کہ یہ قرض جلد اتر جائے“ یہ کہہ کر دیہاتی مرید نے پانچ روپے پیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے۔
علامہ اقبال ؒ بے ساختہ مسکرائے اور کہنے لگے
”پہلے یہ قرض ایک سو روپے تھا اب ایک سو پانچ روپے ہو گیا ہے“

قارئین پاکستانی قوم علامہ اقبال ؒ ، قائداعظمؒ،حمید نظامیؒ اور ان لاکھوں مسلمان شہداءکی مقروض ہے کہ جنہوں نے حق وصداقت کی آواز بلند کی اور اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے پاکستان قائم کیا۔ یقینا قوم یہ قرض ادا کرے گی ۔انشاءاللہ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336594 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More